کعبہ عظمت کا گہوارہ

تحریر: شیخ محمد انور 2021
ای میل: sheikhmanwarW@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
کعبہ عظمت کا گہوارہ
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی فرد یا چیز کی عظمت و اہمیت کو جاننے کیلئے اس کے تاریخی و تعمیری پس منظر کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے۔ بیت اللہ جو صرف مسلم معاشرے کا ہی نہیں بلکہ تمام جہانوں کا کعبہ اور ہادی ہے اسے بھی اگر تاریخی اور تعمیری دونوں اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کی اہمیت سے انسانی اذہان بڑی حد تک روشناس ہوتے ہیں۔ جب کائنات ارضی کے بیشتر مقامات شرک و کفر اور بت پرستی کی لپیٹ میں تھے اس پر ستم بالا ستم یہ تھا کہ ظالم، جاہل اور مشرک انسانوں نے اس بیت اللہ کو جو خالص خدائے واحد کی عبادت و بندگی کے اظہار کیلئے بنایا گیا تھا بت خانہ بنا دیا۔ جس جگہ بیت اللہ واقع ہے یہ جگہ تمام روئے زمین سے قبل وجود میں آئی تھی اور قرآن کریم میں ذکر ہے”اس کا عرش پانی پر تھا عین اسی جگہ عرش الٰہی کے نیچے اور بیت المعمور کے عین مقابل بیت اللہ تعمیر کیا گیا۔ جب اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کو تخلیق فرماچکا اور ان میں اپنی عبادت کیلئے فرشتے پیدا فرمائے تو آسمانوں میں فرشتوں کی عبادت کیلئے بیت المعمور بنایا جہاں آسمانی ملائکہ عبادت و طواف کرکے رضاء الٰہی حاصل کرتے۔ یہ دیکھ کر زمین کے فرشتوں کو بھی شوق ہوا اور بارگاہ رب العزت میں درخواست پیش کی کہ اے مولا ہمارے لیے بھی زمین میں ایک ایسا گھر ہو جہاں ہم طواف کرکے تیری رضا حاصل کرسکیں، ان کی درخواست قبول ہوئی اور انہیں بیت اللہ تعمیر کرنے کا حکم ملا تو فرشتوں نے پہلی مرتبہ سفید اور چمکدار موتیوں سے زمین پر ایک گھر تیار کیا جب کہ روئے زمین پر ابھی تک کوئی ایک گھر بھی نہ بنا تھا۔ امام نووی رحمتہ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ بیت اللہ شریف کو چھ مرتبہ بنایا گیا۔ پہلے فرشتوں نے، دوسری مرتبہ حضرت آدم علیہ السلام نے، تیسری مرتبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے، چوتھی مرتبہ قریش نے، پانچویں مرتبہ عبداللہ بن زبیر نے اور چھٹی مرتبہ حجاج بن یوسف نے اور آج کل یہی موجود ہے۔ سبحان اللہ کعبہ کی کتنی شراف و بزرگی ہے کہ اس کی بناء و تعمیر کا حکم دینے والی ذات رب جلیل ہے اور اس کا انجینئر حضرت جبرائیل علیہ السلام ہے۔ اس کا بانی حضرت خلیل ہے اور معین و مددگار حضرت اسمٰعیل اور اس کو بسانے و آباد کرنے والا خدا کا پیارا حبیبﷺ ہے۔ بیت اللہ کا لفظ بیت اور اللہ سے مل کر بنا ہے۔ یہ مرکب اضافی ہے یعنی بیت کی اضافت اللہ تعالیٰ ہورہی ہے۔ وہ اللہ جس کی ہستی و ذات ہر چیز کی حاجت سے پاک ہے۔ یعنی وہ مکان و زماں، دولت، اولاد، حسب و نسب ہر چیز سے اعلیٰ و ارفع ہے لیکن وہ رب کائنات جب اپنی مخلوق میں سے کسی چیز یا فرد کو اپنے ساتھ منسوب کرلیتا ہے تو وہ چیز یا فرد کائنات کی ہر چیز سے اعلیٰ و ارفع ہوجاتی ہے کہ آسمانوں کی بلندیاں بھی ان کے درجات سے نیچی رہ جاتی ہے جیسا کہ ذات باری تعالیٰ نے اپنے نبیوں میں سے کسی ہستی کو اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا کرنا ہوتا ہے تو کسی نبی کو خلیل اللہ کا، کسی کو ذبیح اللہ کا، کسی کو کلیم اللہ اور کسی کو حبیب اللہ کا پیارا لقب دے کر اپنے پاک نام کے ساتھ منسوب کردیتا ہے۔ اسی طرح وہ اللہ جس زمین کو عزت و شرف دینا چاہتا ہے اسے ارض اللہ کہتا ہے اور گھروں میں سے جس گھر کو اپنا بنالیتا ہے اسے بیت اللہ (یعنی اللہ کا گھر) کہہ کر پکارتا ہے۔ اس سے یہ واضح ہوگیا کہ بیت اللہ کی بڑی شان ہے کیونکہ یہ پوری کائنات کے خالق و والی کا گھر ہے۔ قرآن کریم اپنی زبان میں بیت اللہ کو برکتوں کا گھر قرار دیتا ہے اور کعبہ کی برکتوں کا عالم یہ ہے کہ اس میں اللہ ربُ العزت کی عبادت کا اجروثواب عروج پر ہوتا ہے کہ کسی نیکی پر اتنا ثواب کسی اور جگہ نہیں ہوتا جتنا کہ کعبہ میں ہوتا ہے یعنی جو شخص مکہ معظمہ میں ایک رمضان کے روزے رکھتا ہے اسے ایک لاکھ رمضان کے روزوں کا ثواب اور جو کعبہ میں ایک نماز پڑھتا ہے اسے ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔ کعبہ نہ صرف انسانوں بلکہ کائنات کی ان تمام انواع کیلئے بھی کعبہ ہے جو کہ عالمین کے دائرہ کار میں آتے ہیں یعنی جنوں، فرشتوں، پرندوں، درندوں، حیوانوں اور چوپایوں کا بھی قبلہ ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ کعبہ اور حرم کعبہ میں کوئی جانی دشمن بھی ہو تو اس سے بدلہ لینا منع ہے۔ انسان تو انسان ہے شکاری درندے اپنے شکار کے پیچھے بھاگتے ہوئے کوئی جنگلی جانور بھیڑیا یا شیر وغیرہ اپنے شکار کو پکڑنے کیلئے پیچھا کررہے ہوں تو حرم کی حد میں داخل ہوتے ہی اس کا پیچھا چھوڑ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ حرم کی حد کے اندر انسان تو انسان ہیں کسی کو گھاس کاٹنے کی بھی اجازت نہیں ہے اور کعبہ مسلمانوں کو جنت کی راہ دکھاتا ہے اور نمازیوں کو نماز کے وقت ان کے قبلہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ کعبہ اسلام اور پیغمبر اسلام کی حقانیت پر واضح دلائل رکھتا ہے۔ اس میں قدرت کی ایک بہت بڑی نشانی مقام ابراہیم ہے جو کہ ایک پتھر ہے جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشان ہیں اور اس مقام ابراہیم میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ پتھر ہونے کے باوجود اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدم کا نشان پڑگیا اور اتنی مدت کے باوجود اب بھی نشان باقی ہے اور انشاء اللہ قیامت تک باقی رہے گا۔ جو شخص کعبہ میں داخل ہوجاتا ہے وہ امن میں آجاتا ہے اور کعبہ میں موجودگی کے دوران حکومت وقت بھی اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتی کیونکہ وہ امن کی جگہ میں آچکا ہے۔ ہر شب جمعہ ارواح اولیاء اس کے گرد حاضر ہوتے ہیں، جو بھی کعبہ کی بے حرمتی کا قصد کرتا ہے وہ تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ وہ مقام مقدسہ جہاں اللہ ربُ العزت کے بے حساب انعامات ہیں وہاں اس کا ایک اور عظیم عطیہ یہ بھی ہے جسے زمزم کے نام سے پکارا جاتا ہے جو کہ ایک محترم و مکرم نبی کی ایڑی کی چوٹ سے زمین سے بہہ نکلا پھر یہ مقام غور ہے کہ اس ایک پانی کے اندر بھی قدرت کی عجیب نشانیاں ہیں یعنی کبھی اس پانی کا ذائقہ عمدہ پانی کا، کبھی دودھ جیسا اور کبھی شہد جیسا خالص ہوتا ہے۔ حضور ﷺ نے زمزم کے متعلق فرمایا کہ بیشک زمزم کا پانی بھوکے کیلئے کھانا اور بیمار کیلئے شفا کامل ہے۔ لفظ حج کا لغوی معنی قصدارادہ کے ہیں اور حج اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے جو کہ مخصوص ماہ ذوالحجہ شریف کے دنوں میں بیت اللہ شریف اور حرم میں حاضر ہوکر ادا کیا جاتا ہے۔ حج زندگی میں ایک بار ادا کرنا فرض ہے اور ہر صاحب نصاب مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے جو کہ عاقل، بالغ، آزاد اور تندرست بھی ہو اور خاتون ہونے کی صورت میں اس کے ساتھ محرم کا ہونا بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اپنے اور اہل و عیال کے اخراجات کا انتظام اور حکومت کی جانب سے اجازت ملنا شرائط حج میں شامل ہیں۔ قرآن کریم بیان کرتا ہے کہ اللہ کیلئے لوگوں پر اس کے گھر کا حج کرنا فرض ہے لیکن ان لوگوں پر جو کہ اس کی استطاعت رکھتے ہوں۔ حج ایک قدیم عبادت ہے جس کو انبیاء بھی ادا کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ کے آخری دین میں حج کو دین اسلام کا ایک بنیادی فرض قرار دیا گیا کہ اگر کوئی مسلمان استطاعت کی توفیق رکھنے کے باوجود فریضہ حج ادا نہیں کرتا تو اس کے متعلق حدیث میں بہت سخت الفاظ میں وعید آئی ہے کہ ”جو شخص طاقت و استطاعت رکھنے کے باوجود حج نہیں کرتا اور اسے موت آجائے تو اس کے متعلق کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی مرے یا عیسائی“۔ جو مسلمان بیت اللہ شریف کا حج کرتا ہے وہ اللہ و رسول کی اطاعت کرکے نہ صرف دونوں جہانوں کی کامیابی کا حقدار ٹھہرتا ہے بلکہ وہ خدا اور رسول ﷺ کی خوشنودی کے علاوہ اپنے سابقہ گناہوں کی بخشش بھی کروالیتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس نے حج کیا فحش کلام اور گناہ نہیں کیا جب وہ وہاں سے لوٹے گا تو اس دن کی طرح ہوگا جس میں اس کی ماں نے اسے جنا ہو۔ نبی اکرمﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ اے عمر کیا تو نہیں جانتا کہ اسلام پہلے گناہوں کو گرادیتا ہے اور بیشک ہجرت ماقبل کے گناہوں کو مٹادیتی ہے اور بے شک حج سابقہ گناہ گرادیتا ہے۔ رسولﷺ نے فرمایا کہ حج گناہوں کو ایسے دھوتا ہے جیسا کہ پانی میل کو۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ ایک عمرہ دوسرے عمرے تک کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور حج مقبول کی جزاء فقط جنت ہی ہے۔ اسلام ایک ایسا عالمگیر مذہب ہے جس میں نہ صرف عبادات عقائد پر انحصار کیا گیا ہے بلکہ اس میں ایک فرد سے لے کر خاندان اور خاندان سے معاشرہ اور معاشرہ سے اقوام عالم یعنی بنی نوع انسان کے انفرادی و اجتماعی حقوق و فرائض کو متعین کردیا گیا ہے اور دین مصطفےٰﷺ جہاں پر حقوق اللہ کی ادائیگی کی تاکید کرتا ہے اسی انداز میں اپنے پیروکاروں کو حقوق العباد کی ادائیگی کی بھرپور تلقین کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کا نقطہ نظر لوگوں کے درمیان آپس میں میل جول و ربط و ضبط قائم کرتا ہے اسی لیے اسلامی عبادات کی ہر نوع میں اجتماعیت کا فلسفہ کارفرمادکھائی دیتا ہے۔ حج مسلمانوں کو جو کہ اطراف عالم کے کونے کونے سے آئے ہوتے ہیں، آپس میں ملنے اور قریب ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ جہاں وہ ایک کام، ایک لباس، ایک ذکر اور ایک ہی مقصد کے حصول میں یک دل و یک زباں اتحاد و یگانگت کا بیٹھنا اٹھنا پیش کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ مختلف رنگ و نسل، مختلف زبان، مختلف ممالک، مختلف علاقائی و جغرافیائی حدود سے تعلق رکھنے والے فرزندان اسلام جب ارکان حج کی ادائیگی میں محو ہونے لگتے ہیں تو پھر مندرجہ بالا ہر قسم کے فرق و اختلاف کو مٹا کر ایک ہی تسبیح کے دانوں کی مانند ایک ہی دیوار کی اینٹوں کی مانند باہم مل کر ربط ملت کی وہ عمارت بن جاتے ہیں جس کی مثال اقوام عالم بھی پیش نہیں کرسکتیں۔ ایسی متبرک جگہ کا یہ شرف ہے وہاں ایک رمضان کے روزے رکھنے والا ایک لاکھ رمضان کے روزوں کے ثواب کا مستحق ٹھہرتاہے، ایک نماز پڑھنے والا لاکھ نمازوں کے ثواب کا مستحق ٹھہرتا ہے اور ہر نیکی کی یہی حالت ہے۔ یہ ہی نہیں بلکہ کعبہ کا حج اور زیارت کرنے والا گناہوں سے ایسا پاک ہوکرلوٹتا ہے کہ جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ تھا لیکن جیسا مرتبہ اعلیٰ اور ثواب عظیم کا سبب کعبہ معظمہ ہے اسی نسبت سے ارکان حج اور مقامات حج کی حاضری بھی مشکل دقت طلب اور مسلسل جدوجہد سے عبادت ہے اور اس میں حکمت الٰہی یہ نظر آتی ہے کہ خدا کو مسلمانوں کو جفاکش، محنتی، مالی و جانی ایثار وقربانی کا جذبہ، جہاد کیلئے مستعد اور آپس میں اخوت و بھائی چارہ قائم کرنے اور ایک دوسرے سے ربط و ضبط، باہمی میل جول کی مسلسل مشق کا حج کعبہ کے ذریعے موقع فراہم کرتا ہے۔ یعنی ملت اسلامیہ جسد واحد کی مانند ایک ہو جائے۔

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے