تحریر: شیخ محمدانور
فون نمبر: 0333-2250719
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
تنخواہوں اور پینشن کی ادائیگی میں بے جا تاخیر، ریلوے ملازمین پریشانی میں مبتلا
ادارہ شماریات نے گزشتہ دنوں ملک میں مہنگائی کی ہفتہ وار رپورٹ جاری کی ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق ہفتہ وار مہنگائی کی شرح میں 2.78فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، مہنگائی کی مجموعی ہفتہ وار شرح 41.54 فیصد پہنچ گئی ہے۔ ادارہ شماریات نے کہا ہے کہ مہنگائی میں اضافہ اشیائے خورونوش کی قیمتں بڑھنے سے ہوا، ایک ہفتے کے دوران 33 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ، 6 کی قیمتوں میں کمی اور 12 میں استحکام رہا ہے۔ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے غریب ریلوے ملازمین کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ پاکستان ریلوے کے ملازمین اور پینشنرآج اپنی تنخواہوں اور پینشن کی بروقت ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔ ریلوے ملازمین کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے، پاکستان ریلوے ایک واحد قومی ادارہ ہے جو ایک روپے بھی کمائے تو وہ بھی شام کو اسٹیٹ بینک میں جمع ہوتا ہے مگر اس کے باوجود ریلوے ملازمین کو آج تنخواہوں اور پینشن کی بروقت ادائیگی نہیں کی جا رہی۔ پاکستان ریلوے کے علاوہ باقی تمام صوبائی اور قومی اداروں میں ملازمین کو تنخواہوں کی بروقت ادائیگی ہوتی ہے۔ ریلوے ملازمین کا کیا گناہ ہے کہ وہ اپنی تنخواہوں، پینشن اور ریٹائرمنٹ کے واجبات کیلئے دھکے کھاتے نظرآ رہے ہیں۔ اس قومی ادارے کے ملازمین کو قومی دھارے میں شامل کیوں نہیں کیا جاتا، ان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیوں ہوتا ہے؟آج ریلوے کے موجودہ حالات کی وجہ سے نہ تو ریلوے کے ملازم خوش ہیں، نہ افسران خوش ہیں اور نہ ہی اس ملک کی عوام خوش ہیں بلکہ ملازمین اور افسران دونوں ہی مایوس ہو چکے ہیں۔ کیا ہمارا سینیٹ، ممبران قومی اسمبلی، ممبران صوبائی اسمبلی، وزرا صاحبان، پولیس، سیکرٹریٹ ملازمین، ہسپتال اور دیگر محکمے ملک کو کما کر دیتے ہیں؟ ان کو تنخواہیں اورریٹائرمنٹ کے واجبات کے حصول میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی، تمام سہولتیں ان کیلئے موجود ہیں اس کے برعکس پاکستان ریلوے جو کہ اس دور میں بھی چالیس پچاس ارب سالانہ کما کر اسٹیٹ بینک میں جمع کرواتا ہے اس کو تنخواہیں، ریٹائر ملازمین اور بیواؤں کے واجبات بروقت ادا کیوں نہیں کیے جاتے؟ میں وزیراعظم شہباز شریف سے اپیل کروں گا کہ خدارا اس ملک کے ساتھ بہت کھلواڑا ہو گیا ہے۔ پاکستان ریلوے جو کہ اس ملک کی شہ رگ ہے، ایک وحدت کی علامت ادارہ ہے، چاروں صوبوں کی خوبصورت زنجیر ہے، دفاعی اور فلاحی ادارہ ہے۔ اس ادارے کو تباہی سے بچایا جائے اور فوری طور پر اس ادارے کو کم از کم پچاس ارب کا بیل آؤٹ پیکج دیا جائے تاکہ یہ ادارہ دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے۔ جب پاکستان ریلوے بنی تو اس کا مقابلہ بیل گاڑی سے تھا مگر آج اس کا مقابلہ جہاز، ڈائیوو بس کے ساتھ ہے۔ پاکستان ریلوے کی دیکھ بھال کیلئے مختلف شعبے بھی متعارف ہوئے جن کی مدد سے ٹرین آپریشن آسانی سے چل رہا ہے۔ جس میں ٹریفک، انجینئرنگ، سگنیلنگ، مکینیکل اور دیگر بے شمار شعبے شامل ہیں۔ ٹرین آپریشن ان تمام شعبہ جات کی مدد سے چلتا ہے اور ٹرین پورے پاکستان میں چلتی ہے اور ہزاروں مسافروں کو ان کی منزلِ مقصود تک پہنچاتی ہے۔ جو ٹرین کراچی، پشاور، کوئٹہ اور سکھر سے چلتی ہے اس ٹرین میں آپ کو چاروں صوبوں کی ثقافت نظر آتی ہے۔ اس میں پختون، بلوچی، پنجابی، سندھی اکٹھے سفر کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ پاکستان کے اتفاق، بھائی چارے اور قومی یکجہتی کی مثال ہے۔ یہ ٹرین منی پاکستان کی تصویر پیش کرتی ہے۔ جہاں یہ سب شعبے ٹرین کی آمدورفت میں مددگار ثابت ہوتے ہیں وہیں ایک بہت ہی اہم اور کارآمد شعبہ پٹرولنگ کا بھی ہے جو کہ ٹرین کی آمدورفت کیلئے انتہائی ضروری اور کارآمد ہے لیکن بدقسمتی سے اس شعبے کو ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا رہا اور پٹرولرز کا کوئی بھی والی وارث نہ بنا۔ گزشتہ دنوں سکھر ڈویژن کے ایک پٹرولر نے دوران ڈیوٹی جام شہادت نوش کیا ہے۔ حیدرعلی ولد خان محمد پٹرولر سکھر ڈویژن کو دوران ڈیوٹی ڈاکوؤں کی جانب سے فائرنگ کر کے شہید کر کیا گیا۔ حیدر علی نہایت محنتی انسان تھا۔ اس نے ہمیشہ اپنی ڈیوٹی جانفشانی اور ایمانداری سے سر انجام دی۔ پٹرولر ایک طرح سے ٹریک کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ یہ وہ لاوارث شعبہ ہے جو ریلوے ٹریک کو کسی ہتھیار اور تحفظ کے بغیر سکیورٹی فراہم کرتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی سیفٹی آلہ موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی مرتبہ یہ پٹرولر ڈیوٹی کرتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کر چکے ہیں۔ آئے دن یہ پٹرولر دہشتگردوں کی گولیوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ گرمی، سردی، آندھی، طوفان اور بارش ہر قسم کے موسم میں یہ پٹرولر دن رات اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دیتے ہیں مگر پھر بھی ان کو ناکارہ سمجھا جاتا ہے۔یہ لوگ بغیر مسلح پٹرولنگ کرتے ہیں حالانکہ یہ پولیس کا کام ہے جو ان سے کروایا جاتا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ ان کے ساتھ پولیس کے مسلح جوانوں کو تعینات کیا جائے۔ ملک کے جو حالات ہیں ان میں ضروری ہے کہ ریلوے ٹریک کی پٹرولنگ کو بہتر بنانے کے لیے پٹرولر ز کے ساتھ پولیس کو تعینات کیا جائے۔ پٹرولر دراصل پاکستان ریلوے ٹریک کی سکیورٹی کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ جس کی بنیادی ذمہ داری ہر ڈویژن کے متعلقہ افسران کی ہوتی ہے جس میں پی ڈبلیو آئی، اے ای این اور ڈی ای این صاحبان شامل ہوتے ہیں۔ جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ پٹرولر اپنی ڈیوٹی کرتا رہے اور اگر اسے کوئی ایسی چیز ملے یا نظر آئے جس سے ٹرین حادثہ کا امکان ہو تو قانون کے مطابق ٹرین کی حفاظت اور روکنے کا اہتمام کرتا ہے اور پھر اپنے متعلقہ افسران کو اطلاع کرتا ہے جس کی وجہ سے کئی مرتبہ ٹریک پر لگے ہوئے بم پکڑے گئے اور ٹرین کو خوفناک حادثوں سے بچانے میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ ریلوے ملازمین اس مہنگائی کے دور حکومت وقت کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ حکومت کب توجہ دے گی؟ تاکہ ان کو تنخواہ اور پینش بروقت مل سکے۔آپ خود ہی سوچیں ایک طرف مہنگائی کا جن بے قابو ہے اور دوسری طرف اگر کسی ملازم کو بروقت تنخواہ نہ ملے تو اپنے گھر کے معاشی معاملات کیسے چلائے گا۔ غریب کو دو وقت کی روٹی عزت اور سکون سے ملتی رہے تو وہ کبھی بھی سیاسی ہنگاموں میں نہیں الجھتا لیکن جب بچوں کی بھوک برداشت سے بڑھ جانے پرمائیں بچوں سمیت نہروں میں چھلانگیں لگانے پر مجبور ہوں، جب باپ عید کے موقع پر بھی بچوں کیلئے ایک جوڑا کپڑوں کا نہ بنا کر دے سکے اور خود کشی جیسے انتہائی اقدام پر مجبور ہو جائے، جب غریب بچے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے چوری کرنے لگیں اور جب تڑپتے بیمار والدین کی دوائی کیلئے اچھے گھرانوں کی بیٹیوں کو اپنا دامن دوسروں کے آگے پھیلانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ ملے تو پھر عام آدمی اسے حکمرانوں کا ہی قصور سمجھتا ہے۔
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب