تحریر: شیخ محمد انور ریلویز
جنت نظیر وادی کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔
خانہ سوزی، عقوبت خانوں کے تشدد، خواتین سے دست درازی، چھاپوں اور گرفتاریوں کے ذریعے کشمیریوں کی نسل کشی کی مہم شروع کی گئی۔ روزانہ خواتین کی عصمتیں تار تار کی جاتی ہیں، ماؤں اور بہنوں سے ان کے سہاگ چھینے جاتے ہیں، لاکھوں بچے یتیم ہورہے ہیں۔
بھارتی افواج کے مظالم میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے جس کے تحت نہ صرف مرد، خواتین اور بچوں کو شہید کیاجارہا ہے بلکہ خواتین کی عصمتیں لوٹی جارہی ہیں۔ کشمیر کی عوام پر لوہے اور ربڑ کی وہ گولیاں برسائی جارہی ہیں جن کے نتیجے میں لاتعداد افراد بلاناغہ معذور ہورہے ہیں۔
کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا جاتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے جب 1947ء میں پاکستان حاصل کیا تو معاہدے کے مطابق کشمیر پاکستان کی سرحد میں طے پایا لیکن ہندوؤں کی سرکار اور عوام سے یہ بات قابلِ برداشت نہ ہوئی اور اُسی دن سے آج تک کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا جوکہ آج آزاد یعنی مقبوضہ کشمیر اور دوسرا جموں کشمیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انسانیت کی بے حرمتی، بے جا ظلم و ستم، قانونی حقائق کی خلاف ورزی اور زیادتیاں آج بھی بھارتی فوج کی طرف سے جموں کشمیر میں جاری ہیں۔ آج بھی ہمارے کشمیری بہن بھائی غلامی کی چکی میں پِس رہے ہیں۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں اس بات کا چرچا عام ہے کہ ہم ایک آزاد ریاست کے شہری ہیں۔ ہر ایک کی زبان اسی بات کا ڈنکا کرتی سنائی دیتی ہے۔ لیکن کیا ایسا ہے؟ شاید آپ کا جواب ”ہاں“ ہو لیکن اگر میرے یہی الفاظ کسی کشمیری بہن بھائی سے ہو تو اُس کا جواب یقینا ”نہیں“ ہوگا۔ پاکستان کو آزاد ہوئے 76 سال گزر گئے ہیں اور ہر پاکستانی اپنے آپ کو پاکستانی کہتے ہوئے بڑا فخر محسوس کرتا ہے لیکن آج بھی کشمیری عوام محمد بن قاسم، سلطان محمود غزنوی اور شہاب الدین محمد غوری جیسے لیڈروں کا انتظار کررہی ہے کہ جو آئیں اور اُن کو آزاد کروائیں۔ آج کے اس ترقی یافتہ اور امن کے دور میں جب بھی کوئی کشمیری مسلمان ناجائز نقطہ اجل کا شکار ہوتا ہے تو کیوں کوئی بااثر دھمکی آمیز آواز نہیں اُٹھائی جاتی ماسوائے کشمیریوں کے پختہ ارادوں اور جذبوں کے۔ کشمیر کی سرحد پر انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی جاتی ہے جس سے یہ ثابت کرایا جاتا ہے کہ پاکستان کی عوام اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر کی آزادی کیلئے کئی جنگیں بھی لڑی گئیں اور پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کو لے کر کئی معاہدے بھی طے پائے لیکن بھارت کی چالاکیاں اور بے ایمانیاں ہمیشہ کشمیری مسلمانوں کے حقوق کو دباتی رہی ہیں۔ کشمیری اپنی زندگی کو آزادی سے گزارنے پر بھی محتاج ہیں اور ہر وقت کسی مسیحا کے منتظر رہتے ہیں۔ بھارتی فوج نے کشمیر میں کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردی ہے اور لاکھوں کشمیری مسلمان آزادی کی خاطر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کئی ماؤں کے بیٹے اور کئی بہنوں کے بھائی ایک دوسرے سے جُدا ہوگئے۔ کشمیر کی آزادی کیلئے کشمیریوں نے اپنے خون کے نذرانے بھی پیش کردئیے لیکن آج بھی کشمیریوں کی نظر کسی ایسے مسیحا کو ڈھونڈتی نظر آرہی ہے کہ جو آئے اور ان کو غلامی کے اندھیروں سے نکال کر آزادی کی روشنیوں میں لے آئے۔
مسئلہ کشمیر درحقیقت تقسیم ہند کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ جس طرح شمالی ہند میں پاکستان مسلم اکثریت کی بنیاد پر وجود میں آیا، اسی اصول کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو 1947ء میں پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا لیکن ہندوؤں اور انگریزوں کی سازشوں کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر کی پاکستان میں شمولیت میں رکاوٹ ڈالی اور جموں و کشمیر کو سازش کے ذریعے بھارت سے الحاق کیا گیا۔ 1947ء میں مہاراجہ کشمیر اور بھارتی حکمرانوں نے ناپاک گٹھ جوڑ کرلیا اور بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کرکے اس کے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا۔ تاہم کشمیریوں کی بھرپور جدوجہد کے نتیجے میں جب کشمیر آزاد ہونے کے قریب تھا تو بھارت نے اقوامِ متحدہ میں کشمیر کا مسئلہ اٹھایا۔ اقوام متحدہ نے تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے دو قراردادیں منظور کیں جن میں نہ صرف کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کیاگیا بلکہ یہ طے ہوا کہ کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے رائے شماری کا موقع فراہم کیا جائے گا مگر ہمیشہ سے اس مظلوم قوم کو اس حق سے محروم رکھا گیاہے۔ خانہ سوزی، عقوبت خانوں کے تشدد، خواتین سے دست درازی، چھاپوں اور گرفتاریوں کے ذریعے کشمیریوں کی نسل کشی کی مہم شروع کی گئی۔ روزانہ خواتین کی عصمتیں تار تار کی جاتی ہیں، ماؤں اور بہنوں سے ان کے سہاگ چھینے جاتے ہیں، لاکھوں بچے یتیم ہورہے ہیں۔ بھارتی افواج کے مظالم میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے جس کے تحت نہ صرف مرد، خواتین اور بچوں کو شہید کیاجارہا ہے بلکہ خواتین کی عصمتیں لوٹی جارہی ہیں۔ کشمیر کی عوام پر لوہے اور ربڑ کی وہ گولیاں برسائی جارہی ہیں جن کے نتیجے میں لاتعداد افراد بلاناغہ معذور ہورہے ہیں۔ ایسے مشکل حالات میں پاکستان کی عوام کشمیریوں کی آواز بنی اور انہوں نے اپنے کشمیری بھائیوں کو تنہا چھوڑنے کی بجائے ان کی حمایت کا نعرہ بلند کیا اور اس نعرے کو ”یوم یکجہتی کشمیر“ کہاجاتا ہے۔ لیکن محض اعلانات اور وعدے کافی نہیں بلکہ ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔
یہ درست ہے کہ یوم یکجہتی منانے سے کشمیریوں کی آواز عالمی برادری تک پہنچتی ہے اور اس سے مسئلہ کشمیر کے بین الاقوامی سطح پر اُجاگر ہونے میں مدد ملتی ہے لیکن کیا ہم پاکستانیوں اور حکمرانوں کی طرف سے صرف اتنا کر دینے سے ہی کشمیر کے مسئلے کو کوئی تقویت مل سکتی ہے اور کیا آزادی کی منزل قریب آسکتی ہے؟ آخر کب تک ہم صرف یومِ یکجہتی مناتے رہیں گے؟ کیا ہمیں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ٹھوس اقدامات نہیں اُٹھانے چاہییں؟ حالانکہ پاکستان کے پاس دنیا کی بہترین فوج اور ایٹمی طاقت موجود ہے۔ اب تو پاک فوج پوری قوت اور طاقت سے بھارت کو منہ توڑ جواب دے سکتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سیاستدان خود تو کچھ کرتے نہیں اور پاک فوج کے ہاتھ بھی باندھ رکھے ہیں۔ پاکستانی افواج پر بھروسہ کریں اور انہیں مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کا کہیں، اگر مسئلہ کشمیر مذاکرات سے حل ہو تو ٹھیک ہے ورنہ چھین لیں گے ہمارے بہادر فوجی جوان۔ کیونکہ مسلمان کبھی بھی شہید ہونے سے نہیں ڈرتا۔ مسئلہ کشمیر سیاستدانوں کے ہاتھ سے لے کر سوچیں پھر ہی اس کا کوئی حل ممکن ہے ورنہ قیامت تک سیاستدان اپنی کرسی بچانے اور تجارت و کاروبار کے چکر میں کشمیریوں پر ظلم و ستم ہونے دیں گے اور بیان بازیوں سے عام عوام کو بیوقوف بناتے رہیں گے۔
مسئلہ کشمیر کروڑوں انسانوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ یہ پاکستان کی آزادی، سلامتی اور استحکام کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کو نظرانداز کرنا پاکستان کے وجود سے دستبردار ہونے کے مترادف ہے۔ اس وجہ سے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہاجاتاہے اور شہ رگ کٹ جانے سے باقی وجود بھی ختم ہوجاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کو چاہیے کہ کشمیر میں رائے شماری کروائے تاکہ مظلوم کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ ہوسکے اور برصغیر میں امن و امان اور خوشحالی بحال ہو۔ اب تک مقبوضہ کشمیر کو عالمی متنازع علاقہ تسلیم کرتے ہوئے کل 18 قرار دادیں منظور کی جاچکی ہیں جن میں بھارت کو مقبوضہ کشمیر سے اپنی فوجیں نکالنے اور سلامتی کونسل و بھارت کے وعدے کے مطابق ریفرینڈم کروانے کا کہا جا چکا ہے تاکہ کشمیری رائے شماری کے ذریعے اپنی آزادی کا انتخاب کرسکیں مگر ہر بار بھارت انکاری رہا مگر افسوس کہ سلامتی کونسل و عالمی برادری اب تک کچھ نہیں کرپائیں۔
مسئلہ کشمیر دنیا کا ایک اہم مسئلہ ہے اور دنیا کیلئے نہایت شرم کا مقام ہے کہ ان مظالم پر اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کے ادارے بھی خاموش ہیں اور خاموش تماشائی بن کر اس ظلم و بربریت کو دیکھ رہے ہیں۔ اس مسئلے کے حل نہ ہونے کی وجہ سے پورے خطے کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا امن خطرے میں ہے۔ جب تک یہ بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوتا پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات معمول پر نہیں آسکتے اور نہ ہی مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔
میرے اس آرٹیکل کا مقصد یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر حکومتی اداروں اور اعلیٰ افسروں سے اپیل ہے کہ کوئی پختہ اقدام کیا جائے اور کشمیر کی آزادی کیلئے کوشش کی جائے۔ اس معاملے میں عام عوام کو بھی کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کی ضرورت ہے تاکہ جب وہاں کشمیر میں کوئی مسلمان شہید ہو تو اس کے عزیزوں اور رشتہ داروں کو یہ احساس رہے کہ ہمارے ہمدرد مسلمان بھائی اور بہنیں ہیں جو ہمارے دُکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ کشمیریوں نے اپنی قربانیوں سے مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ بھارت کا کوئی ظلم و جبر اِن کے جذبئہ مزاحمت کو ختم نہیں کرسکا۔ وہ جدوجہد آزادی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستانی قوم نے بھی اپنے کشمیری بھائیوں کی پشت بانی میں کبھی کمی نہیں آنے دی۔ اپنے دلی جذبات کے اظہار کیلئے ہر سال 5 فروری کو گلی کوچوں میں سڑکوں، چوراہوں پر کشمیریوں کی جدوجہد آزادی سے یکجہتی کا اظہار کرتی ہے۔ حکومت کو بزدلی اور خوف کی کیفیت سے باہر نکل کر مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے قومی او ر اُصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل اور کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم اور اس کے مکروہ چہرے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کیلئے اقدام اُٹھانے چاہییں۔ اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ ظلم جتنا بڑھتا چلا جائے آزادی کی منزل اتنی ہی قریب آتی چلی جاتی ہے اور وہ دن دور نہیں جب کشمیری ہی نہیں بھارت کے دوسرے علاقوں کے مظلوم بھی ظلم سے نجات پائیں گے۔ اور آزادی کی نعمت سے سرفراز ہوں گے۔ انشاء اللہ العزیز۔