تحریر: شیخ محمد انور(ریلویز) 2021ء
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
جنگلات قومی معیشت کو مستحکم کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔
سال میں دو ہفتوں کی بجائے پورا سال شجرکاری کی مہم جاری رکھنی چاہیے۔
پاکستان میں کل رقبے کے صرف چارفیصد پر جنگلات ہیں جو کہ بہت کم ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور یہاں کی ۸۸ فیصد آبادی کا دارومدار بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر زراعت ہے۔ گویا یوں کہیے کہ زراعت کو ہماری قومی معیشت میں بنیادی حیثیت حاصل ہے مگر قومی معیشت میں بنیادی حیثیت رکھنے والی زراعت کے ایک انتہائی اہم ترین عنصر شجرکاری کی طرف ہم نے کبھی بھرپور توجہ نہیں دی اور کبھی نہیں سوچا کہ زراعت کی ترقی و فروغ میں شجرکاری کو کیا اہمیت حاصل ہے بلکہ ہماری سوچ اس کے بالکل برعکس رہی ہے۔ پہلے زراعت کے نام پر جنگلات کاٹتے رہے ہیں اور اب بھی کاشت کار اور زمیندار زراعت کے فروغ کیلئے درخت کاٹتے ہیں اور جو جنگلات یا درخت فی الواقع زراعت کی ترقی کا باعث ہیں ہم انہیں زراعت کی ترقی میں رکاوٹ کا سبب سمجھتے رہے ہیں۔ جیسے مال روڈ کی نہر کے کنارے کبھی بہت درخت ہوا کرتے تھے لیکن سڑک کی توسیع کی وجہ سے درخت دن بدن ختم ہوتے چلے گئے۔ حکومت کی طرف سے سال میں دو ہفتہ شجرکاری مہم چلائی جاتی ہے مگر پورے سال میں صرف چودہ دن قومی معیشت میں بنیادی حیثیت رکھنے والی زراعت کے اہم ترین عنصر شجرکاری کی طرف توجہ کوئی قابلِ ستائش بات نہیں۔ سال کے ان دو ہفتوں میں بھی بعض وزیر یا سرکاری حکام ایک پودا لگا کر تصویر بنوا کر شائع کردیتے ہیں اور یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ شجرکاری کی مہم کامیاب ہوگئی ہے اور یہ قومی فرض بھی پورا ہوگیا ہے۔ محکمہ جنگلات کا عملہ ان دو ہفتوں میں شجرکاری کی مہم کے بارے میں تھوڑا سا فعال نظر آتا ہے مگر پھر پورا سال سکوت اختیار کرلیاجاتا ہے اور محکمہ جنگلات نے کبھی اس جانب توجہ نہیں دی کہ درختوں کی قلت زمین بردگی پر منتج ہوسکتی ہے۔ زمین بردگی کے باعث زمین کی ذرخیزی کم ہوجاتی ہے جس سے پیداوار متاثر ہوتی ہے اور مجموعی طور پر اس کے قومی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ زمین بردگی کے سنگین مسئلہ کی طرف بھرپور توجہ دینے کیلئے درختوں کی افزائش اور نئے درخت لگانے کی ضرورت ہے۔ درختوں کی بلا سوچے سمجھے کٹائی کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اور اسے سنگین جرم تصور کیا جانا چاہیے۔ تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان میں اور بالخصوص پنجاب میں چار سو سال قبل وسیع رقبہ پر جنگلات موجود تھے۔ ۸۸۸۱ء کے بندوبست اراضی کے وقت صرف پنجاب میں پونے لاکھ ایکڑ کے قریب رقبے کو چراگاہ کے طور پر چھوڑ دیا گیا تھا تاکہ دیہات میں آباد لوگ اس سے استفادہ کریں لیکن جنگلات آہستہ آہستہ کم ہوتے گئے اور لوگ درخت کاٹتے رہے۔ نئے درخت لگانے کی طرف توجہ نہ دی اور اب صورت یہ ہے کہ پنجاب کے کل رقبہ میں سے صرف اڑھائی فیصد رقبہ پر جنگلات ہیں اور پورے ملک میں کل رقبہ کے صرف چار فیصد پر جنگلات ہیں جبکہ سائنسدان اور متوازن زرعی معیشت کے ماہرین کی رائے یہ ہے کہ ہر ملک کے بیس سے پچاس فیصد رقبہ پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے۔ اس وقت اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کی طرف دھیان دیں تو وہ جنگلات کی دولت سے مالا مال نظر آئیں گے۔ روس میں کل رقبہ کے ۴۳ فیصد پر جنگلات ہیں۔ جاپان میں تو ۲۶ فیصد رقبہ پر جنگلات پائے جاتے ہیں۔ فرانس میں اگرچہ جنگلات بہت زیادہ نہیں مگر پھر بھی وہ بنیادی ضرورت کے مطابق کل رقبہ کے بیس فیصد پر محیط ہیں۔ کینیڈا میں ۵۴ فیصد رقبہ درختوں نے گھیر لیا ہے۔ سویڈن میں بھی آدھے سے زیادہ رقبہ پر درخت موجود ہیں۔ ہمارے قریبی ہمسایہ ملک بھارت میں ۰۲ سے ۲۲ فیصد رقبہ پر جنگلات ہیں۔ متذکرہ ممالک میں جنگلات کی صورتحال دیکھ کر اگر ان کا موازنہ پاکستان کے ساتھ کیا جائے تو اس بات پر دکھ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں درختوں کی قلت تشویشناک حد تک ہے۔ یہ بات اور بھی زیادہ افسوس ناک ہے کہ ہم سال میں صرف دو ہفتے شجرکاری کے لیے نکال پاتے ہیں اور انہیں بھی لاپرواہی سے گزارتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ درختوں کی قلت کے باعث ہم سنگین اقتصادی اور طبعی مسائل سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ درخت زیادہ ہونگے تو جلانے کی لکڑی اور عمارتی لکڑی کا حصول ہمارے لیے کوئی مسئلہ نہیں رہے گا۔ درختوں کی لکڑی سے ہم کھیلوں کا سامان فرنیچر وغیرہ بنا کر برآمد کرسکتے ہیں اور ملک میں روزگار کے زیادہ مواقع پیدا کرکے ملک کو اقتصادی اعتبار سے مستحکم کرسکتے ہیں، زمین بردگی سے بچ سکتی ہے۔ زمین کی ذرخیزی میں اضافہ کے باعث پیداوار میں اضافہ ہوسکتا ہے جو ملک کی خوشحالی کا ضامن ہوگا۔ دوسری طرف طبعی مسائل حل ہوسکتے ہیں کیونکہ درخت آب و ہوا کو معتدل بناتے ہیں۔ پانی کے زیرزمین ذخائر کو مناسب سطح پر قائم رکھتے ہیں۔ درخت بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں اور یہ بات کسی بھی شخص سے پوشیدہ نہیں کہ زیرزمین ذخائر کا مناسب سطح پر قائم رہنا انسانی بودوباش کیلئے ناگزیر ہے اور اگر یہ زیرزمین ذخائر اپنی سطح سے بلند ہونا شروع ہوجائیں اور زمین کی سطح تک آپہنچیں تو کرۂ ارض پر آباد رہنا ناممکن ہوجائے۔ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ زمین بردگی کو روکنے میں درخت بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس صنعتی دور اور شہروں کی گنجان آبادی کے پھیلاؤ کے باعث ماحول میں کثافت بڑھ گئی ہے۔ تازہ اور صاف ہوا انسانی زندگی کیلئے ناگزیر ہے۔ یہ درخت ہوا سے آلائشوں اور کثافتوں کو دور کرکے صحت مند ماحول فراہم کرتے ہیں۔ سائنسدان تو یہاں تک کہتے ہیں اور بجا طور پر درست کہتے ہیں کہ درخت ایک طرف آلائشوں اور کثافتوں کو دور کرتے ہیں، آبی وسائل کا تحفظ کرتے ہیں تو دوسری طرف بارش لانے کا بھی سبب بنتے ہیں۔ اس طرح اگر یہ کہا جائے کہ انسانی زندگی کی بقاء اور انسانی تہذیب و تمدن کی بقاء کیلئے درخت ناگزیر ہیں تو کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کیونکہ انسانی زندگی کا انحصار پانی اور نباتات پر ہے جہاں پانی اور نباتات کے وسائل کا تحفظ نہ کیا گیا وہاں بربادی اور ویرانی نے ڈیرے آجمائے۔ ہم سائنسدان نہیں مگر سائنس کے ساتھ ہمارا انتہائی قریبی رابطہ و تعلق ہے جسے توڑنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہم یہ ناطہ جوڑنے اور اسے نبھانے پر بہرطور مجبور ہیں۔ البتہ ایک ذمہ دار شہری ہونے کی حیثیت سے ہم جنگلات اور شجرکاری کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں سال میں چودہ دن نہیں بلکہ پورا سال ہی درخت لگانے اور ان کی حفاظت کی مہم جاری رکھنی چاہیے۔ درختوں کی بہتات زمین کو پانی اور ہوا کے تخریبی عمل سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ درخت فصلوں کو گرم ہوا اور آندھی سے بچاتے ہیں۔ سیلابوں کی روک تھام کرتے ہیں اور اس طرح قومی معیشت کے استحکام میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ زمین بردگی کے باعث زمین کا وسیع حصہ پیداواری صلاحیت سے محروم ہوچکا ہے اور بعض علاقوں میں تو رہنے والوں کو نہ تو دھرتی سے کھانا نصیب ہوتا ہے اور نہ پینے کیلئے اچھا پانی۔ ان مسائل کے حل کے لیے ہمیں زیادہ سے زیادہ رقبہ پر درخت لگانے کی ضرورت ہے۔
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب