23 مارچ 1940؁ء کی تاریخی قرار داد پاکستان کی بنیاد ہے۔

تحریر: شیخ محمد انور 2021؁ء

ای میل: sheikhmanwar@gmail.com

فون نمبر: 0333-2250719

23 مارچ 1940؁ء کی تاریخی قرار داد پاکستان کی بنیاد ہے۔

23 مارچ 1940؁ء سے پہلے برصغیر کے مسلمانوں کا شیرازہ بکھرا ہوا تھا۔

یوم پاکستان ہمیں اپنے ماضی کی کوتاہیوں کا اصلاح و احوال کرنے، حال کو درست کرنے کا تقاضہ کرتا ہے۔

آج 23 مارچ کا دن ہے، یوم تجدید عہد کا دن ہے۔ آج وہ زمانہ یاد آرہا ہے کہ جب مسلمانانِ ہند غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے، انگریزوں اور ہندوؤں کے مظالم برداشت کررہے تھے، جس سرزمین پر انہوں نے نوسوسال حکومت کی تھی اسی سرزمین پر ان کیلئے عرصہ حیات تنگ تھا۔ تب ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے مذہبی، سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی عقائد کی نشوونما کیلئے آزاد وطن کا مطالبہ کیا جو پاکستان کی تشکیل کا باعث ہوا۔ مسلمانوں کے اس مطالبہ کی وجوہات سے واقف ہونے کیلئے تاریخ کے اوراق کو پلٹنا ہوگا کیونکہ تاریخ نہ صرف واقعات گزشتہ کا عکس ہے بلکہ حال کا اور مستقبل کیلئے آئینہ بھی ہے۔ یہ مملکت خداداد پاکستان کرہ ارض پر جس طرح سے قائم ہوئی ہے اس کی مثال روئے زمین پر نہیں ملتی، اقوام عالم کی پوری تاریخ میں کوئی بھی ایسی مثال نہیں ہے کہ کوئی ملک ایک قرار داد کے ذریعے عالم وجود میں آیا ہو۔ یہ شرف صرف اور صرف قرار داد پاکستان کو حاصل ہے کہ اس کی اساس پر ایک اسلامی ملک معرض وجود میں آیا اور ہندوستان کے دو ٹکڑے ہوئے۔ مسلمانان ہند کا انگریز سامراج سے آزاد ہونا اور غیر مسلم اقوام کی بالادستی سے ہمیشہ کیلئے نجات حاصل کرنا قرار داد پاکستان کا مرہون منت ہے اور یہ ایک ایسا سیاسی معجزہ ہے جو آج تک کسی قرار داد نے دنیا سیاست میں کرکے نہیں دکھایا۔ یہ قرار داد پاکستان کا ہی اعجاز ہے کہ برصغیر کے مسلمان نہ صرف ایک آزاد قوم کی حیثیت سے زندہ ہیں بلکہ ایک اسلامی مملکت کے والی وارث بھی ہیں۔ اس قرار داد کے توسل سے مسلمانان ہند نے نہ صرف غلامی کی زنجیروں کو توڑا اور انگریز ہندو سکھ و دیگر غیر مسلم اقوام کی حاکمیت و حکمرانی کے طوق کو گردن سے اتارا بلکہ مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن بھی حاصل کرکے دیا۔ غلامی سے آزادی اور ایک نیا ملک حاصل کرنے کی مسلمانان ہند کو جو سعادت نصیب ہوئی وہ قرار داد پاکستان کا سیاسی نقطہ عروج کے طفیل ہے اور یہ ایسی حقیقت ہے کہ اسے نہ تو کوئی مورخ نظرانداز کرسکتا ہے اور نہ ہی دنیا کی تاریخ اسے جھٹلا سکتی ہے۔ مسلمانان ہند کا مقدر بدلنے میں اس قرار داد کا جو عظیم حصہ ہے وہ رہتی دنیا تک کوئی نہیں مٹا سکتا اور نہ ہی اس قرار داد کی اہمیت و افادیت میں ذرہ برابر کمی کرسکتا ہے۔ غلام قوموں کی تقدیر میں یہ واحد قرار داد ہے جس کی روشنی میں ایک قوم نے آزادی جیسی نعمت عظمیٰ حاصل کی اور آزادی کے ساتھ ساتھ ایک الگ خطہ زمین کی ملکیت بھی حاصل ہوئی جو دنیا کی سب سے بڑی ”اسلامی مملکت“ کہلائی۔ یہ مملکت اس قرار داد کی اساس پر قائم ہوئی اور اس کی بنیاد دو قومی نظریہ پر تھی جسے مسلم اکابرین نے ہندوستان کے مسلمانوں کے اذہان میں اجاگر کیا اور قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کی عظیم قیادت نے مسلمانان ہند کو سبزہلالی پرچم تلے جمع کرکے قافلہ حریت کو منزل مراد تک پہنچایا بلاشہ یہ قرارداد مسلمانان ہند کیلئے نجات دہندہ کی حیثیت رکھتی ہے اور جب تک پاکستان قائم و دائم ہے یہ قرار داد آسمان کے افق پر جگمگاتی رہے گی۔ قرار داد پاکستانی قوم کی وہ عزت، وہ آبرو، وہ ناموس ہے جس کی حفاظت دنیا کے آخری لمحات تک کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے کیونکہ یہ قرار داد نہ ہوتی تو آج پاکستان دنیا کے نقشے پر نہ ہوتا اور نہ ہم ایک آزاد قوم کی حیثیت سے زندہ ہوتے، نہ ہمارا وجود دنیا کی اقوام تسلیم کرتیں۔ پاکستان قرار داد کے ستونوں پر قائم ہے جس بنیاد پر یہ ملک قائم ہے اس بنیاد کی اہمیت کا اقرار کرنا اسے ماننا اور اس کو مضبوط و مستحکم بنانا ہی زندہ قوم کا شیوہ اور منصب ہوتا ہے۔ یہ قرار داد کرہ ارض پر ایک ایسا بیج ہے کہ جس کی بناء پر پاکستان نام کا پودا (1947) میں ظہور میں آیا اور اب ایک تناورپھل دار گھنا درخت بن چکا ہے جس کے سایہ میں پاکستانی قوم امن و سکون کا سانس لے کر اس کے ثمرات سے فیض یاب ہورہی ہے اور آئندہ آنے والی نسلیں بھی اس سے فیض یاب ہوں گی۔ آج ہمیں اس سوال کا جواب خود تلاش کرنا ہے کہ پاکستان جن مقاصد کی تکمیل کیلئے معرض وجود میں آیا تھا کیا ہم نے انہیں پورا کیا؟ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ پاکستان اپنے قیام کے 24 سال بعد دولخت کیوں ہوگیا اور اہم اپنے قائد کی امانت کی حفاظت کیوں نہ کرسکے؟ درحقیقت پاکستان جن اغراض و مقاصد کی تکمیل کیلئے وجود میں آیا تھا آج ہم نے انہیں یکسر نظرانداز کردیا ہے۔ آج ہمارے سیاستدان اپنے مفادات کیلئے آئینی شقوں پر شورشرابا کرتے ہیں مگر قرارداد مقاصد کے متن کو ہم نے جس انداز سے نظرانداز کردیا ہے اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کا ٹارگٹ صرف حکومت کرنا ہے۔ یہ کبھی نہیں سوچتے کہ حکومت کرنے کیلئے ایک خطہ اور سرزمین کا وجود بھی لازمی ہے، خدانخواستہ اگر یہ خطہ ہی نہ رہا تو ان کی تخت و تاج کی خواہشات تو دھری کی دھری رہ جائیں گی کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو دشمن کے شر اور بری نظر سے محفوظ کر سکے۔ قائد اعظم جو پاکستان کے بانی تھے وہ اپنی کتنی جائیداد چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوئے اور ان لوگوں کی کتنی جائیدادیں ہیں جن کے ثمرات سے ان کے آنے والی نسلیں فیض یاب ہورہی ہیں۔ صرف قائد اعظم زندہ آباد اور پاکستان زندہ آباد کے نعرے لگانے سے تو اس ملک کا بھلا نہیں ہوگا بلکہ اس کیلئے صحیح معنوں میں قائد اعظم کے اقوال پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ یوم پاکستان کے موقع پر سب پاکستان سے وفاداری کے موضوع پر تقریریں کرکے اپنا پاکستانی ہونے کا حق تو ادا کردیتے ہیں مگر اس نظریاتی مملکت کی اہمیت کو سمجھنے کیلئے جس غور و فکر اور گہرائی کی ضرورت ہے اس پر ہم نے کبھی کوئی بات نہیں کی حالانکہ اس خطہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کا بنیادی مقصد قرآن اور سنت کے مطابق ایک جیسا اسلامی اور فلاحی نظام قائم کرنا تھا جس کے ثمرات سے نہ صرف خطہ کے لوگ بلکہ پورا عالم اسلام فیض یاب ہوتا مگر ہم آپسی اختلافات اور ذاتی مفادات کی جنگ میں اس قدر آگے چلے گئے ہیں کہ ہم نے ان نظریات کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے جو اس اسلامی مملکت کے قیام کا سبب بنے۔ نئی نسل کو اپنی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے، قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال، سرسیداحمد خان اور مولانا محمد علی جوہر جیسی ہستیوں کے افکار ونظریات سے آگاہی حاصل کرنی چاہیے۔ صرف یہی ایک راستہ ہے کہ جس پر چل کر ہم سچے اور نظریاتی پاکستانی بن کر اس مملکت خداداد کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ پاکستان بنانے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ یہاں کے پسماندہ اور غربت زدہ لوگوں کیلئے ایک ایسا معاشی نظام قائم کیا جائے جس میں وہ باوقار طریقے سے خوشی کی زندگی بسرکرسکیں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج پاکستان کی عوام کا سب سے بڑا مسئلہ ہی غربت و افلاس اور مہنگائی ہے۔ ہم سب پاکستانی ہیں اس میں حکمران بھی شامل ہیں اور عوام بھی اور دونوں کے نزدیک ان کی سلامتی اور بقاء کا راز پاکستان کی سلامتی اور بقاء میں ہے۔ ہم ساری ذمہ داریاں اور الزامات حکومت کے سرتھوپ کر خود بری الذمہ ہوجاتے ہیں، ہم اگر اپنا احتساب کریں اور دیکھیں کہ کیا ہمارا کردار ایک سچے پاکستانی کا ہے تو یقینا ہمیں اس کا جواب نفی میں ملے گا۔ اس وقت پاکستان کے ہر دوسرے گھر میں بھارتی فلمیں اور بھارتی چینلز دیکھے جارہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا حکومت نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ وہ یہ چینلز خود بھی دیکھیں اور اپنے بچوں کو بھی ضرور دکھائیں۔ اگر ہم اپنا خود احتساب کریں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہم نظریات کی پٹڑی سے اتر چکے ہیں، ہمارے جذبے صرف اپنے مفادات کیلئے محدود ہوکررہ گئے ہیں اور جب تک ہم اپنا احتساب نہیں کریں گے اس وقت تک ان مقاصد اور تقاضوں کو پورا نہیں کرسکیں گے جنہیں پورا کرنے کی ہم پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو انشاء اللہ پاکستان قائم و دائم رہے گا۔ اگر ہم پاکستان کی عظمت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں پہلے خود کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ یوم پاکستان ہمیں اپنے ماضی کی کوتاہیوں کا اصلاح و احوال کرنے، حال کو درست کرنے کا تقاضہ کرتا ہے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کیلئے مادر وطن کو پیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے غوروفکر اور ملک کی سلامتی و استحکام کی خاطر ہر قربانی دینے کیلئے تیار رہنے کا متقاضی ہے اور یہی مادر وطن کا ہم پر قرض ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے کسی قوم کی حالت اس وقت نہیں بدلی جب تک وہ خود اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش اور خیال نہ کرے۔

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے