یکم مئی: مزدوروں کے عالمی دن کی تاریخ 2022

تحریر: شیخ محمد انور(مرکزی صدر پاکستان ریلوے ایمپلائز پریم یونین سی بی اے) 2022؁ء
فون نمبر: 0333-2250719
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
یکم مئی: مزدوروں کے عالمی دن کی تاریخ
اس شہر میں مزدور جیسا کوئی دربدر نہیں
جس نے سب کے گھر بنائے اس کا کوئی گھر نہیں
مزدوروں کا عالمی دن یکم مئی کو منایا جاتا ہے۔ اس دن ان مزدوروں کی چھٹی ہوتی ہے جو بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائز ہوتے ہیں اور شاید نجی ادارے والے بھی خود کو مزدور ہی سمجھتے ہیں۔ دراصل جو مزدور ہیں جن کا چولہا روز کی کمائی سے جلتا ہے وہ اس روز بھی کام کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ ان کے چھٹی کر لینے سے اس روز ان کے گھر والوں کو بھوکا سونا پڑے گا۔
آج کے دن پاکستان اور دنیا کے دوسرے ممالک کے مزدور ”یوم مئی“ کے موقع پر شکاگو کے محنت کش رہنماؤں اور ان کے ہزاروں جانشینوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے 1886 ؁ء میں دنیا کے مختلف ممالک کی مزدور تحریکوں میں انسانیت کی بقاء کیلئے اپنی جانیں قربان کردیں۔ امریکہ کے شہر شکاگو میں مزدوروں سے تقریباً سولہ گھنٹے کام لیا جاتا تھا اور انہیں اجرت بھی بہت کم دی جاتی تھی اور صنعتوں کے مالکان اسی کشمکش میں لگے رہتے تھے کہ مزدور اپنے حق کیلئے آواز بلند نہ کریں۔ اگر کوئی مزدور باقی مزدوروں میں شعور پیدا کرنے کی کوشش کرتا تو اسے نوکری سے نکال دیا جاتا تھا یا پھر مار دیا جاتا تھا۔ لیکن چاہے انسان جتنا بھی ظلم کرلے ایک نہ ایک دن حق غالب آہی جاتا ہے۔ صنعتوں کے مالکان کے خلاف مزدوروں نے تنظیم بنالی اور مطالبہ کیا کہ وہ لوگ 8گھنٹے کام کریں گے۔ اس مطالبے کے اگلے ہی دن کئی مزدوروں کو گرفتار کرلیا گیا اور اُن پر مقدمات درج کردئیے گئے۔ کئی مزدور لیڈروں کو پھانسی اور قید کی سزائیں ہوئیں لیکن آخر کار یہ تنظیم زور پکڑتی گئی، ملازمین کی قربانیوں اور ہڑتالوں کی وجہ سے آخرکار مزدوروں کا مطالبہ مان لیا گیا اور اب کوئی بھی مزدور 8گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کرتا۔یکم مئی محنت کشوں کی فتح کا دن ہے۔ شکاگو کے شہیدوں نے محنت کی عظمت کا لازوال نقش قائم کیا۔ اس دن سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور حکومت نے مزدوروں کی تحریک کو کچلنے کیلئے ان نہتوں پر بے دریغ طاقت کا استعمال کیا اور نہتے مزدوروں پر گولیاں برسادیں۔ مزدور حقوق کے حصول کیلئے مزدوروں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ بے شمار مزدور موقع پر شہید ہوگئے، بے شمار مزدوروں کو سولی پر لٹکا دیا گیا۔ امریکہ کے شہر شکاگو کی سڑکیں خون سے سرخ ہوگئیں اور بالآخر ان قربانیوں کے نتیجے میں صنعت کاروں اور حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور 1886؁ء میں بیس گھنٹے مشقت کی بجائے آٹھ گھنٹے ڈیوٹی لینے کا حکم جاری ہوا۔اس طرح مزدوروں کے یہ الفاظ درست ثابت ہوئے اور یوم مئی دنیا بھر میں محنت کشوں کا عالمی دن کے طور پر منایا جانے لگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شکاگو کے مزدوروں نے مزدوروں کے حقوق کیلئے بہت بڑی قربانی دی اور مزدوروں پر ہونے والے ظلم استحصال کو ختم کرنے کی نوید سنائی۔ مزدوروں کے کام کے اوقات کو آٹھ گھنٹوں میں متعین کروایا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کیونکہ کسی استحصالی ریاست یا حکومت کے خلاف لڑنا کوئی آسان کام نہیں اور نہتے مزدوروں کا مسلح سپاہیوں سے ٹکرانا نہایت مشکل ہے لیکن جب کوئی شخص یا طبقہ اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے جنگ آزما ہوجاتا ہے تو پھر وہ ہر طاقت سے ٹکرا جاتا ہے لیکن ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ دین اسلام میں مزدور کی محنت کی عظمت کا تصور بہت اعلیٰ اور برتر ہے۔یوم مئی کے دن مزدوروں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا مگر اس واقعہ کے ڈیڑھ صدی گزر جانے کے بعد بھی پاکستان کے محنت کشوں کا طبقاتی نظام پر احسان بھی کچھ کم نہیں جو انتہائی کم اجرتوں پر مہنگائی سے لڑتے لڑتے روز جیتے اور روز مرتے ہیں، میرے نزدیک موجودہ دور میں مزدور کو صرف بیروزگاری، غربت اور مہنگائی کا سامنا ہے بلکہ گیس اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ہزاروں صنعتیں بند اور لاکھوں محنت کش بے روز گار ہوگئے ہیں۔ راقم الحروف پاکستان کی سب سے بڑی مزدور تنظیم ”پاکستان ریلوے پریم یونین“ کا ”مرکزی صدر“ ہے۔ اس ادارے میں آج بھی مزدور 16 گھنٹے اور بعض اسٹیشنوں پر 24گھنٹے ڈیوٹی کرنے پر مجبور ہے۔ چند روز قبل ختم ہونے والی حکومت کے وفاقی وزیر نے ریلوے کو اس طرح برباد کیا ہے کہ جیسے اُس کے ہاتھ میں بھارت کا کوئی ادارہ آگیا ہو۔ 1ہزار سے زائد گینگ مین، گیٹ مین اور پٹرولرز کو نوکریوں سے محض اس بنیاد پر فارغ کردیاگیا کہ اس سے ادارے کی بچت ہوگی۔ بجائے روزدینے کے انہوں نے مزدوروں کے منہ سے نوالہ چھین لیا اور انہی غریب مزدوروں کی بددُعائیں ان کی حکومت کے خاتمے کا سبب بنیں۔ میرے نزدیک حکومت کی جانب سے کم از کم اجرت 18ہزار روپے مقرر تو کی گئی ہے لیکن اس پر مکمل عمل درآمد نہیں کیاجارہا۔ نجی شعبے تو مرضی کے بادشاہ ہیں وہاں پر تو مزدور بہت کم اجرت پر ملازمت کرنے پر مجبور ہیں۔ طے پایا گیا تھا کہ مزدوری کے اوقات 8گھنٹے ہوں گے لیکن پاکستان سمیت دنیا بھر میں مزدوروں کی اکثریت تعداد کا حق مارا جارہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ جسمانی محنت مزدور کرتا ہے اور اس کے باوجود سب سے کم معاوضہ بھی مزدوروں کو ہی ملتا ہے۔ مہنگائی کے اس تیز ترین دور میں ایک مزدور اتنی کم آمدنی میں اپنے بیوی بچوں کو کیسے پالتا ہے؟ مہنگائی کی رفتار اس قدر بڑھ رہی ہے کہ متوسط اور متمول طبقات کیلئے بھی مہینے بھر کے اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں رہا۔ کئی ایسے مزدور بھی ہیں جو یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں اور ان کے حالات عام مزدوروں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ انہیں کبھی کام ملتا ہے اور کبھی پورا دن انتظار کے بعد بھی خالی ہاتھ اپنے گھر واپس لوٹنا پرٹا ہے۔ مزدوروں کے معالمی دن کے موقع پر کئی تقاریب، ریلیاں، جلسے جلوس اور تقاریر منعقد ہوتی ہیں، حکومت کے اعلیٰ افسران اور عہدیدار مزدوروں کیلئے جو وعدے کرتے ہیں وہ آج تک کبھی پورے نہیں ہوسکے۔ تقریباً ہر سال بجٹ میں مزدوروں کیلئے نئی پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہے جس پر عمل درآمد نہیں ہوتا اور تمام وعدے یونہی ہوا میں اُڑ جاتے ہیں۔
حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ”قیامت کے دن تین آدمی ایسے ہونگے جن سے میں جھگڑا کروں گا، ایک وہ شخص جس نے میرا نام لے کر معاہدہ کیا اور پھر اس آدمی نے اس عہد کو توڑ دیا۔ یعنی بدعہدی کی، دوسرا وہ شخص جس نے کسی شریف اور آزاد آدمی کو اغواء کرکے اسے فروخت کیا اور اس کی قیمت کھائی، تیسرا وہ شخص جس نے کسی مزدور کو مزدوری پر محنت کیلئے مقرر کیا پھر اس سے پورا کام لیا اور کام لینے کے بعد اس کو اس کی مزدوری ادا نہیں کی یااس کی محنت اور مشقت کے برابر اس کی اجرت ادا نہیں کی“۔ حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے کتنے مؤثر انداز میں محنتی لوگوں اور مزدوروں کی عظمت بیان کی ہے۔ ارشادِ پاک ہے کہ مزدوروں کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کردو۔ پھر ان ہاتھوں کو متبرک کہا گیا جو محنت کرتے ہیں اور پھر اس کمائی کا بہتر قرار دیا گیا جو ان ہاتھوں سے حاصل ہوتی ہے جس میں انسان کی محنت اور پسینہ صرف ہوتا ہے، اسلام میں احترام انسانیت کے متعلق بہت سی تعلیمات ہیں اور ان کا تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ احترام انسانیت کی بنیاد سرمایہ نہیں بلکہ محنت ہے۔ پاکستان میں بھٹہ مزدور تو سامنے کی بات ہے۔ پھر کھیت مزدوری کرنے والے اور سیالکوٹ جیسے شہر میں کھیلوں کا سامان بنانے والی فیکٹریوں میں کام کرنے والے بچے اور دیہی علاقوں میں سلائی کڑھائی کرنے والی خواتین کا جو استحصال ہورہا ہے اس نے ثابت کردیا ہے کہ مزدور حقوق کی تحریک نے جو بھی حقوق حاصل کیے تھے وہ آج دوبارہ سلب ہوچکے ہیں۔ معاشی غلامی اس عہد کی اپنی طرز کی غلامی ہے۔ جس نے افراد کے ساتھ ساتھ اقوام کو بھی اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے عام مزدور سے یکم مئی کے بارے میں پوچھ لیں تو شاید ہی کسی مزدور کو اس دن کے بارے میں علم ہوگا۔ یکم مئی کی پہچان اگرچہ مزدوروں کے دن کے حوالے سے ہی ہے لیکن مزدوروں کی اکثریت اس دن کی اہمیت اور اپنے ان حقوق سے بے خبر ہے جن کی یاد یہ دن دلاتا ہے۔ پاکستان میں یوم مئی کے موقع پر سرکاری اور غیر سرکاری تقریبات ہوتی ہیں لیکن ایک عام مزدور کو تو صرف کام میں ہی اپنا فائدہ نظر آتا ہے اسے یوم مئی سے کیا غرض؟

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے