تحریر: شیخ محمد انور 2021ء
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
کشمیر صرف مسلمانوں کی جنت ہے۔
آخر کب تک یوم یکجہتی کشمیر منایا جائے گا؟
دنیا میں اکثر دن کسی نہ کسی نام سے منسوب ہوتا ہے جیسے یکم مئی کو یوم مزدور کا نام دیا گیا، اسی طرح 5 فروری کا دن کشمیری بھائیوں سے اظہاریکجہتی کا دن ہے۔ ہر سال پاکستان میں 5 فروری کو مختلف سیاسی پارٹیاں کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کیلئے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں جلسے جلوس، ریلیاں، سیمینار اور بہت سے پروگرام تشکیل دیتی ہیں۔ کشمیر کی سرحد پر انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی جاتی ہے جس سے یہ ثابت کرایا جاتا ہے کہ پاکستان کی عوام اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہے۔ دراصل جس وقت پاکستان اور بھارت کی تقسیم ہوئی اس وقت کشمیر پاکستان کے حصے میں شامل تھا مگر ہندو اور انگریزوں کی چالاکی اور بے ایمانی سے یہ کشمیر پاکستان کی بجائے ہندوستان میں شامل کردیا گیا۔ کشمیر کو حاصل کرنے کیلئے پاکستان اور بھارت کے درمیان چار جنگیں بھی لڑی گئیں مگر اس کے باوجود کشمیر کا ابھی تک کوئی حل نہیں نکل سکا۔ کشمیر کی عوام پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک پاکستان کو اپنا مسیحا سمجھتی ہے۔ پاکستان کے آزادی کے دن وہ بھی یوم آزادی مناتے ہیں مگر بھارت کے یوم آزادی کو آج بھی کشمیری عوام یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں اور اسی طرح پاکستان بھی کشمیر کو اپنی شہ رگ سمجھتا ہے۔کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں کشمیر میں کئی لاکھ کشمیری شہید ہوچکے ہیں اور اس سے زائد زخمی ہوئے۔ کشمیری عوام جانی و مالی قربانیوں کے باوجود اپنے مقاصد حاصل نہ کرپائے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ کشمیری عوام کی آزادی کی جدوجہد میں مزید جوش و جذبہ پروان چڑھ رہا ہے۔ کشمیر وہ خطہ ہے جسے آج سے تقریباً ایک ہزار سال قبل سلطان محمود غزنویؒ نے اسلامی سلطنت میں شامل کیا تھا جو طویل عرصہ بعد کفار کی حکمرانی میں چلا گیا۔ 5 فروری کو ہرسال یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایاجاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز 1990ء کو ہوا جب جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد کی اپیل پر اس وقت کے اپوزیشن لیڈر اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد نواز شریف نے اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے اپیل کی کہ جموں و کشمیر کی عوام کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کی جائے۔ ان کی کال پر پورے پاکستان میں 5 فروری 1990ء کو کشمیریوں کے ساتھ زبردست یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا۔ ملک گیر ہڑتال ہوئی اور ہندوستان سے کشمیریوں کو آزادی کا مطالبہ کیا گیا۔ اس دن جگہ جگہ جہاد کشمیر کی کامیابی کیلئے دعائیں مانگی گئیں۔ بعدازاں پاکستان پیپلز پارٹی نے 5 فروری کو عام تعطیل کا اعلان کرکے کشمیریوں کے ساتھ نہ صرف یکجہتی کا مظاہرہ کیا بلکہ وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد تشریف لے گئیں جہاں اُنہوں نے قانون ساز اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس کے علاوہ جلسہ عام سے خطاب کیا۔ کشمیریوں کو ہرممکن تعاون کا یقین دلایا اور مہاجرین کشمیر کی آبادکاری کا وعدہ کیا۔ تب سے اس دن کو ہر برس سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔ پورے ملک میں سرکاری تعطیل ہوتی ہے جبکہ آزاد کشمیر اسمبلی اور کشمیر کونسل کے مشترکہ سیشن سے صدر یا وزیراعظم پاکستان خصوصی خطاب فرماکر جدوجہد آزادی کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔ کشمیری صدیوں سے غیر ملکی تسلط اور قابض حکمرانوں کے مظالم کا شکار رہے ہیں لیکن اُنہوں نے کبھی ہمت نہ ہاری، ان کو ایمان فروشوں کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن تحریک آزادی کسی نہ کسی شکل میں جاری رہی۔ 1586ء سے 1752ء تک کشمیر پر مغلوں کی حکومت رہی لیکن مغلوں نے محلات اور باغات کی تعمیر کے علاوہ کوئی دوسرا خاص کارنامہ سرانجام نہ دیا۔ 1752ء سے 1819ء تک افغان اس خطے پر مسلط رہے جنہوں نے کشمیریوں کی دولت کو وہاں سے باہر منتقل کردیا جس طرح انگریزوں اور ان کی پروردہ ایسٹ انڈیا جیسی کمپنیوں نے برصغیر کی دولت کو لوٹ کر ولایت منتقل کردیا۔ ان کا لوٹا ہوا ہیرا جو برصغیر کی ملکیت ہے آج بھی ملکہ برطانیہ کے پاس موجود ہے۔ یہی کوہ نور ہیرا جو ملکہ کے تاج کی زینت بنا ہے۔ 1819ء سے 1846ء تک کشمیر کو سکھوں نے اپنی کالونی بنائے رکھا اور عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑ ڈالے اور پھر ایک ایسا مرحلہ بھی آیا کہ تاریخ کا ایک بدترین سودا ہوا، انگریزوں نے صرف 75 لاکھ نانک شاہی سکوں میں کشمیر کی سرزمین اور انسانوں کو ڈوگروں کے ہاتھ بیچ دیا۔ اس سے بڑی انسانی حقوق کی اور کیا خلاف ورزی ہوگی کہ انسانی حقوق کے علمبردار کہلائے جانے والے انگریزوں نے انسانوں کا سودا کیا۔ 100 سال تک ڈوگروں نے کشمیریوں کو بدترین غلامی کا شکار بنائے رکھا۔ اُنہوں نے ہوا کے بغیر ہر چیز پر ٹیکس لگا دیا، اگر کوئی بچہ پیدا ہوتا تو ٹیکس ادا کرنا پڑتا اور کوئی موت واقع ہوتی تو اس کے لواحقین ٹیکس جمع کراتے، اس سے قبل قحط سالی نے کشمیریوں کو گردونواح کے علاقوں میں ہجرت پر مجبور کردیاتھا۔ کشمیر جو دنیا کی زرخیز ترین سرزمین ہے، جہاں قدرتی وسائل کی بہتات ہے، جہاں کی زمین حقیقت میں سونا اگلتی ہے، خون سے لالہ زار بن چکی ہے۔ کشمیری قوم پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہش پر جدوجہد کے دوران چھ لاکھ سے زائد افراد کی قربانی پیش کر چکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جعلی پولیس مقابلے، نہتے کشمیریوں پر شدید تشدد اور ہلاکتیں روزانہ کا معمول ہے۔ ہزاروں نوجوانوں کا آج تک کچھ پتا نہیں چل سکا کہ وہ کدھر ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں افراد کی اجتماعی قبروں کے انکشاف پر بھی دنیا بھر میں انسانیت کے علمبردار خاموش ہیں۔ دنیا بھر میں کشمیر واحد خطہ ہے جہاں جگہ جگہ پر فورس موجود ہے، ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلئے چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ کشمیری نوجوانوں کو جہاں بے پناہ ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے وہاں ان کی لاشوں کو جنگلوں میں پھینک دیا جانا بھی معمول کی بات ہے۔ بھارت نے وادی کشمیر کو دولخت کرنے کے بعد اس وحدت کو مستقبل بنیادوں پر ختم کرنے کیلئے بدترین ریاستی دہشتگردی کا ایسامظاہرہ کیا اور کررہا ہے جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں نہ جانے کس سرد خانے کی زینت بنی ہمارا تمسخر اُڑا رہی ہیں۔ قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی انڈیا نے پاکستان پر جارحیت کا مظاہرہ کیا اور جنت نظیر کشمیر کا آدھا حصہ ہم سے لے گیا۔ 1965ء میں بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے لاہور پر قبضہ کی خواہش لیے پاکستان پر اچانک حملہ کردیا۔ 1971ء میں اس کے شرمناک کردار پر نہ صرف پاکستان دولخت ہوا بلکہ اس کی لگائی آگ آج بھی پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان نفرتوں کے آسمان پر ہے۔ ان تمام بھارتی کرتوتوں کے باوجود ہماری ریاست نے اسی کے ہاتھوں نہ صرف اپنے دریا تک بیچ دئیے بلکہ صومالیہ بننے کیلئے اس کی واٹر دہشتگردی پر بھی ہمارے منہ پر ٹیپ لگی ہے۔ اب تک انڈیا ہمارے 80 فیصد پانی کو روک چکا ہے اور ہمارے تمام تر صحرائی احتجاج کے باوجود ہمیں بنجر کرنے پر تلا ہوا ہے اور ہم آنکھیں بند کرکے آلو پیاز کی تجارت کرنے کیلئے بے تاب ہورہے ہیں۔ پڑوس میں لگی آگ کو نہ بجھایا جائے تو اپنا بھی گھر جلنے سے نہیں بچتا۔ کشمیری تو پاکستان کے ساتھ عہد نبھا رہے ہیں، جانوں کی قربانیاں پیش کررہے ہیں۔ اہل پاکستان خاص طور پر حکمران اپنے کردار کے بارے میں سوچیں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور کیا کررہے ہیں۔ طاقت اور ظلم و بربریت کے ذریعے کسی قوم کو غلام نہیں بنایاجاسکتا۔ کشمیری عوام بھارت کے پنجہ استبداد سے آزاد ہونے کیلئے خون کا آخری قطرہ تک بہادینے کو تیار ہیں۔ مسئلہ کشمیر آج بھی موجود ہے، زندہ ہے اور حل طلب ہے۔ یہ دوکروڑ انسانوں کی زندگی و موت کا مسئلہ ہے، یہ پاکستان کی آزادی، سلامتی اور استحکام کا مسئلہ ہے، اسے نظر انداز کرنا پاکستان کے وجود سے دستبردار ہونے کے مترادف ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ضروری ہے کہ پوری قوم اور حکمران ایک ہوں۔ بھارتی فوج کے مظالم اہل کشمیر کے پائے استقلال میں لغزش پیدا نہیں کرسکتے۔ وہ ڈٹے ہوئے ہیں اور جمے ہوئے ہیں۔ ان کے حوصلے مائل بہ پرواز اور ولولے مصائب سے بے نیاز ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ستاروں کے خون سے ہی صبح کا اجالا ہوتا ہے۔ انہیں یقین ہے کہ ظلم کے سائے مٹ کر آزادی کی صبح طلوع ہوکر اور غلامی کی زنجیریں کٹ کر رہیں گی۔