تحریر: شیخ محمد انور 2020
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
6 ستمبر 1965ء پاکستانی قوم نے اس دن ایثار و قربانی اور جانبازی و سرفروشی کی اعلیٰ روایات قائم کیں۔
6 ستمبر 1965ء عظیم قوم کا عظیم معرکہ دفاع
نوجوان محاذِ جنگ پر جانے کیلئے بے تاب تھے۔
6 ستمبر1965ء کا سورج جب طلوع ہوا تو لاہور کے مکینوں کو ایک عجیب صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمارے ہمسایہ ملک ہندوستان کی فوجیں بین الاقوامی سرحد پار کرکے لاہور کی جانب پیش قدمی کررہی تھیں۔ ریڈیو پاکستان پر سابق صدر محمد ایوب خان مرحوم کی پروقار آواز گونجی، ”بھارتی حکمران نہیں جانتے کہ اُنہوں نے کس قوم کو للکارا ہے“۔ صدر ایوب نے اعلان کر دیا کہ پاکستان کے دس کروڑ عوام کیلئے آزمائش کا وقت آن پہنچا ہے۔ دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے سب سے پہلے لاہور کے بہادر عوام کو منتخب کیا گیا ہے۔ وہ تاریخ میں ان عوام کی حیثیت سے زندہ رہیں گے جنہوں نے دشمن کو تباہ کرنے کیلئے آخری ضرب لگائی۔ پاکستان کے دس کروڑ عوام جن کے دلوں کی دھڑکنوں میں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی صدا گونج رہی ہے۔ دشمن کی توپوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ان نوجوانوں کے ہاتھوں میں ڈنڈے، ہاکیاں، بیلچے، چاقو، چھریاں، کلہاڑیاں اور حملہ اور دفاع کے اس قسم کے اسلحہ سے مسلح تھے۔ یہ نوجوان اعلان سنتے ہی تانگوں اور رہڑوں پر چل پڑے۔ کچھ نوجوانوں نے کار اور ٹرک والوں کو بھی روکا تھا۔ ان نوجوانوں کا مطالبہ تھا کہ تانگوں، رہڑوں، کاروں اور ٹرکوں والے انہیں محاذ جنگ پر پہنچائیں۔ سب کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا، ”چلو واہگہ چلو“۔ یہ سب عوام محاذ جنگ پر جانے کیلئے بے تاب تھے۔ یہ نوجوان جو وطن کے دفاع کے لئے ناقابل تسخیر جذبہ سے سرشار تھے اور جذبہ ایمانی اور شہادت کی آرزو لے کر واہگہ بارڈر کی طرف روانہ ہوگئے۔ باٹاپور اور شالامار کے مقام پر عوام کو روک دیا گیا لیکن اس کے باوجود نوجوانوں نے ہار نہ مانی اور واپس آکر اپنی فوج کیلئے بہترین کھانے اور پانی کا انتظام کرکے واہگہ بارڈر کی طرف دوبارہ چلے گئے۔ فوجی حکام نے بتایا کہ ان کے جذبہ دفاع وطن کا شکریہ لیکن ان کی خدمات کی ضرورت نہیں کیونکہ پاک فوج کے جیالوں نے واہگہ کے محاذ پر دشمن کو بُری طرح پسپا کردیا ہے اور بی آربی نہر کی دوسری سمت سے دشمن کی پیش قدمی بھی روک دی گئی ہے۔ بھارتی فوج کی مدد توپ خانہ اور فضائیہ کے لڑاکا طیارے کررہے تھے اور بھارتی طیاروں نے باٹاپور اور جلو کے قریب کے شہری علاقوں پر بھی بمباری کی۔ تاہم شام تک بھارت کی طرف سے محاذ جنگ پر موت کی سی خاموشی طاری تھی اور دشمن پر پاکستانی فوج کا دباؤ بہت بڑھ رہا تھا۔ 6 ستمبر کا دن پاکستان کی تاریخ میں ایک عظیم دن کی حیثیت سے ہمیشہ یادگار رہے گا۔ اگرچہ بھارتی حکمرانوں نے ستمبر 1965ء کی جنگ میں لاہور کی بین الاقوامی سرحد اعلانِ جنگ کے بغیر بزدلانہ طور پر عبور کرکے اپنی پانچ گنازیادہ طاقتور مسلح افواج اور غیر معمولی مقدار و تعداد میں جنگی سامان، اسلحہ، برّی و بحری اور فضائی ہر قوم کی قوت بروئے کار لاکر اپنے فوجی پنڈتوں اور دوسرے اعلیٰ افسران کی یقین دہانی پر سمجھ لیا تھا کہ لاہور پر قبضہ کرنا صرف چند گھنٹوں کی بات ہے چنانچہ اپنی نصف سے زیادہ فوجی و برّی اور فضائی طاقت چوروں کی طرح رات کے اندھیرے میں چھپ کر لاہور واہگہ سرحد کو پار کرکے آگے بڑھنے کے نشے میں بھارتی کمانڈر انچیف نے اعلان بھی کردیا اور بھارتی پارلیمان میں ”لاہور پر بھارتی ترنگا لہرا دیا گیا“ کے نعرے بھی لگوا کر مٹھائیاں تقسیم کروادی گئیں، لیکن کچھ ہی دیر بعد پاکستان پر بھارتی قبضے یا لاہور کی سرحد سے چند قدم آگے بڑھنا بھی بھارتی سورماؤں کیلئے ”خواب شیریں“ کے بجائے ”خواب قابوس“ ثابت ہوا۔ تب مہاراج نے اعلان کردیا کہ ہمارا مقصد لاہور یاپاکستان کے کسی علاقے پر قبضہ کرنا نہ تھا بلکہ محض پاکستان کی ”رسوائی“مقصود تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ لاہور کی سرحد ہی پر پاک فوج کے محض بے قاعدہ مختصر دستوں اور رینجرز کے جیالے شیردل جوانوں نے بھارتی فوج کی بھاری ڈویژن کو ایک قدم آگے نہ بڑھنے دیا اور پاک فوج کے مجاہد ایک ایک کرکے شہید ہوئے اور پھر راجپوت رجمنٹ نے بھارتی افواج کا ٹڈی دل اپنی محدود طاقت کے باوجود تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ دشمن کو پیش قدمی کی بجائے منہ کی کھا کر پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونا پڑا۔ سترہ روز تک لڑی جانے والی پاک بھارت جنگ جو حقیقی معنوں میں ایک عظیم معرکہئ حق و باطل تھا، پاکستان کی محدود برّی، بحری اور فضائی افواج اور ان کے دلیروجرأت مند مجاہدین، افسروں اور جوانوں کی غیرمعمولی اور مثالی فوجی حکمت عملی اور جرأت و شجاعت کا امتحان ہونے کے ساتھ پوری قوم کی آزمائش کا موقع تھا۔ اس آزمائش کے دوران دنیا بھر کے ممالک اور خود حملہ آور ملک سے تائیدایزدی کی بدولت پاکستان کے تشخص اور پاکستان کی دلیری اور استقامت کا لوہا منوایا گیا۔ اس جنگ کے مختلف محاذوں کی مفصل کیفیات گزشتہ کئی سالوں سے مختلف پیرایوں میں بیان کی جاچکی ہیں۔ میرا مقصد ان میں سے کسی تفصیل کو محض قارئین کی یاددہانی کیلئے دہرانا نہیں ہے بلکہ اختصار کے ساتھ سیالکوٹ کی جنگ کا تذکرہ مقصود ہے جہاں چونڈا کے محاذ پر بھارت نے اپنی بھاری پہاڑی ڈویژن کے ساتھ ٹینکوں کی ساری کی ساری قوت جنگ میں جھونک دی اور دنیا کی سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ چونڈہ کے محاذ پر لڑی۔ بھارت کی بزدل فوج غرور اور طاقت کے نشے میں بدمست تھی اور اُن کا خیال تھا کہ ان ٹینکوں کی مدد سے ہم سیالکوٹ کو تہس نہس کردیں گے لیکن اُنہیں یہ اندازہ نہ تھا کہ ان کا مقابلہ اُس قوم اور فوج کے ساتھ ہے شہادت جن کی آرزو ہے اور پھر ایسا ہی ہوا کہ پاک فوج کے جوان اپنے جسم پر بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے اور پلک جھپکتے ہی اُن کے ٹینک فضا میں بکھرے پڑے تھے۔ بھارتی حکمرانوں اور ان کے فوجی پنڈتوں نے ٹینکوں کے ذریعے حملے کا یہ آخری حربہ اس وقت استعمال کیا جب مختصر مدت میں مختلف محاذوں پر بھارتی افواج کو پے درپے شکست کا سامنا ہورہا تھا اور ان کی فضائی طاقت بھی کچلی جارہی تھی۔ گویا یہ طرز عمل فوراً کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق کیا گیا۔ چونڈہ محاذ کے بارے میں غیر ملکی جنگی نامہ نگاروں اور مبصروں کی غیر جانبدارانہ رائے تھی کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ تھی جہاں پاک فوج کے دلیروں کے ہاتھوں بھارتی ٹینکوں کا قبرستان نظر آتا ہے۔ لندن ڈیلی میل کا نمائندہ الفریڈکک اور مرر کا برائن ہچن دونوں جنگ بندی کے چند گھنٹے بعد چونڈہ کے علاقے میں گئے، ان دونوں نے وہاں کی کیفیت دیکھ کر اپنے اپنے اخبارات کو جو رپورٹ روانہ کی اس کا خلاصہ ہے۔ انڈیا اگر اپنے ٹینکوں کی بھاری تعداد کو کسی منصوبہ بندی کے تحت استعمال کرتا تو یقینا اسے اپنے مقاصد میں کامیابی ہوسکتی تھی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنی طاقت کے غرور میں ٹینکوں پر ٹینک اس بُری طرح جھونک دیے کہ جیسے اس بارہ میل وسیع محاذ کو روندڈالے گا لیکن نتیجہ قطعاً اس کے برعکس برآمد ہوا۔ پاکستان نے اس بھاری حملے کا ایسا منہ توڑ جواب دیا کہ اُلٹے لینے کے دینے پڑگئے۔ انڈیا کی حکومت شاید یہ تسلیم نہ کرے کہ سیالکوٹ کے محاذ پر اسے منہ کی کھانا پڑی۔ حقیقت یہ نظر آتی ہے کہ انڈیا کی بہترین مسلح ڈویژن شکستہ ٹینکوں کی بھاری تعداد اور سینکڑوں لاشوں کے ڈھیر سے محروم ہو کر اپنے حکمرانوں کیلئے باعث مزامت و عبرت ہے۔ پاکستان کی جانب سے اگر ہندوستانی ٹینکوں کے چیتھڑے اُڑانے کا دعویٰ کیا جائے تو بلا شک و شبہ درست ہے کیونکہ واقعی پاکستانی فوج نے حیرت انگیز حکمت عملی اور دلیری سے ہندوستانی آرمرڈ ڈویژن کو بری طرح کچل کر رکھ دیا تھا۔ ایک امریکی نگار کا بیان تھا کہ: ”درحقیقت چونڈہ ہندوستانی ٹینکوں کا قبرستان نظر آتا ہے اور یہ حال دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ اگرچہ تعداد اور طاقت کے لحاظ سے ہندوستان پاکستان کی فوجوں اور جنگی سازوسامان میں کئی گنا زیادہ طاقتور ہے۔ خاص طور پر سیالکوٹ کے محاذ پر ہندوستانی ٹینکوں کی کثیر تعداد کو 2 ڈویژن انفنٹری اور پہاڑی افواج کی مدد حاصل تھی جس کے باعث شکرگڑھ اور پسرور کے تمام علاقوں میں دائیں بائیں اور گردوپیش ہر طرف سے گھیرا ڈالتے ہوئے دشمن کے حلقے میں پاکستانی افواج کی محدود تعداد اور اسلحہ اور ٹینک بظاہر بے بس ہوجانے چاہیے تھے لیکن اس کے برعکس ہندوستانی کمانڈر انچیف اپنی بھاری نفری اور جنگی سامان کی تباہی پر بے بس اور سرنگوں نظر آئے۔ سچ تو یہ ہے کہ تعداد اور طاقت کے مقابلے میں حقیقی جذبے اور ولولے کی کارفرمائی اور کامرانی میں پاکستان کو ہر طرح برتری حاصل ہے۔اللہ ربُ العزت نے ہماری فوج اور عوام کو سرخروح کیا اور دشمن کو منہ کی کھانا پڑی۔ الحمدللہ ہمیں اپنی فوج پر فخر ہے اور اگر دوبارہ کبھی انڈیا نے حملہ کرنے کی غلطی کی تو پاکستانی فوج سے پہلے پاکستانی عوام انشاء اللہ بارڈر پر نظر آئے گی اور پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑے گی۔