لندن۔۔۔! آبادی کے لحاظ سے یور پی اتحاد کا بڑا شہر 2020

تحریر: شیخ محمد انور
فون نمبر: 0333-2250719
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
لندن۔۔۔!
آبادی کے لحاظ سے یور پی اتحاد کا بڑا شہر
دنیا کے ممتاز تجارتی، ثقافتی اور سیاحتی مرکز کی ترقی اور خوشحالی کو اجاگر کرتی ایک تحریر
لندن، انگلستان اور متحدہ ریاست برطانیہ کا دارالحکومت اور سب سے زیادہ گنجان آباد شہر ہے۔ دریائے ٹیمز کے ساتھ آباد ہے۔ لندن گزشتہ دو صدیوں سے اس خطے میں آبادکاری کا مرکز رہا ہے۔ اس شہر کی بنیاد رومیوں نے رکھی۔ جنہوں نے اس کا نام لنڈینیم رکھا۔ اس آبادی کے قیام سے آج تک لندن بہت سی تحریکوں اور عالمگیر واقعات کا مظہر رہا ہے۔ جس میں انگریزی کا ارتقاء، صنعتی انقلاب اور قدیم رومیوں کا احیا بھی شامل ہے۔ جس میں اب بھی قرون وسطیٰ کی حدود نظر آتی ہیں، تاہم کم از کم اُنیسویں صدی سے نام ”لندن“ اُن تمام علاقوں تک پھیل گیا جو اس کے اطراف و اکناف میں آباد ہوئے تھے اور آج آبادیوں کا یہ ہجوم لندن برطانیہ کے علاقوں اور عظیم لندن کے انتظامی علاقے اور مقامی طور پر منتخب ناظم اور لندن دستورساز مجلس کا حامل ہے۔ لندن دنیا کے ممتاز تجارتی، معاشی اور ثقافتی مراکز میں سے ایک ہے اور دنیا بھر کی سیاسی، تعلیمی، تفریحی، صحافتی، فیشن اور فنون لطیفہ اس کے گہرے اثرات، اس کے بین الاقوامی شہر ہونے کے شاہد ہیں۔ یہ شہر اندرون ملک و بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ لندن بہت قسم کے لوگوں، مذاہب اور ثقافتوں کا گہوارہ ہے۔ اس شہر میں تین سو سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ یہ آبادی کے لحاظ سے یورپی اتحاد کا سب سے بڑا شہر ہے۔ دنیا کے خوبصورت ترین ملک انگلینڈ کے شہر ”لندن“ میں معاشرتی مسائل کی نشاندہی اور عوامی مشکلات کا جائزہ لینے کیلئے وہاں کی حکومت سماجی و فلاحی تنظیمیں اور عوام جس قومی جذبہ سے سرگرم عمل رہتے ہیں اس کا اندازہ مجھے لندن کی سیر کے دوران ہوا۔ میں اپنے بھتیجے شیخ عقیل احمد کی دعوت پر لندن گیا۔ میرا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے۔ جب میں نے لندن جانے کا پروگرام بنایا تو میرے بڑے بھائی اکبر حسین نے مجھے کہا کہ بیٹا آپ جا رہے ہیں تو ضرور جائیں لیکن وہاں جا کر اپنی نظر کی حفاظت کرنا، نمازوں کا اہتمام کرنا اور وہاں کے کلچر کو اپنے اوپر مسلط نہ کرنا۔ جانے سے پہلے میرے ذہن میں لندن کے بارے میں عجیب قسم کے وسوسے تھے۔ لیکن جب میں وہاں پہنچا تو میں نے یکسر تبدیلی دیکھی۔ وہاں پر ہر آدمی اور ہرعورت اپنے کام میں مصروف، نہ تو میں نے پاکستان کی طرح سڑکوں اور گلی کوچوں میں نوجوانوں کو کھڑے دیکھا اور نہ ہی میں نے کسی کالج اور یونیورسٹی کے باہر آوارہ لڑکوں کو دیکھا جو کہ پاکستان میں بہت عام ہے۔ میں لندن کے ایک علاقے بارکنگ میں قیام پذیر تھا۔ میں صبح سیر کرنے کیلئے باہر نکلتا تو مجھے قریب ہی ایک بلڈنگ کے باہر قطار میں لگے ہوئے لوگ نظر آتے، چند روز گزرنے کے بعد میں نے اپنے بھتیجے سے کہا کہ بیٹا یہ کیا معاملہ ہے؟ یہاں پر لوگ خاموشی سے لائن میں لگے ہوتے ہیں تو وہ مجھے اپنے ہمراہ اُس بلڈنگ کے پاس لے آیا۔ اُس نے مجھے کہا اس بلڈنگ پر دیکھو کہ اوپر کیا لکھا ہوا ہے، جب میں نے دیکھا تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ وہاں پر لکھا ہوا تھا ”عمر لاء“ جس معاشرے کو ہم تنگ نظری سے دیکھتے ہیں اُس معاشرے کی فلاح آج دراصل بنیادی طور پر عدلِ فاروقی کی وجہ سے ہے۔ وہاں کے ممبران پارلیمنٹ، مقامی فیکٹریوں، دکانوں، مارکیٹوں اور دفاتروں میں دورہ کرتے ہیں تاکہ اُنہیں اپنی عوام کے مسائل کا قریب سے جائزہ لینے کا موقع مل سکے۔ یہ ممبران عوام میں گھُل مل کر ان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مزدور اور ملازم پیشہ افراد کے درمیان کونسی دیوار حائل ہے۔ ممبران یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کہیں دُکاندار قیمت وصول کرنے کے باوجود سودا کم تو نہیں تول کر دیتا، ممبران فیکٹریوں اور دفاتر میں اس بات کا اندازہ بھی لگاتے ہیں کہ کہیں مالک کا مزدور پر اور مزدور کا مالک پر غیرضروری دباؤ تو نہیں؟ وہ اپنی ملکی معیشت کو استحکام بخشنے والے یہ عوامی نمائندے زندگی کے ہر شعبے کا جائزہ لیتے ہیں جس پر قومی اور ملکی ترقی کا دارومدار ہوتا ہے۔ انگلینڈ غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کے منتخب عوامی نمائندوں نے معاشرے کو مضبوط بنانے کا عہد اور کوشش اپنے عمل سے ثابت کی ہے ورنہ دنیا کے بیشتر عوامی نمائندے جنہیں عوام منتخب کرکے پارلیمنٹ تک بھجواتے ہیں، اپنے عوام کی توقعات پر کم ہی پورے اترتے ہیں۔ لیکن جو عملی کردار انگلینڈ کے پارلیمنٹ کے ممبران ادا کرتے ہیں وہ دنیا کے ترقی پسند ممالک کیلئے قابل تقلید ہے۔ وہاں کے ممبران کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہمیں اسلامی روایات کی ایک واضح جھلک نظر آئے گی۔ انگلینڈ کی ترقی، خوبصورتی اور استحکام کا راز وہاں کے عوام، حکومت اور ان کے سرکاری اداروں کے سر بھی ہے جن کے نزدیک ملکی فلاح و بہبود اہم ترین فریضہ ہے۔ اس ملک کی سب سے بڑی خوش نصیبی یہ ہے کہ وہاں ”لوڈشیڈنگ“ اور بجلی چوری کرنے کی قطعی گنجائش نہیں۔ وہاں کچی سڑکوں کو منصوبہ وار پکا کرنا، تعمیر شدہ سکولوں کو لاوارث چھوڑنا، کوڑا کرکٹ اور گندے پانی کے نکاس کیلئے منصوبے تیار کرنا اور صرف فارمولوں پر غور کرنے کا بھی رواج نہیں۔ وہاں پٹواری، قانون گو اور تحصیلدار نہیں ہوتے مگر انکم ٹیکس انسپکٹر اور پولیس انسپکٹر ضرور ہوتے ہیں۔ پولیس کا کوئی چھوٹا بڑا یا کیپیٹل چیف بھی عوام کا خادم تصور ہوتا ہے۔ رشوت کو وہ لوگ ناقابل تلافی انتہائی سنگین جرم تصور کرتے ہیں۔ میں نے لندن سے مانچسٹر اور برامنگھم تک ٹرین پر سفر بھی کیا جو کہ قابل دیدنی ہے۔ بغیر ٹکٹ اور پلیٹ فارم ٹکٹ کے بغیر اسٹیشن پر جانے کا کوئی تصور نہیں۔ آٹومیٹک گیٹ پر جب آپ ٹکٹ لگاتے ہیں تو گیٹ کھل جاتا ہے اور فوری طور پر بند بھی ہوجاتا ہے۔ میں نے لندن سے مانچسٹر کیلئے جب بس پر سفر کیا تو وہ روڈ موٹروے کی طرح ہے لیکن سب سے خوبصورت چیز یہ کہ جس طرح ہمارے ملک میں موٹروے پر جنگلا لگا ہوا ہے، اسی طرح وہاں پر بھی جنگلا لگا ہوا ہے مگر اُنہوں نے اُس جنگلے میں بھیڑ بکریاں چھوڑی ہوئی ہیں، قدرتی ہریالی بھی ہے اور فارمنگ بھی ہورہی ہے۔ میرے بھتیجے نے بتایا کہ ہمیں ٹیلی فون لگوانا، بجلی کا میٹر لگوانا اور پانی کا کنکشن حاصل کرنے کیلئے کسی کو نذرانہ دینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کھیلوں، کلبوں اور ٹیموں میں سیاست نہیں، وہاں قومی ٹیموں کے انتخاب میں اقربا پروری یا سفارشی کھلاڑیوں کا انتخاب نہیں کیا جاتا۔ وہاں کی عوام معیار اور خوبی کو اولین درجہ دیتے ہیں۔ اتنا خوبصورت اور سرد ملک ہوتے ہوئے بھی وہاں کے لوگ دودھ میں پانی نہیں ملاتے، ان کے نزدیک ملاوٹ، دھوکہ دہی اورذخیرہ اندوزی بھی سنگین جرائم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انگلینڈ کی حکومت اور عوام اجتماعی طور پر اپنے مسائل کا حل خود تلاش کرتے ہیں۔ انگلینڈ کی عوام حکومت میں نمائندگی کیلئے ایسے افراد کا چناؤ کرتے ہیں جو ذاتی مفادات پر قومی اور ملکی مفادات کو ترجیح دے سکیں۔ ایسے ہی قومی مفادات کا تحفظ اور معاشی مسائل کے موثر حل کیلئے وہاں کے ممبران پارلیمنٹ میدان عمل میں اُترتے رہتے ہیں۔ وہاں کے ممبران اپنے بیروزگاروں کو حکومت کی طرف سے دیے ہوئے بے روزگاری الاؤنس سے متعلق پائے جانے والے ان تاثرات کے خلاف عملی ثبوت فراہم کرتے ہیں جن میں محدود الاؤنس سے گزارا کرنا مشکل ہے۔ وہاں میری پارلیمنٹ کے ایک ممبر سے ملاقات ہوئی تو میں نے اُن کو کہا کہ یہاں پر عوام کا یہ تاثر ہے کہ بیروزگار افراد غربت اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ یہ سراسر آپ کی مبالغہ آرائی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ آپ ایک ہفتہ اپنے خاندان کے ساتھ کونسل کے مکان میں بے روزگاری الاؤنس لے کر گزارا کریں اور ثابت کریں کہ اس الاؤنس میں گزارا مشکل ہے جو کہ میرے نزدیک ناممکن ہے۔ ہماری حکومت کو چاہیے کہ وہ حکومت برطانیہ سے درخواست کریں کہ پاکستانی سیاحوں کو ترجیحی بنیادوں پر ویزہ جاری کریں تاکہ وہ وہاں کی سیاحت کے ساتھ ساتھ وہاں کے رہن سہن، نظم و ضبط اور عوام کی خوشحالی کو دیکھ سکیں۔وہاں کی بس اور ٹرین میں حاملہ عورت، معذور افراد اور بزرگوں کی نشست مختص ہوتی ہے جس پر ان لوگوں کے علاوہ اور کوئی نہیں بیٹھ سکتا۔ الحمدللہ نماز مسجد میں ادا کرنے جاتا تھا تو اکثر وبیشتر ایک جماعت کے تھوڑی دیر بعد دوسری جماعت کھڑی ہوتی تھی۔ جب میں نے وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ مسجدیں کم ہیں اور نمازی زیادہ ہیں اس لیے اکثر مسجدوں میں دو بار جماعت کروانی پڑتی ہے جبکہ قریباً ہر مسجد میں جمعہ کی نماز بھی دو بار ادا کی جاتی ہے۔ یہ بات بہت حیران کُن تھی کہ مسجدوں میں حافظ قرآن بچے بہت زیادہ ہیں اور ماہ رمضان میں ہر روز تراویح میں کئی کئی بچے قرآن پاک سناتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو قرآن سنانے کا موقع مل سکے۔ وہاں کی عوام چیریٹی میں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے اور خواتین اور مرد بچے لائنوں میں لگ کر چیریٹی کیلئے پاؤنڈ دیتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ زندگی نے وفا کی تو اگلے سال دوبارہ انگلینڈکی سیر کروں گا۔ میں ایک دن اپنے بھتیجے کے ہمراہ ایک سڑک سے گزررہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ ایک سائیکل سوار آدمی جس کے پیچھے اُس کا بریف کیس رکھا ہوا تھا اور سائیکل کے آگے پولیس کا ایک آفیسر موٹرسائیکل پر پائیلٹ کررہا تھا۔ میں حیران ہوا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ تو عقیل نے مجھے بتایا کہ یہ ہمارے ملک کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر ہیں اور آج دفتر میں کام کی وجہ سے دیر ہوگئی، یہاں پر ڈرائیور کو ڈیوٹی کے بعد پابند کرنے کا کوئی تصور نہیں، اس لیے اب یہ اپنی سائیکل پر گھر جا رہے ہیں۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ یہاں کی حکومت بھی خوشحال ہے اور عوام بھی خوشحال ہیں۔ میں نے لندن میں ایک ماہ قیام کیا اور اس دوران وہاں پر پروٹوکول نام کا کوئی کلچر نہیں دیکھا۔ خدا کرے کہ میرے وطن عزیز میں بھی پروٹوکول کا کلچر ختم ہوجائے اور بطور اقبال
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے