اُمّ المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

تحریر: شیخ محمد انور(ریلویز) 2020؁ء
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
اُمّ المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
اُنہوں نے ہر مشکل اور مصیبت میں رسول اللہﷺ کا ساتھ دیا۔
حضرت خدیجۃ الکبریٰ حضور ﷺ کی نبوت پر سب سے پہلے ایمان لائیں۔
آپ کا نام خدیجہؓ، کنیت ام ہند، لقب طاہرہ تھا۔ آپ عام الفیل یعنی جس سال ابرہ نے خانہ کعبہ پر حملہ کیا تھا، سے 15 سال قبل پیدا ہوئیں، ام المومنین حضرت خدیجہؓ کی ولادت ایسے دور میں ہوئی جب پورا عرب معاشرہ جہالت، گمراہی اور ہر طرح کی اخلاقی خرابیوں میں بری طرح سے جکڑا ہوا تھا، آپؓ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ اور والد کا نام خویلد تھا جن کا شمار عرب کے نہایت عزت دار رؤساء اور معززین میں ہوتا تھا۔ آپؓ کو کبریٰ اس لیے کہا گیا کہ آپؓ تمام امہات المومنین میں بزرگ و برتر تھیں۔ اس تاریکی کے دور میں بھی آپؓ پاکدامنی کے اعلیٰ مقام پر فائز تھیں، اس لیے انہیں اسلام سے پہلے بھی طاہرہ کے لقب سے نوازا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی قسمت میں آقائے دوجہاں محمد رسول اللہﷺ کی زوجہ بننے کی سعادت لکھی تھی۔ آپ کا پہلا عقد ابوہالہ اور دوسرا عقد عتیق بن عائد سے ہوا جو شادی کے تھوڑے عرصے بعد دنیا سے چل بسے۔ گو کہ قریش کے بڑے بڑے رؤساء ان سے نکاح کرنے کی خواہش رکھتے تھے لیکن چونکہ ان کیلئے ایک فضیلت اور امتیاز مقدر ہوچکا تھا اس لیے انہوں نے انکار کردیا۔ بیوگی کے دن آپؓ نے نہایت عزت و احترام سے گزارے۔ آپؓ کے والد جنگ حرب الفجار میں مارے گئے تھے۔ باپ کی وراثت آپ کو ترکہ میں ملی اور کچھ مال آپ کے خاوند کا بھی ملا۔ اتنی مال و دولت، عیش و آرام اور نوکر چاکر ہونے کے باوجود بھی تکبر و غرور کا نام و نشان تک نہ تھا۔ وہ نہایت عقلمند، باہمت اور اعلیٰ ظرف خاتون تھیں۔ اپنی خداداد عقل اور عمدہ تدبیروں سے تقریباً دس سال تک تجارت کا کام نہایت احسن اور ایمانداری سے چلایا۔ معتبر اور ایماندار لوگوں کے سپرد اپنا مال کردیتیں اور اس طرح تجارت میں ان کو بہت فائدہ حاصل ہوتا۔ وہ قریش کی عورتوں میں سب سے زیادہ مالدار اور باثروت خاتون سمجھی جاتی تھیں۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ نے ایک دیانتدار اور امین مددگار کی ضرورت کو محسوس کیا۔ حضور اقدسﷺ کی نبوت کا اگرچہ اس وقت تک ظہور نہیں ہوا تھا لیکن آپﷺ کی دیانت اور امانت کا تمام مکہ میں شہرہ تھا اور ہر ایک آپﷺ کو امین اور دیانتدار سمجھتا تھا۔ آپﷺ کی اس شہرت کا حضرت خدیجہؓ کو بھی بخوبی علم تھا۔ حضورﷺ پہلے ہی اپنے چچا ابوطالب کے ساتھ تجارت میں کافی تجربہ حاصل کرچکے تھے۔ حضرت خدیجہؓ تک یہ بات پہنچی تو اُنہوں نے اپنے غلام میسرہ کو بھیج کر بلالیا اور مال تجارت دے کر شام بھیجا۔ اس طرح آپ دو تین مرتبہ حضرت خدیجہؓ کا مال تجارت لے کر گئے۔ ہر مرتبہ پہلے سے زیادہ نفع اور پائی پائی کا حساب دیا۔ حضرت خدیجہؓ آپ کے پاکیزہ اخلاق کی پہلے سے معترف تھیں۔ تجارت کے معاملے میں دیانتداری سے گرویدہ ہوگئیں۔ چنانچہ آپ نے اپنی کنیز نفیسہ کی وساطت سے آنحضرت ﷺسے رشتہ کی بات کی۔ جس کو آپ نے اپنے چچا سے مشورہ کے بعد منظور کرلیا۔ تاریخ مقررہ پر روساء عرب جمع ہوئے، جن میں حضرت حمزہؓ بھی تھے۔ پہلے آپ کے چچا نے خطبہ نکاح پڑھا، بعد ازاں نوفل نے حضرت خدیجہ کی طرف سے پڑھا۔ یہ عرب کا دستور تھا کہ فریقین کی جانب سے خطبہ پڑھاجاتا تھا جس میں خاندانی وجاہت بیان کی جاتی تھی۔ نکاح کے وقت حضرت خدیجہؓ کی عمر 40 سال جبکہ حضورﷺ کی عمر مبارک 25 سال تھی۔ چنانچہ آپﷺ کے چچا ابوطالب کی موجودگی میں 500 درہم حق مہر مقرر کرکے حضرت خدیجہؓ کا عقد ہوگیا اور حضورﷺ نے ایک اونٹ ذبح کرکے ولیمہ کیا۔ آپؓ نے اپنا تمام کاروبار اور مال و دولت حضورﷺ کے قدموں پر نچھاور کردیا۔ حضرت خدیجہ اور آپﷺ ساتھ رہنے لگے اور حضرت خدیجہؓ حضورﷺ کی دل سے عزت کرتی تھیں اور ہر بات میں آپﷺ کی مرضی کو مقدم سمجھتی تھیں۔ اب جو کچھ حضرت خدیجہؓ کا تھا وہ آپ کا ہی سمجھا جاتا تھا۔ حضرت علیؓ ابوطالب کی کفالت میں تھے، جب ان کی مالی حالت کمزور ہوگئی تو حضورﷺ کی خواہش پر حضرت خدیجہؓ نے انہیں اپنی کفالت میں لے لیا تھا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا خدا کی قسم ہر گز نہیں خدا نے ان سے بہترین بیوی مجھے نہیں دی۔ حضرت خدیجہؓ اس وقت ایمان لائیں جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے اور اُنہوں نے اس وقت مجھے اپنا مال (اقامت دین کیلئے) دیا جب لوگ مجھے مال دینے کو تیار نہ تھے۔ جب میرا کوئی معین و مددگار نہ تھا۔ اس وقت انہوں نے اقامت دین میں میری مدد کی۔ اللہ نے حضرت جبرائیل کی معرفت انہیں سلام کہلوایا اور جنت میں موتیوں کے ایک محل کی بشارت دی تھی، حضرت جبرائیل بھی ان کے سلام کہلواتے تھے۔ جب تک حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ زندہ رہیں رسول اللہ ﷺ نے دوسرا نکاح نہیں فرمایا، امہات المومنین میں واحد ہستی ہیں جن سے رسالت مآب کی محبت پر ام المومنین حضرت عائشہؓ رشک فرماتی تھیں۔ حضرت محمدﷺ کی عادت تھی کہ وہ مکہ سے کچھ فاصلے پر غار حرا میں تشریف لے جاتے اور غور و فکر کے علاوہ عبادات باری تعالیٰ میں مصروف رہتے، جب کھانے پینے کا سامان ختم ہوجاتا تو گھر آتے اور سامان لے کر پھر وہیں چلے جاتے۔ حضرت خدیجہؓ آپ کے آرام کا مکمل خیال رکھتیں اور کبھی اشارے سے بھی شکایت کا اظہار نہ کرتیں۔ اسی اثناء میں آنحضرتﷺ پر وحی نازل ہوئی اور مامور من اللہ ہونے کا پیغام ملا۔ آپ گھبرائے ہوئے گھر آئے تو حضرت خدیجہؓ نے نہ صرف آپﷺ کو تسلی دی بلکہ ایمان لاکرثابت کردیا کہ آپﷺ سچے ہیں۔ دعویٰ نبوت کے بعد آنحضرتﷺ کو لاتعداد تکلیفیں پہنچائی گئیں لیکن آپﷺ کے ساتھ حضرت خدیجہ نے بھی انہیں ثابت قدمی سے برداشت کیا۔بخاری حدیث شریف میں آیا ہے کہ”آنحضرت ﷺ کو مشرکین کی تردید یا تکذیب سے جو صدمہ پہنچتا“ حضرت خدیجہ کے پاس آکردورہوجاتا کیونکہ آپ کفار مکہ کی باتوں کو ہلکا کرکے بیان کرتیں۔ رسول اللہ ﷺ کی ہر خواہش کو پورا کرنا آپ اپنا پہلا فرض تصور کرتی تھیں، آپ کو معلوم ہوا کہ آنحضرتﷺ زید کو بہت عزیز رکھتے تھے مگر وہ ایک مالدار شخص کے غلام تھے چنانچہ زید کو منہ مانگی رقم ادا کرکے آزاد کرالیا۔حضور اکرمﷺ فرمایا کرتے تھے کہ دنیا میں افضل ترین اور سب کی سردار چار عورتیں ہیں، خدیجہ بنت خویلد امت کی تمام عورتوں سے افضل، فاطمہ بنت محمد اپنے زمانے کی عورتوں سے افضل، مریم بنت عمران والدہ حضرت عیسیٰ اپنے زمانے کی مستورات سے افضل اور آسیہ بنت مزاحم(زوجہ فرعون مصر) اپنے زمانے کی خواتین سے افضل ترین ہیں۔ آپ کی وفات 11رمضان 10 نبوی کو ہوئی۔ اس وقت صرف غسل دیا گیا اور آنحضرت ﷺنے قبر میں اُتارا۔ وفات کے وقت آپ کی عمر 64 برس تھی۔ آنحضورﷺ کو آپ سے خاص لگاؤ تھا۔ آپ کے حسن سلوک کو بعد ازوفات بھی یاد کرتے تھے۔ حضرت خدیجہ کے سال وفات کو رسول کریمﷺ نے عام الحزن (غم کا سال) قرار دیا۔ وطن عزیز کی سینکڑوں مسلمان خواتین آج پردہ اور شریعت کے خلاف سرپٹھول میں مصروف ہیں۔ کیا ان ”معزز“ خواتین کا ہر اقدام اسلام کے منافی نہیں؟ اللہ ربُ العزت ہمیں شرم و حیا اور عفت و عظمت کا پیکر بنائے۔ آمین۔

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے