تحریر: شیخ محمد انور 2022ء
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
عشق و آزادی بہارِ زیست کا سامان ہے
عشق میری جان آزادی میرا ایمان ہے
عشق پر کر دوں فدا میں اپنی ساری زندگی
لیکن آزادی پر میرا عشق بھی قربان ہے
غلامی حسن و زیبائی سے محرومی کا نام ہے، غلامی ذہنی صلاحیتوں کی زنگ آلودگی کو کہتے ہیں، غلامی ضمیر کی پژمردگی کو بولتے ہیں۔ غلامی اپنی انا کو فنا کے گھاٹ اتارنے کا نام ہے، غلامی انسانیت کی ذلت اور نامرادی کا اعلان ہے۔ غلامی روزِ روشن میں شبِ تاریک کا تسلط ہے۔ غلامی نوعِ انسانی کو ڈنگروں کے گلے میں تبدیل کرنے کا عمل ہے۔ غلامی دوسروں کی خوشی کیلئے اپنی مسرتیں پامال کرنے کی رسمِ قدیم ہے۔ غلامی آقاؤں کی خوشنودی اور اپنی خودکشی کی مذموم حرکت ہے۔یقینا آزادی بُلبُل میں شاہین کی ادائیں پیدا کرتی ہے۔ انسانی صلاحیتوں کو جلا بخشتی ہے، آزادی اپنے افکار اور نظریات کی اشاعت کا نام ہے اور غلامی اپنی افکار اور نظریات کا جنازہ اپنے کندھوں پر اُٹھا کر زندہ درگور ہونے کا مجرمانہ فعل ہے۔ لہٰذا آزادی کی تعریف اور غلامی کی ندامت جتنی بھی کی جائے کم ہے۔ آزادی کھلی فضا میں سانس لینا اور اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنا ہے۔ آزادی وہ ہے جس کیلئے ہزاروں مائیں اپنے بیٹے اور ہزاروں بہنوں بیٹیوں نے اپنی عزتوں کی حفاظت کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں۔ اس آزادی کی قدر صرف اُسی کو ہوسکتی ہے جس کے سینے میں دل موجود ہو ورنہ ہزاروں لوگوں کے لقمہ اجل بن جانے سے بھی انسان کو آزادی کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوگا۔ آزادی کی قدر صرف وہی جانتا ہے جس نے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کی ہوں۔ مسلمانوں کی آزادی کے متعلق بات کریں تو مسلمانوں نے بہت عرصہ ہندوستان پر حکومت کرنے کے بعد 1857ء کی جنگ میں اپنی آزادی کو کھویا جب مسلمانوں کے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو قید کرکے رنگون بھیج دیا گیا اور انہیں دفن ہونے کیلئے بھی ہندوستان میں جگہ نہ مل سکی۔ اس کے بعد مسلمانوں کے عروج کو زوال ملا اور مسلمانوں نے طرح طرح کی سختیاں برداشت کیں۔ پورے برصغیر پر تقریباً سو سال تک انگریزوں کا قبضہ رہا۔ انگریزوں کے قبضے سے پہلے برصغیر پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔ انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کیلئے سرسیداحمدخان نے مسلمانوں کو بیدار کرکے ان کی توجہ تعلیم کی جانب مبذول کروائی اور ایک لمبے سفر کو طے کرنے کے بعد قائد اعظم کی صدارت میں مسلمانوں نے آزادی حاصل کی۔ آج جب ہم ہندوستان اور وادی کشمیر میں موجود مسلمانوں کو مظالم کا شکار بنتا دیکھتے ہیں تو ہمیں قائد اعظم کے احسان اور ان کے دوقومی نظریے کی دوراندیشی کا اندازہ ہوتا ہے کہ اگر اُس وقت پاکستان حاصل نہ کیاجاتا تو آج ہم پُرسکون نیند نہیں سوسکتے تھے۔ آج جس ملک میں ہم زندگی بسر کررہے ہیں وہ قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال، لیاقت علی خان اور چوہدری رحمت علی کی محنت اور لگن کی بدولت ہے۔ اگر علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب نہ دیکھا ہوتا اور اگر قائد اعظم نے اس ملک کو نہ بنایا ہوتا تو آج ہم انگریزوں اور ہندوبنیے کے غلام ہوتے اور ان کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتے۔ اگر علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے ہمیں نہ جگایا ہوتا اورقائد اعظم نے اس ملک کو حاصل کرنے کیلئے جدوجہد نہ کی ہوتی تو ہم یوں ہی خوابِ غفلت میں سوئے رہتے۔ قائد اعظم کی محنت اور جدوجہد کی بدولت آج ہم اس ملک میں آزادی کی سانس لے رہے ہیں۔ یہ وہ دن ہے جب پاکستان 1947ء میں انگلستان سے آزاد ہوکر معرض وجود میں آیا۔ آج کا دن پاکستان میں سرکاری سطح پر قومی تہوار کے طور پر بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ پاکستانی عوام اس روز اپنا قومی پرچم فضا میں بلند کرتے ہوئے اپنے قومی محسنوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ ملک بھر کی اہم سرکاری عمارات پر چراغاں کیاجاتا ہے۔ اسلام آباد جو کہ پاکستان کا دارالحکومت ہے اس کو خاص طور پر سجایا جاتا ہے، اس کے مناظر کسی جشن کا سماں پیدا کررہے ہوتے ہیں۔ سرکاری طور پر یوم آزادی انتہائی شاندار طریقے سے مناتے ہوئے اعلیٰ عہدہ دار اپنی حکومت کی کامیابیوں اور بہترین حکمت عملیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے عوام سے یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنے تن من دھن کی بازی لگا کر بھی اس وطنِ عزیز کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھیں گے اور ہمیشہ اپنے رہنما قائد اعظم محمد علی جناح کے قول ”ایمان، اتحاد اور تنظیم“ کی پاسداری کریں گے۔ اس دن طورخم، گلگت، بلتستان سے لیکر کوہ تافتان، چمن کے بارڈر، کراچی کے ساحل سمندر سے لے کر گوادر تک اورواہگہ بارڈرتک ایک جشن کا سماں ہوتا ہے۔ پورے پاکستان میں یومِ آزادی بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے اس روز ملک بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ گلی کوچوں، بازاروں اور عمارات کو خوبصورت قمقموں سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ سبز ہلالی پرچم لہرائے جاتے ہیں۔اکثر مساجد میں ملک و قوم کی خوشحالی اور ترقی کیلئے دُعائیں ہوتی ہیں۔ سکولوں اور کالجوں میں جلسے ہوتے ہیں جن میں پاکستان کے قیام پر روشنی ڈالی جاتی ہے جبکہ بڑے شہروں میں فوجی پریڈ بھی ہوتی ہے۔ چند فیصد بگڑے ہوئے بچے ہنگامہ، ہاہو مچاناجشن آزادی کی روح قرار دیتے ہیں، ملک کے ہرسو میں سبز ہلالی پرچم لہرائے جاتے ہیں اور اس دن ہر انسان اپنے گھر، دفاتر، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر سبز ہلالی پرچم لہرانا اپنا فرض سمجھتا ہے اور یوں یہ دن خوشیاں بکھیرتا ہوا گزر جاتا ہے۔ آج کا یہ جشن 75برس قبل 14 اگست 1947 کے یادگار دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جب اسلامیانِ ہند کو پاکستان کی صورت میں یہ نعمت عطا ہوئی تھی اور عین ستائیسویں رمضان کو ریاست مدینہ کے بعد دنیا کی پہلی اسلامی ریاست دنیا کے نقشے پر اُبھر کر سامنے آئی تھی۔
پاکستان کیسے بنا اور آزادی کی تحریک کیسے چلی یہ تو وہ لوگ ہی بہتر طور پر سمجھتے اور جانتے ہیں جنہوں نے یہ سب اپنی آنکھوں کے سامنے بنتا دیکھا ہے۔ تحریک پاکستان کے وقت مسلمانانِ ہند کا جذبہ جواں تھا اور اس نے اپنے محبوب قائد محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں طویل جدوجہد اور بیش بہا قربانیاں دے کر برصغیر کے ہندوؤں اور فرنگیوں سے آزادی حاصل کی تھی۔ آج کے دن چونکہ مسلمانانِ برصغیر نے ایک بے مثال تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں اپنے لیے پاکستان کی صورت میں آزاد جمہوریت اور اسلام کے سیاسی ومعاشی عدل کا گہوارہ حاصل کیا تھا۔ اس لیے ہمیں آج کے دن اپنی ماضی کی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنا ہے۔ دراصل 14 اگست ”یوم آزادی“ ہر پاکستانی کیلئے ایک پیغام مسرت لاتا ہے اور تجدید عہد کرنے اور اس پر عمل کرنے کی یاد دلاتا ہے کہ پاکستانیو! یہ دن کیوں اور کیسے آیا؟ اس دن کی پاکستانی قوم میں اتنی اہمیت کیوں ہے؟ اس دن ہم پاکستانیوں کو ایک صبح روشن کی نوید ملی اور سورج کی طرح روشن پاکستان معرض وجود میں آیا۔ اس دن غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئیں اور ہمیں آزادی نصیب ہوئی۔ یہ دن ہمیں لاکھوں مسلمان بھائیوں، بزرگوں، ماؤں اور بہنوں کی قربانیاں دینے کے بعد دیکھنا نصیب ہوا۔ اتنی بڑی قربانی اس لیے دی گئی کہ ہم آزاد، خوشحال اور اسلامی رسم و رواج کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔ برصغیر کے تمام مسلمانوں نے اس دن کی صبح نو دیکھنے کیلئے اپنا تن، من، دھن قربان کیا۔ ہمارے عظیم قائد محمد علی جناحؒ نے انتہائی نامساعد حالات میں جرأت اور عزم و ہمت سے ہندوؤں اور انگریزوں کے جال میں جکڑی ہوئی قوم کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے حصول پاکستان کیلئے بے مثال جدوجہد کی۔ عزم و استقلال کے پیکر قائد اعظمؒ ان تمام رکاوٹوں کو روندتے ہوئے مسلمانوں کے اس عظیم قافلے کو منزل مقصود پر لے گئے، یہ منزل تھی قیام پاکستان۔ اس قافلے میں ہمارے مفکرین، علامہ اقبالؒ اور دیگر لیڈروں، اولیاء کرام، طالبعلموں اور مزدوروں نے بڑھ چڑھ کر کام کیا اور تحریک پاکستان کی کامیابی اور کامرانی کیلئے انتھک محنت کی۔ جس کے نتیجے میں 14 اگست 1947ء کو پاکستان ایک مسلم ریاست کی شکل میں معرض وجود میں آیا۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی پوری زندگی برصغیر کے مسلمانوں کیلئے وقف کردی۔ تحریک پاکستان کے کارکنان اور اکابرین کی وجہ سے ہمیں آزادی جیسی نعمت ملی، ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔ مگر بہت افسوس کے ساتھ میں یہ بات کہہ رہا ہوں کہ آج کے پاکستانیوں کو آزادی کی اس قیمت کا اندازہ نہیں ہے کیونکہ ہم نے قید کو محسوس نہیں کیا لیکن جو حالات ہیں اگر مسلمانوں نے ان حالات پر قابو نہ کیا تو وہ وقت دور نہیں جب ہم خود کو آزاد نہیں کہہ سکیں گے کیونکہ ہماری صفوں میں آج بھی کئی میر قاسم اور میر جعفر موجود ہیں۔ آزادی کا حصول یقینا ایک بہت مشکل مرحلہ تھا اس میں اللہ ربُ العزت کی رحمت و رہنمائی اور مدد حاصل تھی۔ جس نے آزادی جیسی نعمت سے نوازا، اللہ ربُ العزت کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہوگا۔ کل حصولِ آزادی پاکستان کی جدوجہد تھی اور آج تعمیر و وطن کی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ آج پھر ہمیں تحریک آزادی پاکستان جیسے جذبے کی ضرورت ہے۔ ہمیں قومیتوں میں سے پھر ایک قوم بننا ہوگا کہ ہم نے آج تک جو غلطیاں کوتاہیاں کی ہیں ان کا ازالہ کیسے کرنا ہے؟ پاکستان کی عوام اور حکمران یہ جان لیں کہ کچھ بھی اچھا نہیں ہے۔ آزادی کے بعد آج تک کے سفر کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ ہم آگے نہیں پیچھے کی جانب گامزن ہیں۔ 75 سال ہم نے غفلت کی نظر کردئیے۔ یہ وہ پاکستان نہیں ہے جس کا خواب دیکھا گیا تھا اور جسے حاصل کرنے کیلئے ہمارے بزرگوں نے بے شمار قربانیاں دے کر حاصل کیا تھا۔ اللہ ربُ العزت نے پاکستان کو وسائل سے مالا مال کررکھا ہے لیکن ہم نے ان کو بروئے کار لانے کی بجائے ملک کو قرضوں کی دلدل میں مبتلا کررکھا ہے۔ کیا قائد اعظم اور علامہ اقبال نے ایسے پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔ تحریک آزادی کے دنوں میں قائد اعظم سے جب بھی سوال پوچھا جاتا تو وہ فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال قبل قرآن کی شکل میں آئین اور دستور عطا فرمادیاہے۔ یہی پاکستان کا آئین اور دستور ہوگا۔ ہمیں کسی اور دستور کی ضرورت نہیں۔ جس ملک کو اسلام کے نام پر حاصل کیاگیا تھا 75 سال گزرجانے پر بھی اسلامی جمہوری پاکستان کہلوانے کے قابل نہیں۔ پاکستان حاصل کرنے کیلئے جنہوں نے قربانیاں دیں ان کی نسلوں کو دووقت کی روٹی کی فکر لاحق ہے۔ حکمران عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہے ہیں، ایسے لوگوں کو پاکستان کی قدرومنزلت کا کیا احساس ہوگا جنہوں نے پاکستان کی آزادی کیلئے خون کا ایک قطرہ بھی نہیں بہایا۔ اگر ہم اپنا خود احتساب کریں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہم نظریات کی پٹڑی سے اتر چکے ہیں، ہمارے جذبے صرف اپنے مفادات کیلئے محدود ہوکررہ گئے ہیں، کیا ہم نے سوچا کہ پاکستان بننے کے 24 سال بعد 1971ء میں پاکستان کے دو ٹکڑے ہوگئے اور مغربی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش آج ہم سے کتنا آگے نکل گیا ہے۔ اُس ملک کی معیشت ہم سے کتنے گنا مضبوط ہے؟ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ چائنہ ہم سے دو سال بعد یکم اکتوبر 1949ء کو آزاد ہوا تھا اور آج چائنہ دنیا کی سپرپاور بن چکا ہے اور اُس نے چاند تک اپنی رسائی حاصل کرلی ہے اور امریکہ جیسی سپرپاور کو آج آنکھیں دکھارہا ہے اور دنیا کی مضبوط ترین قوت بن چکا ہے جس کی بری، بحری اور فضائی قوت دنیا میں سب سے بہترین ہے۔ اسی طرح ملیشیاء 31 اگست 1957ء کو آزاد ہوا آج اُس کی معیشت ہم سے کتنے گنا بہتر ہے، ہماری بدقسمتی کہ ہماری کرنسی آج افغانستان سے بھی کم ہے، آج پاکستان میں ڈالر 250 روپے کا اور افغانستان میں ڈالر 80 روپے کا، ہمارے ملک کے سیاستدانوں، معیشت دانوں اور عدلیہ کے معزز جج صاحبان اس ملک کے حال پر رحم کریں۔ اس ملک میں قانون کا بول بالا کریں، دراصل ہماری تباہی کی بنیادی وجہ لاقانونیت ہے اور چائنہ اور ملیشیاء کی ترقی کی بنیادی وجہ حب الوطنی اور قانون کی پاسداری ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ چائنہ سے قرضہ لینے کی بجائے دو چار جج چائنہ سے لے لیے جائیں اس ملک کو سُدھار دیں گے۔ اس ملک میں اب بے رحم احتساب ہونا چاہیے۔ افسوس پاکستان میں نہ تو قانون نام کی کوئی چیز ہے اور نہ ہی قانون کی پاسداری ہے جس کی وجہ سے آج دن بدن ہم ذلت کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ جب تک ہم اپنا احتساب نہیں کریں گے اس وقت تک ان مقاصد اور تقاضوں کو پورا نہیں کرسکیں گے جنہیں پورا کرنے کی ہم پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو انشاء اللہ پاکستان قائم و دائم رہے گا۔ اگر ہم پاکستان کی عظمت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں پہلے خود کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم سراب کے پیچھے بھاگنے کے بجائے قرار داد پاکستان اور قیام پاکستان کے اصل مقاصد کو سامنے رکھیں اور ان مقاصد کی روشنی میں تعمیر پاکستان کا کام کریں۔ یاد رکھیں کہ کام ہمیں ہی کرنا ہے۔ ہم نے ہی مل کر اپنے ملک کو سنوارنا ہے۔