علامہ اقبال عشق رسولﷺ سے سرشار تھے۔ 2020

تحریر: شیخ محمد انور 2020
فون نمبر: 0333-2250719
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
علامہ اقبال عشق رسولﷺ سے سرشار تھے۔
علامہ اقبال اپنی شاعری سے بڑے انسان تھے۔
علامہ اقبال کی فکر کی روشنی میں ہمیں مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔
چینی دانشوروں کے نزدیک کلام اقبال مظلوموں کیلئے پیغام بیداری ہے۔
آج پوری قوم مصور پاکستان حضرت علامہ اقبالؒ کا یوم ولادت نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منارہی ہے۔ اگرچہ قوم ہر سال یوم اقبال مناتے ہوئے تعلیمات اقبال سے فیض حاصل کرنے کا روایتی عہد کرتی ہے مگر اس وقت قوم جن مسائل ومشکلات سے دوچار ہے ان سے عہدہ برآہونے کیلئے پہلے کی نسبت کہیں زیادہ اقبال و قائد کے افکار و خیالات کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ مقاصد حاصل ہوسکیں جو قیام پاکستان کی تحریک کے دوران میں اسلامیان برصغیر کے پیش نظر تھے۔ علامہ اقبال سیالکوٹ کے کشمیری گھرانے میں 9 نومبر 1877؁ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم کا نام شیخ نور محمد تھا جو کہ نہایت ہی متقی اور پرہیزگار انسان تھے اور عاشق قرآنِ حکیم تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم ایک مکتب میں حاصل کی۔ اس کے بعد سکول میں داخل ہو کر سکول کا امتحان پاس کیا اور اس کے بعد مرے کالج میں داخل ہوئے۔ اسی ادارے میں سید میر حسن جیسے شفیق اُستاد سے پڑھنے کا موقع ملا اور ان کی بدولت علامہ اقبال میں شعر و شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کرنے کے بعد آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور یہیں سے بی اے اور ایم اے کیا اور ایران کے فلسفہ مابعدالطبیعات پر ایک مبسوط مقالہ رقم کیا جس پر جرمنی کی مشہور میونخ یونیورسٹی نے انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی۔ جرمنی سے انگلستان آکر انہوں نے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ لندن یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر بھی رہے۔ جس دور میں اقبال نے ایک علیحدہ اسلامی مملکت کے قیام کا تصور پیش کیا تھا وہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے انتہائی کٹھن مرحلہ تھا، مسلمان مایوس اور انگریز و ہندو کے دوہرے شکنجے میں گرفتار تھے۔ ان کی ہزار سالہ عظمت خاک میں مل چکی تھی اور انہیں اپنا مستقبل خاصہ تاریک نظر آتا تھا۔ اقبال نے اس صورتحال کے ازالے کیلئے نہ صرف ایک قابل عمل حل پیش کیا بلکہ رہنمائی کے فقدان سے دوچار قوم کیلئے ایک ایسے قائد کی نشاندہی بھی کی جو صحیح معنوں میں بیدار مغز، صاحب کردار اور عزم و استقامت کا پہاڑ ہونے کی شہرت رکھتا تھا۔ علامہ اقبال نے اپنے مشہور خطبات اور دوسری تحریروں میں جو نظریہ پاکستان پیش کیا وہ واضح طور پر ایک ایسی آزاد، خود مختار اور ہر قسم کے معاشی، معاشرتی، قانونی اور مذہبی استحصال سے پاک مملکت کا تصور تھا جو جدید اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست ہو۔ اقبال ہر قسم کی عربی و عجمی ملاوٹ سے پاک اسلام کی تعلیمات کو اس مملکت کا اساسی نظریہ قرار دیتے تھے جو اگرچہ اپنی روح میں ریاست مدینہ کی خوبیوں کی حامل ہو مگر جدید دور میں معاشی اور معاشرتی ارتقاء اور انسانی تجربات سے جو حقائق جنم لے چکے ہیں اور جن کو نظرانداز کرکے اس عہد میں کوئی ریاست اپنے ہم عصروں سے ممتاز و منفرد نہیں ہوسکتی۔ آج ہم جن مشکل اور پیچیدہ مسائل سے دوچار ہیں ان پر قابو پانے کی بہترین صورت یہ ہے کہ ہم اقبال کی تعلیمات کو عملی جامہ پہنائیں۔ شاعری کی عظمت کا انحصار اس شاعر کی اپنی شخصیت پر ہوتا ہے۔ کوئی شاعر جو خود عظیم نہیں وہ عظیم شاعری کی تخلیق نہیں کرسکتا۔ اقبال کو ہم صرف ایک عظیم شاعر اور آرٹسٹ ہی تصور نہیں کرتے بلکہ ان کے متعلق یہ بات بہت مشہور ہے کہ وہ عشقِ رسولﷺ سے سرشار تھے اور متعدد بار اُن کو نبی اکرمﷺ کی زیارت بھی ہوئی۔ جن لوگوں نے اقبال کو ان کی زندگی میں دیکھا ہے اور ان سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے۔ ان کا یہ مشاہدہ تھا کہ پیغمبر اسلامﷺ کا نام آتے ہی اقبال بچوں کی طرح بلک بلک کر رونا شروع کردیتے تھے اور ان میں ایسی کیفیت پیدا ہوجاتی تھی جس کو بیان کرنا ممکن نہیں۔ اقبال کے متعلق اور ان کی شاعری کے آغاز کے یوم سے ہی ان کے خلاف ان کے حاسدوں نے جھوٹی افواہوں کا میدان گرم کررکھا تھا۔ چنانچہ اقبال کے متعلق یہ اتہام اور تہمت تراشی کی مہم ان کے انتقال کے بعد آج تک جاری ہے اور یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے نصاب میں سے علامہ اقبال اور ان کے افکار کو بالکل ختم کردیا گیا ہے اور اقبال ڈے کی چھٹی بھی ختم کردی گئی ہے، وہ قومیں ہمیشہ رسوا ہوجاتی ہیں جو اپنے اکابرین اور اُن کے احسانات کو بھلا دیتی ہیں۔ علامہ اقبال ایک انتہائی پاکباز، پاک دین اور پاک انسان تھے۔ اُن کی زندگی کی رفعتیں ان کے کلام سے منعکس ہوتی ہیں اور ان کے متعلق یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی شاعری سے بھی ایک عظیم تر انسان تھے۔ اقبال ایک انقلابی شاعر ہیں وہ مسلمان کو ہر غیر الٰہی طاقت اور ہر طاغوتی طاقت کے خلاف کھڑا کرکے صرف خدا سے وفا شعاری کا راستہ سکھلاتے ہیں۔ وہ انگریز کے دور کے بنائے ہوئے معاشرے اور اس کی اقدام فیوڈلزم سرمایہ داری نوکر شاہی اور دین سے انحراف کے تمام مظاہروں کے سخت خلاف اور دشمن تھے۔ وہ اس اسلام کے پیروکار تھے جو انسان کو ہر قسم کی غلامی سے نجات دلاکر صرف خدا کا بندہ بناتا ہے۔ پاکستان کے حکمران شروع سے آج تک اقبال سے خائف ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اقبال کی تعلیمات میں ان کی موت مضمر ہے، اس لیے انہوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قوالیوں اور ”عرس“ کا موضوع بنارکھا ہے۔ ایران میں جس اسلامی انقلاب نے دنیا کے سامنے ایک عظیم چیلنج پیش کیا ہے، ایران کے حکمرانوں کے اپنے الفاظ کے مطابق وہ اقبال کی تعلیمات کا مرہون منت ہے۔ پاکستان کی تحریک ابتدائی دور میں قائد اعظم کی زیرقیادت کی تعلیمات اس تحریک کی روح رواں تھی۔ قیام پاکستان کے بعد اور قائد اعظم کے رخصت ہونے کے بعد پاکستان جاگیرداروں، وڈیروں اور سیاستدانوں کی اجارہ داری میں آگیا اور انہوں نے اقبال کی تعلیمات کو مٹانے کیلئے ہر ممکن کوشش روارکھی۔ اس کا حل تو یہ ہے کہ مساجد کے امام اور علماء کرام اقبال کے پیغام کو سمجھ کر اس کے کلام کو آگے لے کر بڑھیں تاکہ پاکستان توہمات، رسومات، فرقہ واریت، علاقائیت اور اس طرح کی دوسری خرافات سے نجات حاصل کرسکے۔ حکیم الامت کے کلام میں جہاں سوزوسازودردوغم،جدت و اجتہاد،نازک خیالی، روانی و صفائی، پاکیزگی و دلنشینی،تاثیرودل آویزی، فطرت نگاری، شیریں کلامی فصاحت اور فراست ملتی ہے، وہاں غلامی کی لعنت کا احساس، جذبہ حریت کی بلندی خودی سے شناسائی، جذبہ جہاد، عزم و استقلال، قیام مرکز، عظمت و جلال، حرکت و عمل، ولولہ و جوش اور انسانی عظمت و بزرگی کا پیغام عظیم بھی ملتا ہے۔ ایک عالمگیر پیغام دیتے ہوئے علامہ اقبال خصوصاً مسلمان نوجوانوں کو کبھی فراموش نہیں فرماتے، آپ کے کلام میں جگہ جگہ نوجوانوں سے خطاب کیا گیا ہے جس میں علامہ اقبال ملک و ملت کے نوجوانوں کو جذبہ جہاد، محنت، مشقت، جرأت و ہمت اور عزم و استقلال کی تعلیم دیتے ہیں۔ وہ نوجوانوں کو ایک سچا اور حقیقت پسند مسلمان دیکھنا چاہتے ہیں۔ علامہ اقبال کو صوفیائے کرام، اولیائے کرام، مشائخ عظام، بزرگان دین اور اسلام کے نامور سپہ سالاروں سے بڑی گہری محبت اور عقیدت تھی۔ حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندی(مجدد الف ثانی) اور حضرت محبوب الٰہیؒ کے مزارات مقدسہ پر آپ جس چاہت و محبت اور احترام و عقیدت کے ہمراہ حاضر ہوتے۔ ان واقعات کا تذکرہ آپ کی تصنیفات میں موجود محفوظ ہے۔ اقبالؒ نے جہاں ان بزرگوں سے خود استفادہ فرمایا وہاں ان کی تعلیمات اپنی زبان سے پیغام کی صورت میں ہم تک بھی پہنچائی ہیں۔ حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ کی تعلیمات اور ان سے محبت و چاہت کے تذکرے سے آپ کی تصنیفات بھری پڑی ہیں۔ آج کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی اکثریت کو مغربی ادب و شاعری سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ بعض تو مغربی تعلیم و تہذیب اور مطالعے کو اپنا انسانیت اور شرافت کی معراج تصور کرتے ہیں۔ حضرت علامہ اقبالؒ کو نوجوانوں سے بڑی محبت اور اُن سے بہت امیدیں تھیں۔ اُنہوں نے اپنے کلام میں جابجا نوجوانوں کو عزم و ہمت، کوشش و جستجو، حوصلہ مندی، استقلال جدوجہد اور جوش عمل کی تعلیم دی ہے۔ وہ کبھی ٹیپو سلطان کی زبان میں اپنا پیغام دیتے ہیں اور کبھی خوشحال خان خٹک کی زبانی اس تعلیم کو عام کرتے ہیں۔ عالم انسانیت کے شاعر اور اسلامک انٹرنیشنلزم کے داعی ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر علامہ اقبالؒ دنیائے ادب میں جو نمایاں مقام رکھتے ہیں چین کی انقلابی حکومت نے 1949؁ء میں اپنے قیام کے بعد ہی اسے تسلیم کرلیا تھا۔ علامہ اقبال صرف برصغیر پاک و ہند کے شاعر ہی نہیں بلکہ انکے کلام میں نوع انسانی کے جذبات کی ترجمانی کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین میں بھی ان کا کلام مقبول ہوا۔ اپریل 1975؁ء میں پیکنگ سے علامہ اقبال کی نظموں پر مشتمل چینی زبان میں ایک کتاب ”اقبال کی منتخب نظمیں“ شائع ہوئی جسے چائنہ پیپلز ایسوسی ایشن نے شائع کیا۔ علامہ اقبال نے یہ کتاب اور اس کتاب میں موجود تمام نظمیں اُردو میں کہی تھیں، کتاب کی ابتداء میں علامہ اقبال کی سوانح حیات کا ایک مختصر ساخاکہ درج ہے جس میں ان کی زندگی اور افکار پر روشنی ڈالی گئی ہے مگر افسوس ہے کہ کمیونسٹوں نے اقبال کو اپنا لیا اور ہم نے اپنے محسن کو بھلا دیا جس کی وجہ سے آج ہمارے اندر سے حریت پسندی ختم ہوگئی اور آج کا مسلمان بے راہ روی کا شکار ہوگیا۔ ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا، ہمیں اقبال کے افکار کو نئی نسل میں عام کرنا چاہیے تاکہ نوجوانوں کو احساس ہو کہ پاکستان کن قربانیوں سے حاصل کیا تھا نہ کہ کسی ہندو بنیہ نے ہمیں پلیٹ میں رکھ کے دیا تھا۔ کیا حسن اتفاق ہے کہ 31 اکتوبر کو غازی علم دین شہید (عاشق رسولﷺ) کا یوم شہادت تھا اور اُس عاشق رسولﷺ کو میانوالی کے نامعلوم قبرستان سے لاہور لانے کا اعزاز بھی علامہ اقبال کو حاصل ہے جنہوں نے اُس وقت کے گورنر کو یہ ضمانت دی کہ ان کے جنازے میں کسی قسم کی ہنگامہ آرائی نہیں ہوگی اور ایسا ہی ہوا کہ اُن کے جنازے میں کسی قسم کی ہنگامہ آرائی نہ ہوئی، اُس وقت لاہور کی کل آباد ی 2لاکھ تھی جبکہ اُن کے جنازے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی اور اُن کو لحد میں اُتارنے والے بھی حضرت علامہ اقبالؒ عاشق رسولﷺ تھے۔ پاکستان کے قیام میں اہم کردار ادا کرنے والے پاکستان کا خواب دیکھنے والے عظیم مفکر 21 اپریل 1938؁ء کو لاہور میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے، آپ کا مزار لاہور کے شاہی قلعے کے باہر بادشاہی مسجد کے قریب ہے۔ روزانہ سینکڑوں لوگ آپ کے مزار پر فاتحہ خوانی کیلئے آتے ہیں۔

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے