14 اگست 1947ء اور اس کے تقاضے 14 اگست 1947؁ء : ایک مسلسل تحریک کی منطقی منزل 2020

تحریر: شیخ محمد انور
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
آزادی عظیم نعمت
14 اگست 1947ء اور اس کے تقاضے
14 اگست 1947؁ء : ایک مسلسل تحریک کی منطقی منزل
14 اگست کے سورج نے سو سالہ غلامی کے اندھیروں کو ختم کرکے ہمیں آزادی کے اُجالوں سے نوازا۔
ہم نے آزادی تحفے کے طور پر حاصل نہیں کی بلکہ اس کے پیچھے ایثار و قربانی کی ایک طویل تاریخ مرتب ہے۔
پاکستان کے طو ل و عرض میں آج جشن آزادی منایا جا رہا ہے، طورخم سے لیکر چمن تک، چمن سے تافتان تک، تافتان سے کراچی اور کراچی سے چک امرو تک پاکستانی قوم اس حوالے سے تقریبات منعقد کرے گی اور ہر شخص اپنے شعور کے مطابق آج کا دن منائے گا۔ پورے پاکستان میں یومِ آزادی بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے اس روز ملک بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ گلی کوچوں، بازاروں اور عمارات کو خوبصورت قمقموں سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ سبز ہلالی پرچم لہرائے جاتے ہیں۔ مساجد میں ملک و قوم کی خوشحالی اور ترقی کیلئے دُعائیں ہوتی ہیں۔ سکولوں اور کالجوں میں جلسے ہوتے ہیں جن میں پاکستان کے قیام پر روشنی ڈالی جاتی ہے جبکہ بڑے شہروں میں فوجی پریڈ بھی ہوتی ہے۔ چند فیصد بگڑے ہوئے بچے ہنگامہ، ہاہو مچانا جشن آزادی کی روح قرار دیتے ہیں، ملک کے ہر کونے میں سبز ہلالی پرچم لہرائے جاتے ہیں اور اس دن ہر انسان اپنے گھر، دفاتر، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر سبز ہلالی پرچم لہرانا اپنا فرض سمجھتا ہے اور یوں یہ دن خوشیاں بکھیرتا ہوا گزر جاتا ہے۔ 14 اگست 1947ء کی تاریخ برصغیر پاک و ہند کی ناقابل فراموش تاریخ ہے۔ اس روز اسلامیان ہند نے ثابت کردیا کہ وہ کسی ایسی متحدہ قومیت کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں جس میں ان کا اسلامی تشخص دھندلا کر رہ جائے۔ قوم آج 73 واں یوم آزادی منا رہی ہے۔ آزادی سے بڑی نعمت دنیا میں کوئی نہیں ہوسکتی۔ ایک آزاد قوم ہونے کی حیثیت سے ہمارا سرفخر سے بلند ہونا چاہیے اور ہمارے دل مسرت سے معمور ہونے چاہییں۔ آزادی کی قدر و قیمت ان اقوام سے پوچھنی چاہیے جو اس نعمت سے محروم ہیں لیکن جب ہم اپنے حال پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک المناک نقشہ سامنے آتا ہے کیونکہ پاکستان جن مقاصد کیلئے بنایا گیا تھا اور بانیان پاکستان نے اپنی زندگی جس ارفع و اعلیٰ مشن کیلئے وقف کر رکھی تھی، ہم اس کو یکسر فراموش کرچکے ہیں۔ آج آزادی کے 72 سال میں ہم گروہ بندی کا شکار ہوکررہ گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے باہمی لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے پاکستان کا ایک حصہ تن سے جدا کر دیا ہے یعنی ہم اپنی حماقتوں سے آدھا ملک گنوا چکے ہیں اور باقی ماندہ ملک کو سنگین خطرات سے دوچار کرچکے ہیں۔ پاکستان کا حصول اس لیے ممکن ہوا تھا کہ ہم نے یہ ثابت کردکھایا تھا کہ ہم ایک مسلمان قوم ہیں اور آج ہم اپنی اپنی پسند کی قومیتوں کے خانوں میں بٹ چکے ہیں۔ لسانی، گروہی، نسلی، علاقائی، صوبائی اور فرقہ ورانہ تعصبات نے ہمارے جسم میں زہر پھیلا دیا ہے اور ہم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے ہیں۔ باہمی اعتماد اور اخوت و اتحاد کے رشتے ناپید ہیں۔ مفادات کی جنگ تیز تر ہے اور کرپشن، بدعنوانی اور بد دیانتی سکہ رائج الوقت کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہماری قومی زندگی کے افق پر 14 اگست کا دن ایک ایسا آفتاب بن کر ظہور پذیر ہوا جس کی خوشگوار کرنوں نے سوسالہ غلامی کے اندھیروں کو ختم کردیا۔ یہ دن ہماری آزادی کی روشنی لے کر نمودار ہوا اور ہماری قومی تحریک کا ایک روشن ورق بن کر ہمارے لیے فخر کا باعث بنا۔ ہم اس دن پر جس قدر بھی ناز کریں کم ہے۔ آزادی کا حصول بلاشبہ ایک عظیم کارنامہ ہے لیکن اس سے بھی بڑا کارنامہ آزادی کو برقرار رکھنا اور اس کے نتائج سے مستفید ہونا ہے۔ ہم نے آزادی کوئی تحفے کے طور پر حاصل نہیں کی بلکہ اس کے پیچھے ایثار و قربانی کی ایک طویل تاریخ مرتب ہے جسے ان گنت شہیدوں کے خون کی روشنائی سے تحریر کیا گیا ہے۔ آزادی کو صرف وہی لوگ برقرار رکھ سکتے ہیں جو انفرادی اور اجتماعی طور پر ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کی بجا آوری سے کما حقہ بہرہ ور ہوں۔ آزادی ایک عظیم ذمہ داری، مسلسل جدوجہد ان تھک محنت اور ایک ذہنی، فکری اور اخلاقی انقلاب کا نام ہے۔ آج نئی نسل کیا جانے آزادی کسے کہتے ہیں اور کیسے حاصل کی گئی ہے۔ یہ لوگ تو ائیرکنڈیشنڈ بنگلوں میں رہتے ہیں اور ائیرکنڈیشنڈ گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں انہیں کیا معلوم کہ آج سے 73 برس پہلے سڑکوں کا کیا حال تھا، ذرائع آمدورفت کیا تھے، ہمارے ملک میں تو شہروں سے ملحق دو تین میل کے فاصلے پر جو دیہات آباد ہیں وہاں تو آج کے اس آئی ٹی کے دور میں بھی لوگ بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان آج الحمدللہ ایٹمی قوت ہے اور دنیا کی بہترین فوج پاکستان کے پاس موجود ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں نوجوانوں کی ایسی تعداد ہمارے پاس موجود ہے جو کہ شہادت کو اپنا نصب العین سمجھتی ہے، بس صرف ایک آواز لگنے کی دیر ہے تو پاکستان کا نوجوان پاک فوج سے پہلے بارڈروں پر کھڑا نظر آئے گا مگر افسوس کہ آج کشمیر میں ہماری ماؤں اور بہنوں کی عصمت دری جاری ہے، چھ ماہ سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے کہ وہاں پر لاک ڈاؤن ہے لیکن ہم آج اپنے فرض کو بھول چکے ہیں کہ ہم نے اپنے کشمیری بھائیوں کو بھی ان بھارتی جنتہ سے آزادی دلوانی ہے۔ وقت آ پہنچا ہے کہ جس طرح چائنہ نے لداخ پر اپنے فوجیوں کو لگایا ہے پاکستان کو بھی کچھ جارحانہ انداز اپنانا چاہیے، آئے روز موصاد اور راء کی ایما پر پاکستان کے مختلف شہروں میں پاک فوج کے جوان شہادتیں دے رہے ہیں اور پاکستان کی قوم اپنے جواں سالہ بھائی اور بیٹوں کی لاشیں اُٹھا اُٹھا کر تھک چکے ہیں۔ میرے نزدیک تو اب بھارتی جنتہ کو خبردار کرنا چاہیے کہ یا تو اپنی حرکتوں سے باز آجائے یا پھر ہندوستان کا ایک علاج، الجہاد، الجہاد۔
میرے والد محترم جو کہ 1917ء میں پیدا ہوئے اور جب پاکستان بنا تو والد محترم بینک آف انڈیا موجودہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں ملازم تھے۔ اُنہوں نے پاکستان کو بھرپور جوانی میں بنتے اور ٹوٹتے ہوئے دیکھا۔ والد صاحب بتاتے ہیں کہ جب میں اپنے عزیزواقارب کو انڈیا سے لے کر پاکستان کی طرف آ رہا تھا تو میں نے اپنی آنکھوں سے کئی ماؤں کو اپنی جواں سالہ بیٹیوں کو کنوؤں میں پھینکتے ہوئے دیکھا، میں نے بچوں کے تڑپتے لاشے دیکھے، میں نے نوجوانوں کی گردنوں کو کٹتے دیکھا، جب پاکستان بنا اور ادھر سے مسلمان آبادی کو اپنے گھر بار چھوڑ کر فوراً نکل جانے کا الارم دیا تو میں نے دیکھا کہ ہر طرف بھگدڑ مچی ہوئی تھی، مکانوں، کھلیانوں میں آگ لگی ہوئی تھی، گولیوں کی تڑتڑاہٹ، عوام کی چیخ و پکار، لوگوں کی دھکم پیل کا ریلا، واویلا، وہ پرانے لکڑی کے پہیوں والے گڈے، بیل گاڑیاں وغیرہ ایک جم غفیر قافلہ بے سروسامانی کے عالم میں رواں دواں ہے۔ یہ قافلہ ایک ڈوگرا فوج کی نگرانی میں تھا۔ دو میل کی مسافت کے بعد ایک چھوٹے سے گاؤں بہرام پہنچ گئے وہاں رات کیلئے پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا گیا، کھلے آسمان تلے درختوں کے نیچے زمین پر ایسے ہی اُٹھ بیٹھ کر رات گزاری۔ اسی ڈوگرا فوج کی طرف سے کھانے پینے کے لیے راشن دیا جاتا تھا، جس سے بڑی مشکل سے بھاگ دوڑ کرکے چند روٹیاں تندوری اور چنے کی دال میسر آتی تھی، کبھی کبھار دو دو مٹھی آٹا گندم اپنی جھولیوں میں بھرلاتے اور وہیں کسی تندور یا چولہے پر سے روٹی لگوالی جاتی تھی۔ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ایسے ہی کسی دوسری جگہ کیمپ منتقل کردیا جاتا تھا۔ جب دوسری طرف سے سکھوں کے جھتے حملہ آور ہوئے تو اندھا دھند برچھیوں اور تلواروں سے دوبدو معرکہ آرائی شروع ہوگئی، اس دوران جب فوج کی طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی تو لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی اور نفسا نفسی کے عالم میں ہر ایک اپنی جان بچانے کی فکر میں ہوگیا، اسی عالم میں کوئی ماں اپنے بچے سے جداہوگئی، باپ بیٹے کو کھو بیٹھا، ہم لوگوں نے چار چار گھنٹے کھیتوں میں فصلوں کی اوٹ میں مٹی کے ٹیلوں میں گزارے اور بہت مشکل سے لاہور پہنچے۔ ہم نے وہ دور بہت قریب سے دیکھا ہے کہ جب گھروں میں ماچس کی ڈبیہ بھی نہیں ہوتی تھی۔ کسی دوسرے کے گھر سے اوپلے پر آگ کی چنگاری رکھ کر لاتے تھے اور پھونکیں مار مار کر اپنے گھر کے چولہے میں آگ جلاتے تھے۔ تقسیم ہند کی آزادی کے وقت ہر گھر میں تو پینے کے پانی کیلئے نلکہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ میں نے وہ دور بہت قریب سے دیکھا ہے جب غریبی انتہاء کو تھی مگر ادب آداب، کھلے ہوئے چہرے، حسن، رونق، چمک دمک، احترام آدمیت، محبت و شفقت، انسانیت اوروضع داری بھی انتہاء کو تھی، مکان کچے تھے مگر ایمان پکے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب ایک طرف غریب لوگ تھے تو دوسری طرف امیر لوگ تھے جن کا رہن سہن الگ تھلگ ہوتا تھا مگر وہ بھی درد دل رکھتے تھے، وہ سادہ کپڑوں میں بھی ایک خاص وضع قطع کے حامل نظر آتے تھے، ان کی زبان میں مٹھاس پائی جاتی تھی، خدا ترسی اور محبت و شفقت کے دلدادہ ہوتے تھے، چھوٹے لوگوں کی محفلوں، مجلسوں میں عملی طور پر گھل مل جاتے تھے۔ آج پیسے کی فراوانی نے عام آدمی کے دماغ کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ جو آدمی چاول بیچ رہا ہے وہ بھی اپنی غریبی پر قناعت نہیں کرتا۔ دوسری طرف جس آدمی نے مائع کلف والے کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور جس کے پاس روپے پیسے کی فراوانی ہے اسے آپ امیر نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس کی حرکات و سکنات گھٹیا ہیں اور ادب و اخلاق میں زیرو ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خود تجزیہ کریں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور کس طرف جا رہے ہیں؟ والد محترم جو آج اس دنیا میں نہیں ہیں جو کہ 2012ء میں اس جہان سے رخصت ہوگئے، متعدد بار پی ٹی وی چینل نے اُن کا انٹرویو نشر کیا۔

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے