تحریر: شیخ محمد انور(ریلویز) 2020ء
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناحؒ
ہم نے قائد اعظم کی اس جائیداد یعنی مملکت پاکستان کے ساتھ وہی سلوک کیا
جو ایک نافرمان بیٹا اپنے مرحوم باپ کی جائیداد کے ساتھ کرتا ہے۔
یوم کسی واقعہ کا ہو یا کسی شخصیت کا ہمیں گزری ہوئی تاریخ کی یاد دلاتا ہے۔ انہی میں سے ایک 25 دسمبر کا دن ہے جو کہ قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم ولادت ہے۔ یہ ہمارے لیے بہت مسرت اور شادمانی کا دن ہے۔ یہ دن ہر سال آتا ہے اور گزر جاتا ہے۔ ہمارے رہنماؤں اور سیاستدانوں کے بیانات اخبار کی زینت بنتے ہیں اور اس سے زیادہ اس دن کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح آسمانِ سیاست کا وہ روشن ستارہ ہے جو برصغیر پر 72 سال طلوع رہا اور جس کی روشن کرنیں آج بھی پاکستان کی صورت میں اس عالم کو منور کررہی ہیں۔ کسے معلوم تھا کہ کاٹھیاوار کے رہنے والے چمڑے کے ایک متوسط درجہ کے تاجر جناح پونجا کے ہاں پیدا ہونے والا بچہ بڑا ہوکر اسلامیان ہند کا نجات دہندہ اور ان کا غم خوار بنے گا، وہ اپنی ملت کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو سنبھالے گا اور اسے ساحل مراد تک لے آئے گا، یہ معصوم بچہ بڑا ہوکر ان ظالموں اور لٹیروں کا محاسبہ کرے گا جو گزشتہ دو صدیوں سے اسلام کے نام لیواؤں کو اپنے ظلم اور ناانصافی کی چکی میں پیس رہا ہے۔ کچھ لوگ پیدا ہی عظیم ہوتے ہیں اور کچھ اپنی جدوجہد اور کارناموں کی بدولت عظمت حاصل کرلیتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح میں عظمت و قابلیت اور نیک نامی کی ساری خوبیاں پیدائشی تھیں اور یہ خوش قسمتی ہمیں نصیب ہوئی کہ رب کائنات نے باب الاسلام سندھ کے مشہور شہر کراچی میں ہمیں قائد اعظم جیسی عظیم شخصیت سے نوازا۔ اللہ ربُ العزت نے قائد اعظم کو بہت اچھا ذہن عطا کیا تھا۔ انہیں جب بھی اور جہاں بھی کوئی موقع ملتا وہ وقت ضائع کیے بغیر اپنی پڑھائی جاری رکھتے۔ قائد اعظم محمد علی جناح اسلامیان ہند کے مسلمانوں کے قائد بنے، ان میں سیاسی رجحان تو لندن میں زمانہ طالب علمی کے دوران ہی پیدا ہوگیا تھا مگر ہندوستان آکر ایسی اقتصادی اور مالی دشواریوں سے دوچار ہونا پڑا کہ سیاست کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے، لیکن جب حالات ذراسازگار ہوئے، مالی دشواریوں کا بوجھ کم ہوا اور نسبتاً سکون و آرام میسر آیا تو آپ کا دبا ہوا جذبہ پھر ابھرا اور رفتہ رفتہ آپ نے سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ تحریک پاکستان کے دوران جو جذبہ ہم نے پایا تھا اسے کھو دینے کا ہی اثر ہے کہ ہم آج اس دن کی اہمیت سے واقف نہیں رہے اور اس دن کو بھی ہم عام دن سمجھ کر گزار دیتے ہیں۔ زندہ قومیں اپنے محسنوں اور اکابرین کو کبھی بھلایا نہیں کرتی مگر افسوس کہ آج ہم اپنی تاریخ سے بے خبر ہوگئے ہیں حالانکہ قوموں کی بقاء اور سلامتی کیلئے یہ اشد ضروری ہے کہ وہ اپنی تاریخ سے باخبر رہیں اور اپنی نئی نسل کے ذہنوں میں بھی یہ تاریخ نقش کرتے رہیں مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوسکا۔ تاریخ سے بے خبر رہنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم پر وہ قوم غالب آگئی جس کی اپنی کوئی تاریخ تھی نہ مذہب۔ وہ قوم جو محض چند رسومات اور توہمات کو اپنا مذہب قرار دیتی تھی۔ اس قوم نے مسلمانوں سے ہر میدان میں شکست کھائی تھی اور صدیوں مسلمانوں کی غلام رہی تھی۔ مگر جب جذبے ماند پڑے تو ہم اس قوم سے مغلوب ہوگئے۔ ہم ہر سال یوم قائد اعظم مناتے ہیں، حسب روایت تقاریر ہوتی ہیں، مذاکروں کا اہتمام ہوتا ہے، مشاعروں کی محفلیں گرم ہوتی ہیں، مینابازار لگتے ہیں، اخبارات و رسائل ایڈیشن نکالتے ہیں، ٹیلی ویژن پر پروگرام دکھائے جاتے ہیں، ارباب اقتدار بھی گرما گرم تقاریروں کا انتظام کرتے ہیں لیکن نتیجہ صفر رہتا ہے اور اسی گہماگہمی میں 25 دسمبر کا دن ڈھل جاتا ہے اور تقاریر کی گرمی سرد پڑجاتی ہے اور اگلی صبح ہمیں نوٹوں پر چھپا ہوا یا نوٹوں میں چھپا ہوا قائد اعظم یادرہ جاتا ہے۔ ہم روح قائد اعظم کے سامنے بہت شرمندہ ہیں، ہم نے قائد اعظم کی اس جائیداد یعنی مملکت پاکستان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو ایک نافرمان بیٹا اپنے مرحوم باپ کی جائیداد کے ساتھ کرتا ہے۔ پاکستان سے نصف احسان ہم نے خود فریبی اور خود فراموشی کی صورت میں اتاردیا ہے یعنی قائد اعظم کے بڑے احسان سے ہم نصف قرض ادا کرچکے ہیں، باقی پاکستان ہم خدا کے سپرد کرکے گہری نیند سوچکے ہیں۔ پوری قوم خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی ہے ایک طبقہ اس قوم کو لوریاں سناسنا کر سلا رہا ہے اور کھٹملوں کی طرح قوم کو کاٹے جارہا ہے، لوریاں دینے اور مچھروں کے کاٹنے کا عمل بڑی احتیاط سے کیاجارہا ہے تاکہ قوم کی نیند میں کوئی خلل پیدا نہ ہو۔ عظیم انسان روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ عظیم انسانوں کے عالم وجود میں آنے کیلئے تاریخ کو مدتوں منتظر رہنا پڑتا ہے۔ سالہا سال کے انتظار کے بعد کہیں ایسا انسان وجود میں آتا ہے جو نہ صرف عظمت کے معیار پر پورا اترتا ہے بلکہ اس کو دیکھ کر خود عظمت کا معیار قائم کیاجاتا ہے۔ کون جانتا تھا کہ 25 دسمبر 1876ء کو کراچی میں پیدا ہونے والا یہ بچہ دراصل مشرق کے اقبال کا ستارا اور ایک اسلامی سلطنت کا بانی ہے۔ محمد علی جناح کے والد سوداگر تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انگلستان چلے گئے اور وہاں سے قانون کا امتحان پاس کیا۔ واپس آکر بمبئی میں وکالت شروع کردی، آغاز میں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن قائد اعظمؒ کے استقلال مسلسل نے ان ناکامیوں کو کامیابیوں میں بدل دیا اور آپ کا شمار عظیم قانون دانوں میں ہونے لگا اور آج ہندوستان کے درودیوار پاکستان کا کونہ کونہ، سیاسی جماعتوں اور گروہوں کی مجالس کا ایک ایک گوشہ سالہا سال گزرجانے پر بھی ایک ہی نام سے گونج رہا ہے اور جب تک سورج کے طلوع وغروب کا عمل جاری ہے۔ دشمنوں کے دل اس کی ہیبت سے لرزہ براندام رہیں گے اور اس کے دوست اس کی سیاسی فراست کے گن گاتے رہیں گے۔ وہ وقت یاد کریں جب 23 مارچ کے دن منٹو پارک لاہور میں برصغیر کے ہر صوبے اور ہر خطے کے لوگ جمع تھے۔ یہ سب یہاں آکر ایک لڑی میں پروئے گئے تھے۔ ہوس اقتدار کے اندھے سیاستدانوں کو اتنا بھی یاد نہیں رہا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کو ایک اسلامی و فلاحی مملکت بنانا چاہتے تھے جو اسی صورت میں ممکن تھا کہ ان کے ارشادات اتحاد، تنظیم اور یقین محکم پر ہی عمل کیاجاتا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پاکستان کی دل و جان سے قدر کریں، اس ملک کی عظمت اور اہمیت کو پہچانیں، لوٹ کھسوٹ، چوری، رشوت، اقربا پروری، سازشوں اور خوشامدوں کے چلن و کردار کو ترک کریں اور ایک سچے مسلمان بن کر وطن کی عظمت، ترقی، خوشحالی اور قوم کی یکجہتی اور اتحاد کیلئے کام کریں۔ گزشتہ ماہ علامہ اقبالؒ کا یوم ولادت تھا۔ علامہ اقبال مفکر پاکستان اورعاشق رسولﷺ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ عظیم انسان ہیں جنہوں نے پاکستان کا خواب دیکھا اور خواب کی تعبیر کو پورا کرنے کیلئے اُنہوں نے قائد اعظم کو مسلمانوں کی رہنمائی کیلئے خط لکھا کیونکہ قائد اعظم حالات سے مایوس ہوکر واپس چلے گئے تھے۔ انہوں نے قائد اعظمؒ کو ایک مکتوب میں لکھا ”اس وقت مسلمانوں کو اس طوفان بلا میں جو شمال سے مغربی ہندوستان اور شاید ملک کے گوشہ گوشے سے اٹھنے والا ہے‘ صرف آپ ہی کی ذات گرامی سے رہنمائی کی توقع ہے“۔ قائد اعظم نے علامہ اقبال کے خط کے جواب میں واپس آکر پاکستان کے حصول کیلئے جدوجہد کیلئے مسلمانوں کو تیار کیا بلکہ انگریزوں اور ہندوؤں کی مشترکہ سازشوں کا بھی مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے انہیں ناکام بنادیا۔ انہوں نے متحدہ قومیت کے باطل تصور کی پوری قوت کے ساتھ تردید کرتے ہوئے دو قومی نظریہ کی وضاحت کی۔ قائد اعظم نے فرمایا”ہندو مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں، یہ دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، ایک قوم کے پیروکار دوسری قوم کے دشمن نہیں“۔ قائد اعظم نے دو قومی نظریہ کے تحت پاکستان کے مطالبہ پر زور دیا اور فرمایا”ہندوستان کے مسلمان ایک جداگانہ قومیت رکھتے ہیں، انہیں کسی دوسری قوم میں جذب کرنے یا ان کے نظریات یا ملی تشخص کو مٹانے کیلئے جو کوشش بھی کی جائے، اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے۔ ہم نے تہیہ کرلیا ہے کہ ہم اپنی جداگانہ قومی تشخص کیلئے جداگانہ حکومت قائم کرکے رہیں گے“۔ قائد اعظم کے اس پرعزم اعلان حق پر انگریزوں اور ہندوؤں میں کھلبلی مچ گئی۔ انہوں نے بہت سے مسلمانوں کو خرید لیا جو مسلمانوں اور ہندوؤں کو ہندوستانی قوم قرار دیتے اور تقسیم کی مخالفت کرتے رہے، مگر قائد اعظمؒ کی پرخلوص اور لازوال قیادت میں مسلمان متحد ہوکر مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر جمع ہوئے اور بالآخر وہ دن آگیا جب مسلمانانِ ہند نے واضح طور پر انگریزوں سے آزادی اور ہندوؤں سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ قائد اعظم نے محض مسلمانوں کے ملی و قومی مفاد کیلئے اپنے پچھلے سیاسی کارناموں، ماضی کی حسین یادگاروں اور اپنی مسلمہ حیثیتوں کو قربان کردیا اور ایک باہمت انسان کی طرح اس آزمائش پر پورے اترے، اب انہوں نے اپنی زندگی کیلئے نئے دور کا آغاز کیا۔ کانگریس جو قائد اعظم کو ہندومسلم اتحاد کا علم بردار سمجھتی تھی اب انہیں فرقہ پرستی کا مجرم سمجھنے لگی لیکن وہ صلے کی تمنا کیے بغیر اپنے کام میں مصروف رہے اور اپنی منزل کے حصول کیلئے جدوجہد جاری رکھی۔ قائد اعظم نے مسلمانوں کی قیادت سنبھالی تو کچھ ہی عرصہ میں مسلمانوں اور مسلم لیگ کی اہمیت کو ایک جماعت تسلیم کیاجانے لگا۔ قائد اعظمؒ کی مخلصانہ کوششوں سے مسلمانوں میں ایک انقلاب آگیا، آپ نے قوم میں نیا عزم، نئی زندگی اور نئی امنگیں پیدا کیں۔ وہ بجائے خود ایک بہت بڑا طوفان اور ایک بہت بڑا سیاسی ہنگامہ تھے۔ وہ طوفان کی طرح اُٹھے اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے ملک پر چھاگئے۔ آپ نے ہر مخالفت کو ختم کردیا اور ہمارے قائد کی سیاسی بصیرت کے طفیل ایک نئی مملکت وجود میں آئی۔ قائد اعظمؒ کی شخصیت اس اعتبار سے بے مثال ہے کہ انہوں نے اپنے تدبروتفکر سے کام لیکر دنیا کے نقشے پر ایک نئی مملکت کو وجود بخشا اور مسلمانان ہند جن کی تعداد آٹھ کروڑ تھی کو انگریزی اقتدار اور غیر مسلموں کے تسلط سے نجات دلائی۔ ان کا اٹل عزم ہی تھا جو حصول پاکستان کی جدوجہد میں کام آیا۔ اپنی عظمت اور استقامت کے طفیل وہ کبھی اپنے حریفوں سے مرعوب نہیں ہوئے۔ جن سیاسی حقیقتوں کو وہ صحیح تسلیم کرتے تھے ان کو منوانے کیلئے اپنی جان کی بازی لگادی اور مخالفت کی تند و تیز ہوائیں ان کے آہنی عزائم کو ناکام نہ بناسکیں۔ دُوراندیش، باکردار، ہمہ صفات قائد اعظم محمد علی جناح کا انتقال 11 ستمبر 1948ء کو ہوا تو پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے مسلمان غم سے نڈھال تھے۔ اُن کی رحلت خصوصیت سے نوزائیدہ مملکت پاکستان کیلئے بڑا دھچکا ثابت ہوئی۔ اُن کی شخصیت اور کردار نے پاکستانی عوام کو یکجا کررکھا تھا۔ قوم اُن کی وجہ سے متحد رہی۔ اس میں آگے بڑھنے اور پاکستان کو کامیاب بنانے کا جذبہ پیدا ہوا تھا۔ طالع آزماؤں اور مفاد پرستوں کی راہ میں وہ بہت بڑی رکاوٹ تھے۔ اُن کے انتقال کے ساتھ ہی جیسے ایک شجرسایہ دار ہمارے سروں سے ہٹ گیا اور ہم دھوپ کی شدت میں آگئے۔