9 نومبر 2022 اقبال ڈے کے حوالے سے لکھے گئے آرٹیکل

تحریر: شیخ محمد انور(مرکزی صدر پاکستان ریلوے پریم یونین سی بی اے) 2022؁ء
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
قلندرِ لاہوری، درویش لاہوری، رسول اللہﷺ کے عاشق و صادق، شاعر مشرق، مفکر پاکستان، حکیم الامت
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
کاش پاکستان کے حکمران اور عوام اب بھی قیامِ پاکستان کے فلسفے کو سمجھ لیں۔ بے شک ہم نے بہت دیر کر دی ہے، بے شک ہم نے کشمیر اور مشرقی پاکستان کو کھو دیا ہے لیکن پھر بھی اگر صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو اُسے بھولا نہیں کہتے۔
انسانی تاریخ میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جنہوں نے اپنے شاندار کاموں سے انسانیت کی خدمت کی۔ جب بھی ہم عظیم شخصیات کی بات کرتے ہیں تو مختلف نام ہمارے ذہن میں آتے ہیں جن میں سے ایک نام علامہ اقبال بھی ہے۔ علامہ اقبال نہ صرف ہمارے قومی شاعر ہیں بلکہ ایک ایسی باصلاحیت شخصیت بھی ہیں جس میں بے مثال خصوصیات ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں پیدا ہونے والی عظیم ہستیوں میں ایک نام ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کا بھی ہے جنہیں اہلِ پاک و ہند مفکر پاکستان اور شاعر مشرق کے نام سے جانتے ہیں اور جس جگہ بھی اسلام اور مذہب کا ذکر ہو ان کی شاعری کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ یوں تو علامہ اقبالؒ نے دنیا بھر کے انسانوں کو مخاطب کرکے شعر کہے ہیں لیکن ان کی امیدیں، آرزوئیں اور امنگیں زیادہ تر مسلمان نوجوانوں سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے مسلم نوجوانوں میں احساسِ خودی کو بیدار کرنے کا ذمہ اٹھایا ہے اور نوجوانوں کو اپنے ماضی میں جھانکنے کی دعوت دی ہے۔ علامہ اقبال پختہ کردار اور سیرت پر بڑا زور دیتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ مسلمان جب تک پختہ کردار اور سیرت کے مالک نہیں بنیں گے زندگی بسر نہیں کرسکتے۔ شاعر اور ادیب کسی بھی قوم کیلئے آکسیجن کی طرح ہوتے ہیں جو اپنے لفظوں کے ذریعے نہ صرف اپنی قوم کی زندگی کی طرف مائل رکھتے ہیں بلکہ ان کے اندر موجودہ کمزوریوں کی نشاندہی کرکے اسے سنوارنے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔ اشعار سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے بشرطیکہ شعر کے مطابق انسان کی منزل اور خیالات یکساں ہوں۔ ہماری قوم خوش قسمت ہے کہ اللہ ربُ العزت نے ہمیں علامہ اقبال جیسا شاعر عطا کیا۔ علامہ اقبال نے نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں بلکہ تمام اہلِ اسلام کو اپنی پُرجوش اور جاں سوز شاعری کے ذریعے متاثر کیا۔ فارسی اور اُردو زبان میں لکھی گئی ان کی نظموں نے مسلمانوں کو ان کا کھویا ہوا مقام یاد دلانے کے ساتھ ساتھ ان کو اپنی شناخت اور آزادی کیلئے آواز اُٹھانے کا شعور دیا۔ اس لیے علامہ اقبال کو شاعرِ مشرق بھی کہا جاتا ہے۔ ایران میں تو انہیں اقبال آف لاہور کے نام سے جانا جاتا ہے۔ علامہ اقبال صرف ایک شاعر ہی نہیں بلکہ ایک عظیم سیاستدان بھی تھے۔ علامہ اقبال کے نظریات صرف ان کی شاعری میں ہی نہیں بلکہ ان کی سیاسی زندگی میں بھی نمایاں رہے۔ اس لیے علامہ اقبال کی سوچ اور فکر نے مسلمانوں کی آزادی کی تحریک میں نئی روح پھونک دی۔ علامہ اقبال کا فلسفہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مشعلِ راہ بن گیا۔ مسلمانوں کے لیے دیکھا جانے والا ان کا علیحدہ وطن کا خواب مسلمانوں کیلئے ایک ایسی طاقت بن کر ابھرا کہ جس کے سامنے کوئی طاقت پُل نہ باندھ سکی یہاں تک کہ وہ پاکستان کی شکل میں شرمندۂ تعبیر ہوگیا۔ ایک بکھری ہوئی اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی مایوس قوم کو اپنے اشعار کے ذریعے اکٹھا کرنا، ایک نئی اُمید دلانا اور ان کیلئے ایک نئی منزل کا تعین کرنا ایسا کارنامہ ہے جو علامہ اقبال کو پاکستان کے قومی شاعر کے رتبے پر فائز کرتا ہے۔ علامہ اقبال صرف خالقِ پاکستان ہی نہ تھے بلکہ وہ ایک سچے عاشقِ رسول بھی تھے اور ان کو متعدد بار نبی اکرمﷺ کی زیارت بھی ہوئی۔ یہ بھی سچ ہے کہ انہوں نے کبھی بے وضو نبی اکرمﷺ کا نام نہیں لیا تھا۔ غازی علم الدین شہیدؒ کے جنازے میں بھی شامل ہوئے اور انگریز حکومت کو اپنی ضمانت دے کر غازی علم الدین شہیدؒ کی وصیت بھی پوری کی۔ اُن کی وصیت کے مطابق اُن کو لاہور میں میانی صاحب قبرستان میں دفن کروایا۔ لیکن بدقسمتی کہ آہستہ آہستہ علامہ اقبال اور اُن کے تصورات کو ہمارے نصاب ہماری زندگی سے دور کیا جارہا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے طے شدہ اس دن کی سرکاری چھٹی بھی منسوخ کردی گئی جو کہ ایک غلط فیصلہ ہے۔ دیکھا جائے تو ایسی چھٹی صرف چھٹی نہیں ہوتی بلکہ تعلیمی اداروں کے علاوہ تمام ترسرکاری ادارے اس روز اپنے محسنوں کے کارنامے اور تاریخی حقائق کو یاد کرتے ہیں اور نئی نسل کے سامنے لاتے ہیں۔ لیکن ہم نے علامہ اقبال کے نظریات کو بھلا کر اُن کو ایک دن 9نومبر کی حد تک محدود کردیا ہے جوکہ لمحہ فکریہ ہے کیونکہ جب کوئی قوم اپنے محسنوں کو بھلا دیتی ہے تو ذلت اور رسوائی اُن کا مقدر بن جاتی ہے۔ ساری دُنیا جانتی ہے کہ یہ صرف اور صرف مفکر پاکستان علامہ اقبال جیسی ہستی ہی تھی جن کا ظہور متحدہ ہندوستان میں صدیوں سے مسلمانوں کی نسل در نسل غلامی سے آزادی کا سبب بنا اور جس کی برکت سے آج ہمارا وطن عزیز دنیا کے نقشے پر ایک آزاد خودمختار مملکت کی حیثیت سے نہ صرف موجود ہے بلکہ قائم و دائم ہے اور ان شاء اللہ تاقیامت قائم و دائم رہے گا۔ اگر دیکھا جائے تو ہمیں آج بھی علامہ اقبال جیسے رہنما کی ضرورت ہے بلکہ تمام عالم اسلام کو ان کی ضرورت ہے کیونکہ وہ صرف ہمارا ہی نہیں انیسویں صدی کے ابتدائی تین عشروں سے لمحہ موجود تک مسلمانانِ عالم کا شاعر ہے۔ آج ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ اُن کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر اقبال کے آباؤاجداد کشمیر سے آکر سیالکوٹ (محلہ کھیتیاں)میں آباد ہوگئے تھے جو سپرگوت کے برہمن آج سے ڈھائی سو سال پہلے مسلمان ہوگئے تھے۔ ڈاکٹر محمد اقبال اسی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ ڈاکٹر اقبال کے والد شیخ نور محمد بڑے نیک اور اللہ والے بزرگ تھے۔ سیالکوٹ میں ان کا چھوٹا سا کاروبار تھا، وہ سارے شہر میں نیکی اور پرہیزگاری کی وجہ سے ہردلعزیز تھے۔ ان کے دو بیٹے تھے، عطا محمد اور محمد اقبال، یہی اقبال ہیں جو آگے چل کر ایشیا کے سب سے بڑے شاعر مانے گئے۔ اقبال کے افکار و نظریات کی پختگی میں اسلامی تعلیمات کا بہت اہم رول رہا ہے۔ بچپن سے ہی اقبال کو جو دینی ماحول ملا اس کا اثر تاحیات ان پر رہا۔ جن مغربی فلسفیوں کے اثرات اقبال نے قبول کیے ان کو بھی آپ نے اپنے شرائط کے ساتھ قبول کیا اور دین و مذہب سے کچھ سمجھوتا نہیں کیا۔ وہ فلسفہ کو مضر نہیں سمجھتے تھے لیکن اس میں بھی ایک خاص حد سے آگے نہیں نکلتے تھے۔ اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا، ان کی کئی کتابوں کے انگریزی، جرمنی، فرانسیسی، چینی، جاپانی اور دوسری زبانوں میں ترجمے ہوچکے ہیں۔
علامہ اقبال 9نومبر1877؁ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تو برصغیر کے مسلمان انگریزوں کی غلامی میں زندگی گزار رہے تھے اور ہندوؤں کی ریشہ دوانیوں کا بھی شکار تھے۔ علامہ اقبال نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ سے حاصل کی پھر گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور ایم اے کی ڈگری لی۔ اس کالج میں آرنلڈ نامی ایک لائق اور ہمدرد پروفیسر تھے جو اقبال سے بڑی محبت اور شفقت سے پیش آیاکرتے تھے۔ لاہور میں مشاعرے بھی ہوتے تھے جن میں اس زمانے کے مشہور شعراء اپنا کلام سناتے تھے۔ اقبال بھی ان محفلوں میں جانے اور اپنا کلام سنانے لگے۔ اقبال نے اپنی شاعری کا آغاز غزل سے کیا تھا لیکن اقبال کی نظموں کی تعداد غزلوں سے زیادہ ہے۔ اقبال نے سب سے پہلے ارشد گرگانوی اور اس کے بعد نواز مرزا داغ سے اصلاح لی تھی۔ بانگ درا اقبال کا پہلا اردو شعری مجموعہ ہے اوربال جبریل دوسرا شعری مجموعہ ہے جو کہ بہت مشہور ہیں۔
1905؁ء میں اقبال یورپ روانہ ہوگئے۔ انگلستان پہنچ کر کیمرج یونیورسٹی میں داخل ہوگئے اور فلسفہ کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ کیمرج میں فلسفہ کا امتحان پاس کرکے آپ نے ایران کے فلسفہ کے متعلق ایک کتاب لکھی جس پر جرمنی کی یونیورسٹی نے آپ کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دی۔ جرمنی سے واپس آکر آپ نے لندن میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ اقبال نے یورپ پہنچ کر ایک ایسی دنیا دیکھی جو ان کیلئے بالکل نئی تھی۔ یورپ والوں کی تہذیب میں ان کو خوبیاں بھی نظر آئیں اور برائیاں بھی۔ ان کی ظاہری شکل تو آنکھوں کو چکاچوند کردیتی تھی مگر جب شاعر نے ٹٹولا تو اندر سے کھوکھلا پایا۔ ان کے دل پر بڑی چوٹ لگی۔ ولایت سے واپس آکر انہوں نے اردو میں بہت سی نظمیں لکھیں، اب فارسی کی طرف ان کی زیادہ توجہ ہوگئی تھی۔ کچھ عرصہ تک انہوں نے اردو میں شعر کہنا ہی چھوڑ دیا تھا لیکن زندگی کے آخری سالوں میں پھر کہیں اردو کی طرف توجہ دی۔ اردو چھوڑ کر فارسی میں شعر کہنے کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو فارسی زبان شاعری کیلئے بہت موزوں ہے اور دوسرا اب اقبال کی شاعری کا رنگ بدل گیا تھا، وہ کہتے تھے کہ صرف ہندوستان کیلئے نہیں بلکہ ساری دنیا کے مسلمانوں کیلئے شعر کہتا ہوں اور فارسی کے سوا کوئی زبان ایسی نہیں جس کے ذریعے اپنے خیالات دوسرے ممالک کے مسلمانوں تک پہنچائے جاسکتے ہوں۔ جب اقبال لاہور تشریف لائے تو صرف شیخ اقبال تھے جب ولایت سے واپس آئے تو ڈاکٹر اقبال کہلانے لگے۔ حکومت ہند نے ان کو ”سر“ کا خطاب دیا تو آپ نے استاد مولوی میر حسن کو ”شمس العلماء“ کا خطاب دلوایا لیکن قوم میں وہ علامہ اقبال کے نام سے موسوم ہوگئے۔ باوجود ان تمام خطابات کے وہ ایک سیدھے سادھے اور درویش انسان تھے، انہوں نے خود اپنے آپ کو اکثر شعروں میں فقیر اور درویش کہا ہے اور اس پر فخر بھی کیا ہے۔
1935؁ء میں اقبال کی بیگم صاحبہ کا انتقال ہوا جس کا اُن کے دل پر بہت برا اثر ہوا اور کچھ عرصہ سے گردے کے درد کا بھی مرض تھااور قلب بھی بہت کمزور ہوگیا تھا۔ 1937؁ء میں طبیعت زیادہ بگڑنے لگی۔ آپ کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد نے آپ کی بگڑی ہوئی حالت دیکھ کر دوچار کلمات تسلی کے کہے مگر علامہ اقبال کہنے لگے کہ بھائی میں مسلمان ہوں موت سے نہیں ڈرتا۔ آخر کار علامہ اقبال 21 اپریل 1938؁ ء کو رحلت فرماگئے۔ وفات کے وقت ان کی عمر 65 سال کے قریب تھی۔ اقبال کی وفات کی خبر لاہور میں آگ کی طرح پھیل گئی، بازار بند ہوگئے اور لوگ جاوید منزل کی طرف جانے لگے۔ شام کو جنازہ اُٹھا اور بادشاہی مسجد کے میناروں کے سائے میں ان کی میت کو دفن کیا گیا۔ جنازے کے ساتھ کوئی پچاس ہزار سے بھی زائد لوگ شامل تھے۔ آپ کے انتقال پر ہندوستان بھر کے شہروں اور قصبوں میں جگہ جگہ جلسے ہوئے۔ عام دنوں میں بھی لوگ ان کے مزار پر فاتحہ خوانی کیلئے جاتے ہیں مگر خاص مواقع مثلاً یوم اقبال پر بہت زیادہ لوگ حاضری کیلئے جاتے ہیں اور اسی دن وہاں پر مسلح افواج کی تبدیلی ہوتی ہے۔ یوم اقبال کے موقع پر ملک کے سربراہان کی طرف سے بھی ان کے مزار پر پھول چڑھائے جاتے ہیں اور بے شمار علمی اور ادبی اداروں اور انجمنوں کی طرف سے بھی چادریں چڑھائی جاتی ہیں اور فاتحہ خوانی کی جاتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اقبال کی شاعری سے سوئے ہوئے دلوں کو جگانے والا، مایوسیوں کی ہمت بندھانے والا، اسلام کا سچا عاشق اور ملت کا سوگوار ہم میں نہیں رہا لیکن اس نے ہمارے دلوں کو یقین اور تنظیم کے جس نور سے جگمگایا تھا اس کی روشنی شک اور مایوسی کی تاریکی میں ہمیں صراط مستقیم دکھاتی رہے گی۔ ساز خاموش ہوگیا مگر کرۂ ارض اور اس کی فضا اس کے نغموں سے قیامت تک گونجتی رہے گی۔ ہمیں چاہیے کہ علامہ اقبال کے کلام کو ہر روز پڑھیں اور سمجھیں اور اس پر عمل پیرا ہوں۔ زندہ قومیں اپنے اکابرین کی یادوں کو کبھی فراموش نہیں کیا کرتیں۔ علامہ اقبال ہماری قوم کا سب سے بڑا فکری سرمایہ ہیں اور اس مملکتِ خدا کا ہرشہری، ہر مزدور، ہر طالبعلم اور ہر شعبہ زندگی کے اعتبار سے ان کا ہمیشہ مرہون منت رہے گا کہ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ، آزاد اور خود مختار ملک کا تصور پیش کیا۔

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے