تحریر: شیخ محمد انور(ریلویز) 2021ء
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
فاتح بیت المقدس، سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ
”مجھے نہیں معلوم کہ اسلام تلوار سے پھیلا ہے یا اخلاق سے، لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ اسلام کی حفاظت کیلئے تلوار کی ضرورت پڑتی ہے۔
صلاح الدین یوسف ۲۳ ہجری بمطابق ۷۳۱۱ء قلعہ تکریت عراق میں پیدا ہوئے۔اس کا باپ نجم الدین ایوب بن داذی اور اس کا چچا سدالدین شیر کوہ دو ہی شخص ہیں جنہوں نے ملک العادل نور الدین زنگی سے تقرب حاصل کرکے خاندان ایوبہ کردیہ کی بنیاد رکھی۔ اس خاندان کا نام کردیہ ان کی قوم کی نسبت سے ہے۔ یہ قوم کردوں کی قوموں میں اشرف مانی جاتی ہے اور ایوبیہ نجم الدین ایوب کے نام کی رعایت سے کہاجاتا ہے۔ ۴۷۱۱ء میں صرف ۷۳ برس کی عمر میں صلاح الدین ایوبیؒ سلطان مصروشام بنے۔ اگلے چند برسوں میں ہی ان کے نام کا ڈنکا پوری دنیا میں بجنے لگا۔ امت مسلمہ میں جو عزت و مقام آپ کو دیا جاتا ہے وہ صلیبی جنگوں سے لے کر آج تک کسی اور حکمران کو نصیب نہیں ہوا۔ صلیبی اور عیسائی فوجوں میں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کی اس قدر دہشت تھی کہ عیسائی مائیں اپنے بچوں کو ان کا نام لے کر ڈرایا کرتی تھیں۔ اس مجاہد کے بدترین دشمن صلیبی بھی سلطان کیلئے اچھے الفاظ استعمال کرنے پر مجبور تھے۔ مسلم رومانوی ادب، لوک داستانوں، حتیٰ کہ عیسائی ادب میں بھی صلاح الدین ایوبیؒ کو ایک دیومالائی حیثیت ہے۔ وہ شکست اور ذلت کہ جو سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے ہاتھوں صلیبیوں کو اُٹھانی پڑی، آج بھی ان کے دلوں میں غیض و غضب کی آگ بھڑکاتی رہتی ہے۔ ۰۲۹۱ء میں پہلی جنگ عظیم کے بعد کہ جب فرانسیسی جنرل ہینری گوراڈ بیت المقدس فتح کرکے شام پہنچا تو سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کی قبر پر جا کر گستاخانہ انداز میں لات ماری اور پھر سلطان کو مخاطب کرکے متکبرانہ انداز میں یہ کہتا ہے:”صلاح الدین! ہم یہاں پہنچ گئے ہیں، اب ہمیں روک کر دکھاؤ۔ آج صلیب نے ہلال پر فتح حاصل کرلی ہے“۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تقریباً ایک ہزار سال بعد بھی صلیبیوں کے دلوں میں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے خلاف نفرت کی آگ بھڑک رہی ہے اور وہ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے ہاتھوں اُٹھائی گئی ذلت کو فراموش نہیں کرسکے۔ چونکہ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کا تعلق کردقوم سے تھا، لہٰذا کردوں کو سزا دینے کیلئے پہلی جنگ عظیم کے بعد مغربی قوتوں نے کردوں کو مختلف ممالک میں تقسیم کرکے بھی ان سے انتقام لیا۔ جس زمانے میں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ شام میں فتوحات حاصل کررہے تھے، اس وقت مسلم دنیا میں کوئی بھی ان کے پائے کا حکمران نہیں تھا، گو کہ شہاب الدین غوریؒ، سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے ہم عصر ہیں۔ اس دور میں شہاب الدین غوریؒ ہند میں فتوحات حاصل کررہے تھے۔ شہاب الدین غوریؒ وہ پہلے افغان مسلمان سپہ سالار ہیں کہ جنہوں نے پرتھوی راج چوہان کو شکست دے کر دہلی پر پہلی اسلامی حکومت قائم کی۔ آپ کا یہ دور حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کا دور ہے اور خود سلطان شہاب الدین محمد غوریؒ بھی حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ سے فیض لیا کرتے تھے۔ گوکہ شہاب الدین غوریؒکے کارنامے بھی شاندار ہیں مگر صلاح الدین ایوبیؒ کو ان سے کہیں زیادہ بڑے اور طاقتور دشمن کا سامنا تھا۔ اس دور میں کہ جب ایک افغان مسلمان سپہ سالار ہندوستان فتح کررہا تھا تو دوسری جانب ایک کرد مسلمان سپہ سالار صلیبیوں کے خلاف امت مسلمہ کے دفاع اور بیت المقدس کی آزادی کیلئے برسرپیکار تھا۔ ان دونوں سلطانوں کا آپس میں بظاہر تو کوئی ظاہری رابطہ نہ تھا، مگر فطرت ان دونوں مجاہدین سے اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے حیرت انگیز کام لے رہی تھی۔ سلطان شہاب الدین محمد غوریؒ کی اس مہم سے آئندہ آنے والے آٹھ سو سال تک ہندوستان میں اسلامی ریاست قائم ہوئی اور آج جتنے بھی مسلمان برصغیر پاک و ہند میں بستے ہیں ان پر سلطان شہاب الدین محمد غوریؒ کا یہ احسان ہے۔ دوسری جانب سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کی جنگی مہم سے اگلے نوسوسال تک بیت المقدس شریف ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کے قبضے میں آگیا اور امت مسلمہ کا ایسا دفاع کیا گیا کہ مصر، شام اور عراق آج تک مسلمان خطے اور امت مسلمہ کے وجود کا حصہ ہیں۔ گوکہ آج اکیسویں صدی کے آغاز میں ایک مرتبہ پھر یہ تمام علاقے ایک اور صلیبی یلغار کی زد میں ہیں اور آج امت مسلمہ ایک اور صلاح الدین کی منتظر! ۷۴۹۱ء کی عرب اسرائیل جنگ میں نوسوسال کے بعد یہودی اس قابل ہوئے کہ بیت المقدس شریف پر قبضہ کرسکیں۔ آج بیت المقدس پھر کسی صلاح الدین ایوبیؒ کا منتظر ہے۔ فلسطینی بچے اسرائیلیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آج بھی یہ ترانہ پڑھتے ہیں: ”ہم مسلمانوں کے بیٹے ہیں! ہم میں سے ہر ایک سلطان صلاح الدین ایوبی ہے“۔ ایسے دور میں کہ جب مسلمان دنیا مسلسل صلیبی یلغار کی زد میں تھی اور مسلمانوں کا سیاسی اقتدار بکھرتا چلا جارہا تھا، اس وقت مسلمانوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنے والا، نہ صرف مسلمان بلکہ دشمن کی بیٹیوں کے سروں پر چادر رکھنے والا بھی سلطان صلاح الدین ایوبیؒ ہی تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ ایک ایسا فقیر اور درویش انسان تھا کہ جب انتقال ہوا تو ترکے میں صرف گھوڑا اور جھنڈا ہی پایا گیا اور دوسری جانب ایسا شاندار سلطان کہ پوری دنیا میں اس کے نام کا رعب اور دبدبہ تھا۔ مسلمانوں کی حفاظت کرنے، ان کا خیال رکھنے اور ان کیلئے اپنی جان تک کی پرواہ نہ کرنے میں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کا کوئی ثانی نہ تھا۔ بلاشبہ اس مجاہد نے اپنی تلوار کا حق ادا کیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے جنگی کارنامے اس قدر حیرت انگیز ہیں کہ اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ اس وقت یورپ، انگلستان، فرانس اور جرمنی کے بادشاہ اپنی تمام تر فوجوں کے ساتھ بیس سال تک فلسطین پر حملہ آور ہوتے رہے اور سلطان صلاح الدین ایوبیؒ تن تنہا ان کے مقابلے پر چٹان بن کر کھڑے رہے۔ یہ غیر معمولی عسکری ذہانت، جرأت، بہادری اور دلیری کا ایسا نمونہ ہے کہ جس کی کوئی مثال مشرق و مغرب میں نہیں ملتی۔ یہاں ہم اس مبارک وجود کے حوالے سے صرف دو مثالیں دینا چاہیں گے۔ ایک عیسائی صلیبی جنرل نے مسلمانوں کے ایسے قافلے کو لوٹ لیا کہ جو معاہدہ امن کے دوران حج کیلئے جارہا تھا۔ جب اس نے قتل و غارت گری مچائی اور قافلے والوں کو قیدی بنالیا تو ایک قیدی نے اس سے التجا کی کہ تمہارا مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ ہے لہٰذا ہمیں مت چھیڑو۔ اس پر صلیبی جنرل نے بہت بدتمیزی اور گستاخی سے کہا کہ اب اپنے نبیﷺسے کہو کہ تمھیں آکر بچائیں اور پھر اس گستاخ نے تمام مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کردیا۔ یہ خبر جب سلطان صلاح الدین ایوبیؒ تک پہنچی تو وہ جلال میں آگئے اور فیصلہ کیا کہ جب بھی جنرل ان کے ہاتھ آیا وہ اس کو اپنے ہاتھوں سے قتل کریں گے۔ جنگ حطین کے بعد جنرل کو بھی بادشاہ کے ساتھ گرفتار کرکے سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے سامنے پیش کیا گیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے برف سے سرد کیا ہوا پانی منگوایا اور بادشاہ کو پیش کیا۔ بادشاہ نے وہ پیالہ پی کر جنرل کی طرف بڑھا دیا۔ یہ دیکھ کر سلطان صلاح الدین ایوبیؒ جلال میں آگئے اور بادشاہ سے کہا کہ اس کو یہ پانی تم نے پلایا ہے، میں نے نہیں۔ اس کے بعد جنرل کو اس کے وہ گستاخانہ الفاظ یاد دلائے جو اُس نے قافلہ لوٹنے کے دوران ایک مسلمان کو کہے تھے۔ بڑے جلال میں جنرل سے فرمایا کہ ”میں اللہ کے رسولﷺ کی آبرو کی حفاظت کیلئے موجود ہوں“۔ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے اس کو ایک موقع دیا اور اسلام قبول کرنے کی پیشکش کی، جب اُس نے انکار کیا تو آپ نے اپنی تلوار سے اُس کی گردن اُڑا دی۔ یہ سب دیکھ کر بادشاہ پر دہشت طاری ہوگئی۔ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے اس کو تسلی دی اور کہا کہ بادشاہ بادشاہوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک نہیں کرتے لیکن اس جنرل نے گستاخی کی وہ حد پار کردی تھی کہ مجھے اس کا سر اپنے ہاتھوں سے قلم کرنا پڑا۔ صلیبی جنگیں تاریخ کی سب سے زیادہ خونریز جنگیں تصور کی جاتی ہیں۔ ان جنگوں میں فیصلہ کن کردار قیادت کا ہوتا تھا۔ نصف درجن سے زائد یورپی بادشاہ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے مقابلے پر آئے۔ اگر یورپی بادشاہوں سے سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے کردار کا موازنہ کیا جائے تو زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے سینکڑوں کی تعداد میں جنگیں لڑیں۔ بیت المقدس فتح کرنے سے قبل سلطان کی جنگی حکمت عملی یہ تھی کہ اس کے آس پاس کے تمام علاقوں اور قلعوں کو فتح کرلیا جائے اور وہ سپلائی لائن توڑ دی جائے کہ جو عیسائیوں کو بیت المقدس شریف کے اندر کمک پہنچا رہی تھی۔ جب سلطان صلاح الدین ایوبیؒ فاتحانہ طور پر بیت المقدس شریف میں داخل ہوئے اور مسجد اقصیٰ اور گنبد صخرہ پہنچے تو یہ ۷۲ رجب کا دن تھا، یعنی وہ دن کہ جب حضورﷺ اسی مقام سے معراج پر تشریف لے گئے تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے مقام اور ان کی درویشی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جب سلطانؒ کا انتقال ہوا تو ان کا جھنڈا اور گھوڑا کہ جو ان کے ترکے میں نکلے، خلافت بغداد کو تبرکاً روانہ کیے گئے۔ اس وقت پوری امت مسلمہ میں صف ماتم بچھ گئی۔ ایک مؤرخ نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ چاروں خلفائے راشدین کے انتقال کے بعد امت مسلمہ پر پڑنے والی سب سے بڑی مصیبت سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کا انتقال تھا۔
روزنامہ جرأت(10 مارچ 2021ء، صفحہ نمبر4)
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب