تحریر: شیخ محمد انور 2021ء
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
گوادر کا ادھورا سفر
آج صبح میرے بڑے بھائی اکبر حسین کا مجھے فون آیا اور کہنے لگے کہ انور گوادر کی سیر کا پروگرام بنائیں اور اگلے ہی لمحے خاموش ہوگئے اور فون بند کردیا۔ میں فکرمند ہوا اور میں نے دوبارہ اُن سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن اُنہوں نے میرا فون نہ سنا۔ میری تشنگی بڑھتی چلی گئی، میں نے اُن کے بیٹے حسین احمد سے رابطہ کیا اور کہا کہ آپ کے ابوجان کا فون آیا تھا لیکن اب وہ میرا فون نہیں سُن رہے۔ بیٹے نے بتایا کہ ابوجان لیٹے ہوئے ہیں، میں نے کہا کہ میری اُن سے بات کروا دیں تو حسین احمد نے کہا کہ ابوجان بات نہیں کرنا چاہ رہے، میں اور فکرمند ہوا اور اپنی تمام تر مصروفیات کو چھوڑ کر فوراً اپنے گھر سے نکل کر اُن کے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ پانچ کلومیٹر کا سفر مجھ سے طے نہیں ہورہا تھا۔ ایسے محسوس ہورہا تھا کہ جیسے مجھے پانچ کلومیٹر نہیں بلکہ پچاس کلو میٹر جانا ہے۔ میرا سفر ختم ہی نہیں ہورہا تھا اور میری تشویش میں مزید اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ جب میں اُن کے گھر اسلام پورہ پہنچا تو اُن کا بیٹا مجھے والد صاحب کے کمرے میں لے گیا۔ اُن کو دیکھا تو حوصلہ ہوا کہ الحمدللہ معاملہ ٹھیک ہے۔ بھائی نے مجھے دیکھتے ہی گلے لگا لیا اور بڑا ہونے کے باوجود معذرت خواہانہ لہجے میں کہنے لگے کہ جس کیفیت سے میں گزرا انور تم سے بات کرنے کی سکت نہ رہی اور میرے اعصاب جواب دے گئے کیونکہ گوادر جاتے ہوئے گاڑی کے حادثے کا تمام منظر میرے سامنے آگیا۔ کیا تمھیں گوادر کا سفر اور اُس دوران ہونے والا حادثہ یاد ہے؟ یہ سنتے ہی میں ماضی کے جھروکوں میں چلا گیا اور وہ خوفناک منظر اور دل دہلا دینے والاواقعہ میری آنکھوں کے سامنے آگیا۔ میں نے ایک لمبی آہ بھری اور بڑے بھائی نے مجھے تھپکی دے کر اپنے پاس بٹھا لیا۔ ہوا کچھ یوں کہ 28 مارچ 2006ء کراچی کے ساحل سمندر پر التویرقی سٹیل ملز کا سنگ بنیاد رکھا گیا جس کی سرمایہ کاری سعودی عرب کے ڈاکٹر ہلال حسین التویرقی نے کی۔ جس پر تقریباً 350 ملین ڈالر کی لاگت آنی تھی۔ سٹیل مِل کا سنگِ بنیاد اُس وقت کے صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف نے رکھاتھا۔ اس موقع پر جنرل پرویز مشرف، وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ، گورنر سندھ عشرت العباد، کورکمانڈر کراچی اور دیگر اعلیٰ شخصیات موجود تھیں۔ التویرقی سٹیل ملز کے ڈائریکٹر پراجیکٹ ضیغم عادل رضوی جن کے ساتھ میرا تعلق گزشتہ پینتیس سال پر محیط ہے۔ ضیغم عادل رضوی صاحب نے خصوصی طور پر مجھے اور میرے بڑے بھائی کو افتتاح کے موقع پر بلوایا تھا۔ میرے بڑے بھائی اکبر حسین اسٹیٹ بینک کراچی کے ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن تھے۔ ضیغم صاحب نے کمال مہربانی کی کہ جس میز پر ڈاکٹر ہلال صاحب، صدر پرویز مشرف اور دیگر اعلیٰ شخصیات موجود تھیں بندۂ ناچیز کو بھی اُن کیساتھ بٹھایا اور اُن کے ساتھ میرا تعارف کروایا۔ یہ تمام چیزیں دیکھ کر بڑے بھائی بہت خوش ہوئے اور رات کو جب ہم بڑے بھائی کے ریسٹ ہاؤس میں پہنچے تو بڑے بھائی نے مجھے گلے لگایا اور کہنے لگے انور آپ کو صبح گوادر کی سیر کیلئے لے کر جانا ہے۔ صبح ناشتے سے فارغ ہوکر ہم گوادر کیلئے روانہ ہوئے۔گاڑی میں مجھ سمیت ڈرائیور اور بڑے بھائی کا ایک سٹاف آفیسر بھی شامل تھا۔ جب ہم مکران کوسٹل ہائی وے سے گزر رہے تھے اور ابھی ہم تقریباً اوماڑہ پہنچے تھے وہاں پر ہم نے بسم اللہ ہوٹل کے قریب گاڑی روکی اور چائے پینے کے بعد دوبارہ گوادر کیلئے روانہ ہوئے، اس روڈ پر مجھے ایدھی کی ایک گاڑی نظر آئی، کوسٹل ہائی وے بھی ایک عجوبہ ہے، اس روڈ پر جگہ جگہ 22 روپے لیٹر پیٹرول مل رہا تھا۔ دور دور تک کوئی چیز نہیں آرہی تھی کیونکہ فضا میں مٹی ہی مٹی بکھری پڑی تھی۔ موسم بہت خوبصورت تھااور میری نظر جہاں تک جاسکتی تھی مجھے صحرا ہی صحرا نظر آیا۔ اچانک دوبارہ مٹی کا طوفان نمودار ہوا اور ابھی تک ہم طوفان میں گھرے ہوئے تھے۔ ابھی ہم گوادر سے 94 کلومیٹر دور تھے۔ راستے میں پہلا پڑاؤ ہم نے اوتھل کے مقام پر کیا تھا، ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے سڑک مٹی کا دریا ہو اور تھوڑی ہی دیر بعد ہمارے دائیں ہاتھ زبردست پہاڑی سلسلہ شروع ہوگیا۔ سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ راستے میں رہنمائی کیلئے خوبصورت بورڈ لگے ہوئے تھے، سڑک کے ساتھ ساتھ آپٹیکل فائبر بچھائی گئی تھی۔ اسی دوران اچانک اونٹوں کا قافلہ سڑک پر آگیا، انسان تو کوئی نظر نہیں آیا اونٹ ہی اونٹ نظر آئے۔ راستے میں زمین اس قدر خالی پڑی تھی کہ کاش اس پر شجرکاری اور زراعت شروع کردی جائے تو پاکستان ان دونوں چیزوں میں خودکفیل ہوسکتا ہے۔ حیرت کی بات تھی کہ انسان تو انسان چرند پرند بھی نظر نہیں آرہے تھے۔ تھوڑی دور جا کر آٹا پیسنے والی ایک چکی نظر آئی جو کہ ہوا سے چلتی ہے۔ ہم وہاں پر رُکے اور دیکھ کر حیران ہوگئے کہ انسان کو اللہ نے کیا فہم و فراست دی ہے۔ یہاں پر بجلی کا تو نام و نشان نہیں لیکن ہوا کی مدد سے چکی چل رہی تھی۔ اس علاقے میں ہرن وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ سنا ہے کہ اس علاقے کو حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کی دُعا لگی ہوئی ہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں کچھ لوگ دین کی تبلیغ کی غرض سے یہاں روانہ کیے تھے جنہوں نے واپس آکر اطلاع دی کہ ہم ایسے علاقے سے آئے ہیں کہ جہاں اگر زیادہ لوگ بھیج دئیے جائیں تو وہ بھی بھوکے پیاسے مرجائیں گے۔ اگر تھوڑے لوگ بھیجیں تو وہ قتل ہوجائیں گے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس علاقے کی خوشحالی اور دین کے غالب آجانے کی دُعا فرمائی۔ اچانک قدرت کے شاہکار آنا شروع ہوگئے۔ راستے میں پیدل چلنے والی تبلیغی جماعت کے ساتھ ملاقات ہوئی جو کہ ان پسماندہ دور دراز علاقوں میں آئے ہوئے تھے۔ پاکستان کے سب سے بڑے نیشنل پارک سے گزرے، اب بکریوں کے ریوڑ اور خانہ بدوش بھی نظر آئے۔ ہم بکری والوں کے پاس بیٹھ گئے اور گاڑی سے کھانا نکال کر ان کے ساتھ مل کر کھانا شروع کردیا۔ یہ بہت غیرت مند لوگ ہیں، ان کو کھانا کھلانے کی بہت کوشش کی لیکن اُنہوں نے الحمدللہ کہہ کر کھانا نہ کھایا اور بکری کے بہترین دودھ سے ہماری تواضع کی۔ کھانا کھانے کے بعد ہم دوبارہ سفر کیلئے روانہ ہوئے کچھ دور جا کر خوفناک چڑھائی اور اُترائی، خطرناک موڑ اور بل کھاتی ہوئی سڑک اور خوفناک پہاڑی سلسلہ شروع ہوگیا۔ کوسٹل ہائی وے پر واقع سمندری زندگی سے لطف اندوز ہونے کیلئے خوبصورت سبز ٹیلے سمندری ساحل اور دل لبھانے والی بندرگاہیں پسنی، جیوانی، اور مارہ اور گوادر ہر عمر کے سیاح کی کمزوری ہے۔ ہماری گاڑی آرمی کا ریٹائر ڈرائیور چلا رہا تھا جو کہ اسٹیٹ بینک کا ملازم تھا۔ ہماری گاڑی تقریباً 100 کلومیٹر کی اسپیڈ سے جارہی تھی کہ راستے میں اچانک مٹی کی ایک تہہ آئی جسے ٹیونز بھی کہتے ہیں، اُس مٹی کی تہہ سے ٹکرا کر گاڑی 5 سے 6فٹ فضا میں اچھلی، ہمارے دائیں طرف پہاڑ کی کھائیاں اور بائیں طرف دُنیا کا گہرا ترین گوادر کا سمندر تھا۔ بے ساختہ منہ سے نکلا یا اللہ خیر، اس سے پہلے کہ گاڑی فضا سے واپس زمین پر آتی ہم نے دل میں دُعا کی کہ دائیں طرف پہاڑوں کی طرف اُلٹ جائے، چوٹیں تو لگیں گی پر زندگی بچ جائے گی لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ گاڑی فضا سے زمین پر ٹکراتی ہوئی سمندر کی طرف گر گئی لیکن سچ کہا کہ جان اللہ ربُ العزت کے ہاتھ میں ہے۔ جیسے ہی گاڑی فضا سے واپس آکر زمین کے ساتھ ٹکرائی تو گاڑی کے چاروں ٹائر پھٹ گئے اور گاڑی نیچے سمندر کی طرف گرتی ہوئی زمین کی ایک چھوٹی سی تقریباً دو فٹ کی پٹی پر پھنس گئی۔ گاڑی کے اگلے ٹائر اوپر کی طرف جھاڑیوں میں پھنس گئے اور پچھلے ٹائر اُس پٹی میں پھنس گئے، ایک طرف ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا اور ہم چار افراد اُس گاڑی میں پھنسے ہوئے تھے۔ گاڑی کا ڈرائیور آرمی کا سابق کمانڈو بھی تھا اور کمال کا انسان تھا۔ بڑے بھائی نے ڈرائیور صاحب سے کہا کہ آپ کسی طرح باہر نکلنے کی کوشش کریں اور اس بنی پر کھڑے ہوجائیں۔ ڈرائیور پلک جھپکتے ہی دروازہ کھول کر بڑے آرام سے بنی پر پہنچ گیا۔ اس کے بعد بڑے بھائی نے سٹاف آفیسر کو کہا کہ آپ بھی اسی طرح باہر نکلنے کی کوشش کریں۔ سٹاف آفیسر بہت دبلے پتلے انسان تھے وہ بھی جلدی سے باہر نکل کر بنی پر کھڑے ہوگئے۔ تیز ہوا چل رہی تھی اور گاڑی بھی ان بیلنس ہورہی تھی۔ بڑے بھائی نے مجھے کہا کہ آپ کوشش کرکے بائیں طرف سے آگے جاکر ڈرائیور کی سیٹ سے باہر نکلیں، میں نے بھائی کو کہا کہ پہلے آپ باہر نکلیں کیونکہ اگر میں شہید بھی ہوگیا تو آپ میرے بچے تو پال ہی لیں گے مگر اللہ نہ کرے اگر آپ کو کچھ ہوگیا تو ہماری دُنیا ویران ہوجائے گی۔ اُنہوں نے مجھے ڈانٹا اور کہا کہ جلدی سے باہر نکلو اور گاڑی کا یہ عالم تھا کہ جیسے جیسے میں باہر نکل رہا تھا ایسا معلوم ہورہا تھا کہ گاڑی سمندر میں گر جائے گی۔ ڈرائیور نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے باہر نکالا اور خدا کی شانِ بے نیازی بڑے بھائی کا جسم بھاری ہے مگر آفرین ہے کہ اللہ ربُ العزت نے ایسی آسانی پیدا کی کہ وہ بھی اگلی سیٹ کے ذریعے باہر آگئے۔ گاڑی سڑک سے سمندر کی طرف لٹکی ہوئی تھی اور ہم چاروں ایک چھوٹی سے بنی پر کھڑے ہوئے تھے۔ ڈرائیور نے ویل پر پاؤں رکھ کر باہر جمپ کی اور وہ باہر آگیا۔ اسی طرح اُس نے ہم تینوں کو ایک ایک کرکے باہر نکالا اور باہر آنے کے بعد ہم چاروں ساتھی سجدہ ریز ہوگئے۔ کچھ دیر بعد ایک گاڑی نے ہمارے پاس آکر بریک لگائی اور کہا کہ اس جگہ پر ایک گاڑی گری ہے کیا بنا اُس گاڑی کا؟ ہم نے کہا کہ ہماری ہی گاڑی سمندر میں گری ہے۔ اللہ نے ہمیں بچا لیا اور یہ گاڑی اب سمندر کی طرف لٹکی ہوئی ہے۔ وہ لوگ بھی اُس وقت سجدے میں گر گئے۔ کچھ دیر بعد مرغیوں کا ایک خالی ٹرک آیا جس کو روک کر ہم نے اپنی گاڑی دکھائی، ٹرک والے نے کہا کہ میں دوہزار روپے لوں گا اور آپ کی گاڑی رسیوں کی مدد سے باہر نکال دوں گا۔ ہمارے ڈرائیور صاحب نے نیچے جاکر گاڑی کے دونوں فرنٹ ویلز میں رسیاں باندھ دیں اور ٹرک نے جھٹکے دے کر گاڑی کو باہر نکال لیا۔ جب کبھی اس سفر کا منظر یاد آتا ہے تو جسم کانپ جاتا ہے کیونکہ گاڑی میں بیٹھے ہوئے جب ہم سمندر کے پانی کی ٹھاٹھوں کی آوازیں سُن رہے تھے تو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ چند ہی لمحوں میں ہماری گاڑی سمندر میں گر جائے گی اور ہم سمندر کی مچھلیوں کی خوراک بن جائیں گے لیکن جسے اللہ زندگی دے اُسے کون مار سکتا ہے؟ گاڑی باہر نکلنے کے بعد ہم گوادر کی طرف نہیں گئے اور گاڑی کو دوسری گاڑی کے ساتھ باندھ کر واپس کراچی آگئے۔ جب کبھی یہ سفر یاد آتا ہے تو جسم لرز جاتا ہے۔