تحریر: شیخ محمد انور 2020
ای میل: sheikhmanwarW@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
مہنگائی کا عفریت اور صحت عامہ کی بگڑتی صورتحال
ملک میں موسم تو قدرے سرد ہے اور دن بدن سرد ہوتا جا رہا ہے اور محکمہ موسمیات کے مطابق پچاس سال کا ریکارڈ اس دسمبر کے اختتام تک ٹوٹ جائے گا۔ حتیٰ کہ کراچی میں بھی شدید سردی کی لہر آئی ہوئی ہے۔ شہر قائد کراچی کے لوگ جوکہ آج کل سردی کی لہر کی وجہ سے سخت پریشان ہیں اور سنا ہے کہ سردی کی وجہ سے صبح کا ناشتہ بازاز سے لانا بھول چکے ہیں اور دفاتروں میں بھی ملازمین کی واضح کمی نظر آ رہی ہے۔ لیکن بعض افراد کے رویوں کے باعث گرما گرمی بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ایک طرف تو ملک بھر میں کرونا کے وار جاری ہیں، آئے دن کسی نہ کسی دوست کے کرونا وبا میں مبتلا ہونے کی اطلاع ملتی رہتی ہے تو دوسری طرف ملک کے بڑے بڑے شہروں میں پی ڈی ایم کے جلسے جلوسوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور سنا ہے کہ اب وہ ملک میں غیراعلانیہ ہڑتال کا اعلان بھی کرنے والے ہیں اور سینیٹ کے الیکشن کی وجہ سے تحریک انصاف کی واضح نظر آنے والی جیت کی وجہ سے سیاست میں ایک دم گرما گرمی کا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔ ایک طرف کشمیر میں بھارتی فوج کی بڑھتی ہوئی جارحیت کی وجہ سے کشمیر کے محاذ پر صورتحال دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے تو دوسری طرف عوام سیاستدانوں کی ہٹ دھرمی اور نااتفاقی کی وجہ سے ذہنی پریشانی کا شکار ہیں۔ عوام کی بدقسمتی ہے کہ وہ حالات کی چکی میں ہر طرف سے پس رہے ہیں۔ کبھی اسٹیل مل کی تالابندی اور ملازمین کی چھٹی، کبھی پی آئی اے میں گولڈن ہینڈ شیک کے نعرے، کبھی گیس اور بجلی کی بندش یا پھر ان کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ، گزشتہ دنوں موجودہ وفاقی وزیر ریلوے اعظم خان سواتی نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریلوے کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنا پڑے گا یا پھر اس کو بھی اسٹیل ملز کی طرح بند کرنا پڑے گا۔ شاید اُنہیں اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ یہ کوئی عام ٹرانسپورٹ کا ادارہ نہیں ہے بلکہ یہ ملک کا اہم دفاعی ادارہ ہے۔ دہشت گردی کا عفریت ہو یا مہنگائی کا جن حکومت کے فیصلوں کا پرنالہ عوام کی طرف ہی ہوتا ہے۔ چند روز قبل صوبہ کے پی کے، کے ایک سرکاری ہسپتال میں آکسیجن سلنڈر نہ ہونے کی وجہ سے کرونا کے چھ مریضوں کی جان چلی گئی کیونکہ وینٹی لیٹر کام نہیں کررہے تھے۔ آخر کب تک لوگ اسی طرح سرکاری ہسپتالوں میں بے یارومددگار اپنی زندگی کی بازیاں ہارتے رہیں گے؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اب تک وزیر اعلیٰ کے پی کے اس کوتاہی کے مرتکب افراد کے خلاف سخت ایکشن لے چکے ہوتے لیکن محض چھوٹے درجے کے ملازمین کو معطل کرنا ہمارے ملک کی ایک روایت بن چکی ہے۔ جب تک اسلامی جمہوریہ پاکستان جو کہ کلمے کے نام پر بنا تھا اور اسلامی سزائیں اور اسلامی قانون نافذ نہیں ہوگا تب تک موٹروے پر ریپ کے مزید واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔ سنا ہے ایک طرف تو کے پی کے ہسپتال میں لوگ مر رہے تھے اور دوسری طرف ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل سٹاف خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ پاکستان کے حساس ترین صوبہ بلوچستان کے سرکاری ہسپتال میں گُل خان کے بیٹے پہاڑ خان کے ساتھ چند سال قبل پیش آیا تھا۔ گل خان کے بیٹے پہاڑ خان کے پیٹ میں شدید درد کے باعث اسے ہسپتال لایا گیا تھا لیکن باپ سے جب بیٹے کی یہ حالت دیکھی نہ گئی تو اس نے جاکر ایک ڈاکٹر کی منت سماجت کرنے کی کوشش کی مگر ڈاکٹر پر گل خا ن کی کسی بات کا اثر نہ ہوا اور اس نے یہ کہہ کرعلاج کرنے سے انکا رکر دیا کہ ہم ہڑتال پرہیں۔ یہ صرف ایک مریض کی صورتحال ہے ملک بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں روزانہ سیکڑوں مریض ڈاکٹروں کی اس بے رحمانہ ہڑتال کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ آپریشن تھیٹر سے لیکر ایمر جنسی تک سبھی خرچہ مریض کو خود برداشت کرنا پڑتا ہے۔ مریض علاج کیلئے ہسپتالوں کی راہداریوں پر بیٹھے دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔ یہ حکومت کی کیسی بے حسی ہے؟ محکمہ صحت بھی سیاست کا شکار نظر آتا ہے۔ میں اپنی تحریروں میں اکثر ایک بات کا ذکر کرتا رہتا ہوں کہ یہ ملک مختلف قسم کے پڑھے لکھے مافیاز کے زیر عتاب آچکا ہے۔ کبھی وکلاء تو کبھی ڈاکٹر ز تو کبھی اساتذہ سڑکوں پر آکر حکومت کے خلاف اعلان بغاوت کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹری ایک مقدس اور اعلیٰ تعلیم یافتہ پیشہ ہے۔ لیکن ڈاکٹرز اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ انہیں درد اور تکلیف سے بلکتے بچوں اور بڑے بوڑھوں کا کوئی خیال نہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ لوگ اپنے مطالبات کیلئے احتجاج کا راستہ اختیار نہ کریں۔ ہاں اس ملک میں اپنے حق کیلئے آواز بلند کرنا ہرشہری کا حق ہے لیکن آپ اپنی اس جنگ میں مریضوں کو تو قربانی کا بکرا نہ بنائیں۔ کچھ عرصہ قبل پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور کے ڈاکٹروں اور وکلاء کے درمیان لڑائی جھگڑے کی وجہ سے کئی روز ہڑتال رہی جس کے باعث مریضوں کو شدید پریشانی اور مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ایک وقت تھا جب شعبہ صحت کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، لوگ ڈاکٹروں کو مسیحا کے نام سے جانتے تھے لیکن کچھ ڈاکٹروں نے چند روپوں اور مطالبات کی خاطر بھیڑیوں کا روپ دھار لیا ہے جوکہ اب انسانیت کے دشمن بن چکے ہیں۔پرائیویٹ ڈاکٹروں کی فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا ہے۔ دواساز کمپنیوں سے مراعات کی خاطر ان کی مہنگی دوائی لکھ کر جس طرح غریب مریضوں کا معاشی استحصال کیا جاتا ہے وہ لمحہئ فکریہ ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسیوں میں لوگ تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں اور یہ ڈاکٹر ہڑتال کی کال دے کر انسانیت کی بے بسی کا تماشا دیکھتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کی ہڑتال اب پورے ملک میں وبائی بیماری کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ کبھی لاہور میں ہڑتال تو کبھی کراچی کے ڈاکٹرز سڑکوں پر کبھی راولپنڈی کے ڈاکٹرز مطالبات پورے نہ ہونے پر ڈیوٹی پر نہیں ہیں۔ ڈاکٹروں کی ہڑتال میں ہمارے ملک کے میڈیا نے بھی کسی حد تک منفی کرادار ادا کیا ہے۔ میڈیا نے ہڑتالی ڈاکٹروں کی کوریج کرکے ان کے انسانیت دشمن پیغام کو پورے ملک میں طول دینے میں اہم کرادر ادا کیا ہے۔ جو خاصا تشویشناک ہے۔ ملک میں کہنے کو تو جمہوریت ہے لیکن یہ جمہوری دور حکومت عوامی مسائل میں کسی بھی صورت کمی نہیں لا سکا۔ صحت کا شعبہ جس طرح بدحالی کا شکار ہے اس سے ایک ہی چیز کا پتہ چلتا ہے کہ نہ ہماری ماضی کی حکومتوں نے عوام کو علاج معالجے کی بہتر سہولیات دینے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کام کیا اور ناہی موجودہ حکومت ابھی اس حوالے سے خاطرخواہ کام کر سکی ہے۔ قائد تحریک انصاف عمران خان سے ابھی تک عوام بہت سی امیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہیں کہ ملک میں حقیقی تبدیلی آئے گی۔ عام آدمی جو ایک عرصے سے مسائل کی چکی میں پستا آیا ہے اسے ریلیف کی ضرورت ہے۔ عوامی مسائل کے حل کے لیے کسی سائنس کی ضرورت نہیں ہے بس تھوڑی توجہ کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم صاحب!آپ کے پاس طاقت اور اقتدار ہے۔ آپ کے پاس وزیروں اور مشیروں کی ایک فوج ہے جس کا صحیح استعمال کرتے ہوئے آپ ملک و قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ اقتدار میں آنے سے قبل اپنے انتخابی جلسوں میں بھی آپ اکثر یہ بات کہتے تھے کہ آپ کے پا س ایک ٹیم ہے جس کے ذریعے عوام کو مشکلات سے چھٹکارہ دلائیں گے، لیکن اب جبکہ آپ اقتدار میں ہیں لیکن آپ کی ٹیم ہر معاملے میں ناکام نظر آتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف قریباً اڑھائی سال کا عرصہ معاملات کو سمجھنے اور تجربات میں گزار چکی ہے اور باقی اڑھائی سال بھی شاید اسی طرح ہی گزریں گے۔ اب بھی وقت ہے ملک بھر کے سرکاری ہسپتالوں کی حالت بدلنے کی کوشش کی جائے۔ ملک میں آئے روز مہنگائی کے باعث جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں جو ہوشربا آضافہ ہوتا جا رہا ہے اس سے عام آدمی کی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ تحریک انصاف تو اپنے نام کی طرح انصاف پر مبنی ایک تحریک ہے۔ تحریک انصاف کا منشور تو یہی کہتا ہے کہ عوام کو ہر ممکن ریلیف دیا جائے۔ شاید وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وزرااپنے منشور کو بھول گئے ہیں۔
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب