چھالیہ، تمباکو، چونا، کتھا…… جس کا ہر قطرہ زہر 2020

تحریر: شیخ محمد انور 2020
فون نمبر: 0333-2250719
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
چھالیہ، تمباکو، چونا، کتھا…… جس کا ہر قطرہ زہر
چھاتی کے کینسر میں پان، چھالیہ اور گٹکے کا اہم کردار
پان، چھالیہ اور گٹکے کے نقصانات اور حکومتی پابندی
اس وقت پوری دنیا میں 21کروڑ سے زائد افراد تمباکو یا پان چبارہے ہیں۔
پان چھالیہ اور گٹکا صحت کیلئے انتہائی مضر ہیں لیکن برصغیر پاک و ہند میں اس کا استعمال سب سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ ان کے زیادہ استعمال سے لوگوں میں منہ کا کینسر عام ہے۔ اس کے مضر اثرات کے بارے میں ٹیلی ویژن اور اخبارات میں اکثر آگاہی مہم بھی چلائی جاتی ہیں اور ہرسال اکتوبر کے مہینے منہ کے کینسر اور بریسٹ کینسر حکومتی سطح پر لوگوں میں شعور پیدا کرنے کیلئے خوب زوروشور سے اس پیغام کو پھیلاتی ہے لیکن سب بے سود رہتا ہے۔ آج کل یہ بیماری عام دیکھنے میں ملتی ہے لیکن پابندی کے باوجود یہ کاروبار جاری و ساری ہے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو اس سے محفوظ کرنے کیلئے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں آگاہی مہم کا آغاز کرنا چاہیے تاکہ نوجوان نسل کو اس موذی مرض سے بچایا جاسکے۔ یہ بیماری پوری دنیا میں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے لیکن اس سے محفوظ رہنا ممکن ہے۔ دوسرے ممالک میں جہاں شراب نوشی اور سگریٹ نوشی عام ہے ایسے ممالک میں منہ کا کینسر بھی عام ہے، اس کے علاوہ اس سے جگر کا کینسر بھی ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں ان ایشیاء سے خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی بچانا چاہیے۔ حتیٰ کہ میٹھی چھالیہ بھی نقصان دہ ہے کیونکہ اس کو ذائقہ دار بنانے کیلئے عارضی رنگ اور کیمیکل ملائے جاتے ہیں جو منہ کے کینسر کا سبب بنتے ہیں، اس لیے میٹھی چھالیہ کا بھی استعمال نہ کریں۔ زیادہ تر یہ اشیاء انڈیا سے اسمگلنگ کے ذریعے لائی جاتی ہیں۔ ان کاسب سے زیادہ استعمال کراچی اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں ہوتا ہے۔ ایسی چھالیہ اسمگل کی جاتی ہے جو پھپھوندی زدہ ہوتی ہے، یہ منہ کے علاوہ جگر، پھیپھڑوں اور خواتین میں چھاتی کے کینسر کی وجہ بنتی ہے۔ اس پر مکمل پابندی عائد ہونی چاہیے کیونکہ جب ہم چھالیہ یا گٹکا استعمال کرتے ہیں تو اس سے ہمارے منہ اور حلق میں زخم بن جاتے ہیں اگر زخموں کا بروقت علاج نہ کیا جائے اور چھالیہ اور گٹکا کا استعمال نہ روکا جائے تو منہ کا کینسر ہوجاتا ہے اور یہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔خدا نخواستہ اگر کسی کو منہ کا کینسر ہوجائے تو اس کا منہ پوری طرح کھل نہیں سکتا، وزن میں کمی، بخار، پاخانے میں خون آنا وغیرہ کینسر کی علامات ہیں۔ دنیا بھر میں منہ اور گلے کے سرطان کے مریضوں کی تعداد میں ہر سال تقریباً پانچ لاکھ افراد کا اضافہ ہورہا ہے اور آج کی نوجوان نسل سگریٹ اور پان کھانے میں فخر محسوس کرتی ہے اور نت نئی اور دور دراز دکانوں سے جاکر گٹکے ولا پان مہنگے داموں میں خرید کر کھاتے ہیں جس کی وجہ سے آج نوجوان طبقہ بوڑھوں سے زیادہ اس موزی مرض میں مبتلا ہورہا ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تمباکو اور پان کا استعمال جنوبی ایشیائی ممالک اور ایشیاء کے مختلف علاقوں میں خاص طور پر زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں تقریباً 21کروڑ سے زائد افراد پان اور تمباکو چبانے کی عادت میں مبتلا ہیں۔ پان جتنی دیر منہ میں رکھا جائے اتنا ہی خطرناک ثابت ہوگا اور اگر پان کے ساتھ منہ میں تمباکو رکھ لیں تو سرطان کا خطرہ مزید کئی گنا بڑھ جائے گا۔ زمانہ قدیم سے تمباکو کے بعد سادہ پان کے استعمال کی عادت بہت عام ہے اور اس کی تاریخ مشرقی ممالک اور جنوب مشرقی ممالک میں خاصی پرانی ہے۔ مشرق میں بنگلہ دیش، برما، چین، انڈیا، انڈونیشیا، لاؤس، ملیشیا، نیپال، پاکستان، سنگاپور، سری لنکا، تائیوان، تھائی لینڈ اور ویت نام کے ممالک میں پان چبانے کی عادت پائی جاتی ہے۔ یہ عادت فیجی، کینیا، جنوبی افریقہ، یوگنڈا، تنزانیہ اور مشرقی ہندوستانیوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ تاریخی حوالوں کے ذریعے اس بات پر اتفاق پایاجاتا ہے کہ سب سے پہلے پان کی عادت کے استعمال کا ثبوت 504قبل مسیح میں سری لنکا میں پالی زبان میں لکھے جانے والے ایک رجسٹر ”مہاوامسام“ سے ملتا ہے۔ چھالیہ کے بارے میں سنسکرت زبان میں لکھے گئے چند اوراق سے ملتا ہے اور یہ اوراق 600 قبل مسیح کے تحریر کردہ ہیں جو کہ بنارس کے قریب لکھے گئے تھے۔ تمباکو کے بغیر پان چبانے کی عادت ہندوستان میں قدیم عرصہ سے موجود ہے۔ ویدک دور میں بھی اس کا استعمال عام تھا۔ ابن بطوطہ لکھتا ہے کہ ہندوستان میں محمد شاہ تغلق بادشاہ کے زمانے میں پان کا استعمال عام تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ پان کی عادت ہندوستان کے ارد گرد کے دیگر ممالک میں بھی رواج پاگئی۔ پان کے استعمال اور منہ کے سرطان کے بارے میں مختلف ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق دنیا میں منہ کے سرطان کے اعداد و شمار خاصے مختلف پائے جاتے ہیں۔ مختلف ممالک اور علاقوں میں اس کے اثرات بھی مختلف ہیں۔ دنیا بھر میں منہ کے سرطان سے متاثرہ ممالک میں انڈیا اور سری لنکا سرفہرست ہیں۔ بھارت اور سری لنکا میں جسمانی سرطان میں سے منہ کے سرطان کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ ہندوستان اور سری لنکا میں ترقی پذیر ممالک میں سے سرطان کے چالیس فیصد مریض یہاں پائے جاتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں منہ اور گلے کا سرطان بہت عام ہے۔ دنیا میں ہر سال تقریباً پانچ لاکھ افراد منہ اور گلے کے سرطان میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ منہ اور گلے کے کینسر کا پان کی وجہ سے ہونے کے تعلق کے بارے میں سب سے پہلے کولمبو (سری لنکا) کے ایک ڈاکٹر Elliot نے انکشاف کیا تھا۔ اسے اس کینسر کی خصوصیات کی وجہ سے پان چھالیہ چبانے والوں کا کینسر کا نام دیا۔ دیگر بہت سارے لوگوں نے 20ویں صدی کے آغاز میں منہ کا سرطان اور پان چھالیہ پر بہت سارے مضمون لکھے۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ پان سپاری کے استعمال کے بارے میں بہت سی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ جن میں شادابی طبیعت بہت اہم سمجھی جاتی ہے۔ پان سپاری کے استعمال سے منہ کا لعاب بڑھ جاتا ہے۔ یہ جسم میں ہاضمہ، پیٹ کے کیڑوں، بھوک کو مٹانے اور منہ کی بدبو کو خوشبو میں بدلنے کیلئے معاون سمجھا جاتا ہے۔ پان کا استعمال مختلف ممالک میں مختلف طریقوں سے ہوتا ہے لیکن اس کے اجزاء اکثر و بیشتر ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ پان نام ہے چھالیہ، تمباکو، چونا، کتھا اور کچھ مصالحہ جات جو کہ چھالیہ کے پتے یا پان کے پتے میں لپٹے ہوتے ہیں جو کہ ایک چھوٹے لفافے یا بیڑے کی شکل میں لپیٹا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ لوگ اپنے ذائقے کیلئے ناریل کا پاؤڈر، سونف، الائچی، سوکھی چرس کے پتے، لونگ اور دیگر خوشبوجات کا استعمال بھی پان کے ساتھ کرتے ہیں۔ پان کو دو طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے یاتوچبایا جاتا ہے یا چوساجاتا ہے اور پھر اس کے چبائے جانے سے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے ایک لقمہ بنایا جاتا ہے جو کہ لوگ آدھے گھنٹے تک یا اس سے بھی زیادہ چباتے رہتے ہیں۔ بعض لوگ یہ لقمہ رات بھر منہ میں رکھ کر سوتے ہیں۔ بعض لوگ بسااوقات پان چباتے ہیں اور بعض عادی پان چبانے والے ہوتے ہیں اگر ایک بار عادت پڑجاتے تو پھر اسے چھوڑنا مشکل ہوجاتا ہے یہاں تک کہ جب مریض خود بھی پان کے مضر اثرات کو جاننا شروع کردیتا ہے لیکن وہ اس سے نجات حاصل نہیں کرسکتا۔ چھالیہ کا درخت جنوبی ایشیاء اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں عام ہے۔ اس کو استعمال سے پہلے صاف کیاجاتاہے اور پکایا بھی جاتا ہے۔ چھالیہ میں مختلف اجزاء ہوتے ہیں جن میں اریکولین چکنائی ریشہ دار مادہ اور نشاستہ بھی ہوتا ہے اور اس میں مختلف قسم کے مادے بھی ہوتے ہیں۔ کتھا ایک آکاسیا درخت کا نچوڑ ہے جسے کتھا کہاجاتا ہے۔ کتھا آکاسیادرخت سے گرم پانی کے ذریعے حاصل کیے جانے والے نچوڑ سے بنایاجاتا ہے۔ اس میں مختلف آئلز، روغنیات، تیزابی مادے اور سرخ رنگدار مادہ ہوتے ہیں۔ چھالیہ، پان، چونا، کتھا کے ساتھ اکثر لوگ تمباکو ملا کر اور دیگر اپنے انفرادی ذائقے کے مطابق الائچی، لونگ، ناریل کا پاؤڈر، ادرک، چینی اور خوشبو ملا کر پان بناتے ہیں اور اسے استعمال کرتے ہیں۔ پان کی عادت کے اثرات انسانی طبیعت پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ سائنسی تحقیقات کے مطابق پان کے مضر صحت اثرات کا پتہ چلتا ہے جو لوگ پان کھانے کے عادی نہیں ہوتے انہیں شروع میں پان کھانے سے گلے میں خشکی کا احساس اور منہ میں جلن محسوس ہوتی ہے۔ پان کے کھانے سے منہ کی جھلی اور زبان پر کھردرا پن اور کبھی کبھار السر بھی ہوجاتا ہے۔ اس عادت کے پختہ ہونے سے یہ کیفیات آہستہ آہستہ کم ہوجاتی ہیں اور لوگ بہتر محسوس کرنے لگتے ہیں۔ پان کے استعمال سے منہ کے لعاب میں تبدیلیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ چونے کے استعمال سے منہ کے لعاب میں زیادہ مادہ پیدا ہوتا ہے۔ پان کھانے کے فوری اثرات میں انسانی جسم کے حساسیاتی نظام پر اثرات پڑتے ہیں۔ دل کی دھڑکن، سانس کے نظام پر اثرات اور نظام انہضام بھی اثرانداز ہوجاتا ہے۔

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے