مہنگائی اور حکومتی رٹ 2020

تحریر: شیخ محمد انور

ای میل: sheikhmanwar@gmail.com

فون نمبر: 0333-2250719

مہنگائی اور حکومتی رٹ

وزیر اعظم عمران خان عوام کو ریلیف کب دینگے؟

ملک میں ایک مرتبہ پھر مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آ چکا ہے۔ اشیائے خورونوش اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافہ کے باعث لوگ پریشان ہیں۔ ملک میں ناجائز منافع خور مافیا عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہے اور متعلقہ ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ وفاقی ادارہ شماریات نے اعتراف کیا ہے کہ موجودہ حکومت کے دوسرے سال میں پہلے سال سے بھی زیادہ شرح سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کی دستاویز کے مطابق 30 جون کو ختم ہونے والے گزشتہ مالی سال میں اوسط مہنگائی 10.74 فیصد رہی ہے جو کہ گزشتہ 8 سال کی مہنگائی کی بلند ترین سطح ہے جب کہ اس سے پچھلے مالی سال میں اوسط مہنگائی کی شرح 6.80 فیصد تھی۔ وفاقی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایک سال میں آٹے کا 20 کلو تھیلا 204 روپے مہنگا ہوا اور اس کی قیمت 844 سے بڑھ کر 1048 روپے ہو گئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک سال میں چینی 8 روپے 79 پیسے فی کلو مہنگی ہو کر 72.03 روپے سے بڑھ کر 80.82 روپے فی کلو ہو گئی۔ اس کے علاوہ چائے کی فی کلو قیمت میں 100روپے اور گھی کی فی کلو قیمت میں 50 روپے کا اضافہ ہوا جب کہ دال مونگ کی فی کلو قیمت میں 92 روپے اور دال ماش کی فی کلو قیمت میں 68 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کی دستاویز کے مطابق مالی سال 20-2019ء میں ٹماٹر، سرخ مرچ، مرغی، انڈے، گڑ، گوشت، آلو، دودھ اور گھی کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔ رپورٹ کے مطابق ایک سال کے دوران چھوٹا گوشت 80 روپے اور بڑا گوشت 41 روپے فی کلو مہنگا ہوا، اس کے علاوہ انڈے کی فی درجن قیمت میں بھی 20 روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ملک میں ہر شخص مہنگائی میں اضافہ کی وجہ سے معاشی مسائل سے دو چار ہے۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک ہی جنس کا ریٹ آج اور ہوتا ہے اور کل اور ہوتا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں آتا جب اشیائے ضروریہ کی قیمت میں بے جا اور بے مقصد اضافہ نہ کیا گیا ہو۔ لوگ پریشان ہیں کہ بجلی کا شارٹ فال ہے اور نہ ہی کسی جگہ کوئی تکنیکی مسئلہ ہے۔ مگر پھر بھی لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ نان بائیوں نے روٹی اور نان کی قیمت میں ایک بار پھر اضافہ کا اعلان کر دیا ہے۔ حکومت پنجاب کے سستے آٹے کی فراہمی کے اعلان کے ساتھ ہی مارکیٹ سے آٹا نایاب ہو گیا ہے، 20 کلو کا تھیلا 1050 سے 1100 میں فروخت ہونے لگا ہے۔ جس کے باعث شہری مہنگے داموں آٹا خریدنے پر مجبور ہیں جبکہ فلور ملز ایسوسی ایشن نے الزام لگایا ہے کہ حکومت نے وعدے پاؤں تلے روند دیے ہیں۔ آٹے کی فراہمی اور قیمت بحران کو ایک ماہ سے زائد عرصہ ہونے کو ہے اور سستا آٹا نایاب ہونے کے باعث ہر جگہ مہنگا ہی دستیاب ہے۔ عیدالفطر سے قبل 20 کلو آٹے کا تھیلا 805 روپے میں مل رہا تھا جس کی قیمت 1035 روپے تک جا پہنچی ہے، بعض برانڈز کا آٹا 1100 روپے میں بھی فروخت ہو رہا ہے۔ پنجاب کابینہ نے 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 850 روپے مقرر کی جبکہ فلور ملز کو سرکاری گوداموں سے گندم 1475روپے فی من دینے کی بھی منظوری دی۔ نئی پالیسی کاغذوں میں تو تیار ہے، تاہم مارکیٹ میں آٹے کے مہنگے دام جوں کے توں برقرار ہیں۔ دکانداروں کا کہنا ہے کہ فلور ملز سے نئی قیمت پر آٹا نہیں آیا، سستا آٹا ملے گا تو سستا بیچ دیں گے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے نئی قیمت مقرر کی ہے تو مارکیٹ میں سستا آٹا فراہم بھی کرے۔ ایسے حالات میں عام آدمی سوچنے پر مجبور ہے کہ حکومتی رٹ کہاں ہے۔ شاید اس بات کا جواب کسی کے پاس نہیں، وزیر اعظم عمران خان کسی مسئلہ پر نوٹس لیتے ہیں تو مسئلہ پہلے سے بھی زیادہ گھمبیر صورتحال اختیار کر لیتا ہے۔ چینی سکینڈل سب کے سامنے ہے۔ وزیر اعظم جس چیز کے حوالے سے نوٹس لیتے ہیں تو اگلے دن وہ چیز مارکیٹ سے غائب ہو جاتی ہے۔ کیا ایسے حکومتیں چلتی ہیں؟ ملک بھر میں مسائل کی بھر مار دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے گڈ گورننس کا فقدان ہے۔ ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا سلسلہ جاری ہے۔ اگر ملک میں گڈ گورننس اور حکومتی رٹ برقرار ہوتی تو شاید آج ملک کی ایسی حالت نہ ہوتی۔ ہمارے حکمران شاید گڈ گورننس کا مطلب کچھ اور ہی سمجھ بیٹھے ہیں۔ شاید گڈ گورننس کا مطلب مقدمات کا اندراج، لوگوں کی گرفتاریاں، سرکاری افسران کی معطلیاں اور تبادلے سمجھ لیا گیا ہے۔ حالانکہ اس سارے عمل سے نہ تو عوام کو آسانی ملتی ہے اور نہ ہی نظام میں کسی بھی صورت بہتری آتی ہے۔ وہی ضلع کچہریوں کا فرسودہ نظام جس کے تحت مجسٹریٹ سے مہنگائی کنٹرول کرنے کا کام لیا جاتا ہے جو چھاپے مارتے ہیں، ریٹ لسٹ چیک کرتے ہیں اور پھر چند ہزار جرمانہ اور ایک آدھ ریڑھی والے یا چھوٹے موٹے دکاندار کی گرفتاری ڈال کر کارروائی کی رپورٹ بنا کر ڈی سی او کو بجھوا دیتے ہیں جو مطمئن ہو کر اس رپورٹ کو گڈ گوننس کی مہر لگوانے کے لیے آگے بھجوا دیتا ہے۔ انگریز بھی خوب کام کر گیا ہے، ہمیں جو بیوروکریسی ورثے میں عطا کر گیا ہے۔ ہماری بیوروکریسی کو دو کام خوب آتے ہیں۔ ایک دورہ اور دوسرا چھاپا۔ یہی وجہ ہے ہم گزشتہ 71 برس سے مہنگائی کے جن کو کسی بھی صورت قابو نہیں کر سکے۔ ملک میں حکومتیں تو بدلتی رہتی ہیں لیکن مہنگائی پر قابو پانے کا طریقہ کار کسی بھی صورت بدل نہ سکا جس کے باعث آج حالات یہ ہیں کہ ہر شہری پریشان ہے۔ ہر گلی مہنگائی مہنگائی کا شور ہے۔ آئے روز کی گرانی کے باعث لوگ اپنی آمدنیوں کا کثیر حصہ خوراک کی مد میں خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔ تبدیلی کے نام پر تحریک انصاف اقتدار میں آئی ہے لیکن اس تبدیلی نے لوگوں  کو بدحال کر کے رکھ دیا ہے اور ملک میں مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کو اب یہ بات مان لینی چاہیے کہ ان سے بہت سی غلطیاں اور کوہتائیاں ہوئی ہیں جن کی سزا بیچارے عوام اب مسائل کی چکی میں پس کر بھگت رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ماضی کی پالیسیاں ابھی تک چل رہی ہیں۔ دراصل جب تک پارلیمنٹ میں پرانے چہرے موجود رہیں گے تب تک عوام کو ریلیف فراہم کرنا ایک خواب ہی رہے گا۔ وزیر اعظم عمران خان عوام سے جو وعدے کر کے اقتدار میں آئے تھے وہ وعدے پورے کر کے عوامی اعتماد کو بحال کریں۔ اعتماد کی بحالی اشیائے ضروریہ کی دستیابی اور اس کے نرخوں میں کمی سے ہی ہو گی، اس لئے عمران خان اپنی ساری توانائیاں عوام کو ریلیف فراہم کرنے پر صرف کرتے ہوئے حکومتی رٹ کو بحال کریں۔ اس سے ہی خوشحالی آئے گی اور عام آدمی حکومتی اقدامات سے مطمئن ہو سکے گا۔ یہ وہ طریقہ ہے جس پر عمل کیا جائے تو یقیناً حالات میں تبدیلی آئے گی۔ عوام ایک عرصے سے حالات بدلنے کا انتظار کر رہے ہیں، اس لیے وزیر اعظم عمران خان عوام کو مایوس نہ کریں۔ یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کے دورِ اقتدار میں آنے کے بعد اس کے مالی اور اقتصادی پالیسیوں کے حوالے سے اُٹھائے گئے متعدد اقدامات کے نتیجے میں اس کی ابتداء کے آغاز میں ہی عوام اور سرکاری ملازمین کو جس طرح مہنگائی کے جھٹکے لگنا شروع ہوئے ماضی کی اس میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی۔ اسی طرح معاشرے کو وزیراعظم عمران خان بار بار ریاست مدینہ کی طرز پر حکومت بنانے کا اظہار کرتے ہیں، وہ حکومتی پالیسیوں اور اقدامات کے نتیجے میں اپنے اچھے مستقبل سے مایوس ہونے والی قوم کے اضطراب کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔ بے شک وزیر اعظم اور اُن کی کابینہ کے ارکان اچھے حالات کیلئے عوام کو اور سرکاری ملازمین کو صبر کرنے کی تلقین کرتے بھی نظر آتے ہیں لیکن دوسری طرف حکومتی ارکان اور اپوزیشن ارکان اپنی تنخواہیں تو سو فیصد بڑھا لیتے ہیں جبکہ سرکاری ملازمین کو تاریخ میں پہلی مرتبہ تنخواہوں میں اضافے سے یکسر محروم کردیتے ہیں۔ دن بدن ملازمین اور عوام مہنگائی کے ہاتھوں پریشانی میں مبتلا ہیں اور ایسے محسوس ہوتا ہے کہ عوام اور ملازمین کی خاموشی کسی طوفان کی پیشِ خیمہ ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ مہنگائی کا سونامی سب کچھ بہا کر لے جائے گا اور حکومتی اقدامات کی وجہ سے اُن کے وزراء بھی اپنی حکومت کا دفاع نہیں کرپارہے۔ آئی ایم ایف نے حکومت کو بالکل جکڑ لیا ہے، حکومت کو آئی ایم ایف سے چھٹکارا پانے کیلئے کوشش کرنی ہوگی۔ یہ حقیقت ہے کہ حکومت نے عوام اور ملازمین پر مسلسل بوجھ ڈالنے والی پالیسیوں سے کنارہ کشی نہ کی، انہیں ریلیف دینے کیلئے اقدامات نہ اُٹھائے تو حکومت کیلئے بہت آزمائشیں سامنے آجائیں گی۔

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے