پانی میں ڈوبے کراچی کا نوحہ 2020

تحریر: شیخ محمد انور(ریلویز) 2020

ای میل: sheikhmanwar@gmail.com

فون نمبر: 0333-2250719

پانی میں ڈوبے کراچی کا نوحہ

قیام پاکستان کو 73برس بیت گئے شہر قائد م یں نکاسیِ آب کا نظام صحیح خطوط پر اْستوار نہ ہو سکا

کراچی کے مسائل ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ حالیہ بارشوں کے بعد شہرِ قائد جس طرح پانی میں ڈوبا ہوا ہے، ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ کراچی میں بارشوں  کے باعث جو نقصان ہوا وہ لمحہئ فکریہ ہے۔ بارش کی وجہ سے کراچی شہر کے بیشتر رہائشی اور کاروباری علاقوں میں پانی کھڑا ہو گیا ہے جبکہ نشیبی علاقے کئی کئی فٹ پانی میں ڈوب گئے ہیں۔ شہر کے زیادہ متاثرہ علاقوں میں گلشنِ حدید، سرجانی ٹاؤن، ملیر ندی سے ملحقہ علاقے، کورنگی، لانڈھی، ڈیفنس، منظور کالونی، ملیر، شاہ فیصل کالونی، اورنگی ٹاؤن، آئی آئی چندریگر روڈ، صدر، کھارادر، نارتھ کراچی، ناگن چورنگی، گلبرگ، بفرزون، عزیز آباد اور لیاقت آباد شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ڈیفنس سوسائٹی، گزری، کیماڑی، سعدی ٹاؤن، قائد آباد اور گلستان جوہر کے علاقے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ کراچی پاکستان کا تجارتی دار الحکومت ہے اور جی ڈی پی کے بیشتر حصہ کا حامل ہے۔ قومی محصولات کا قریباً 65 فیصد کراچی سے حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان کے تمام سرکاری و نجی بینکوں کے دفاتر کراچی میں قائم ہیں۔ جن میں سے قریباً تمام دفاتر پاکستان کی وال اسٹریٹ آئی آئی چندریگر روڈ پر قائم ہیں۔ ملک بھر سے لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی آتے ہیں اور اس وجہ سے یہاں مختلف مذہبی، نسلی اور لسانی گروہ آباد ہیں۔ کراچی کو اسی وجہ سے چھوٹا پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ ان گروہوں کی باہمی کشیدگی کی وجہ سے 80 اور 90 کی دہائیوں میں کراچی لسانی فسادات، تشدد اور دہشت گردی کا شکار رہا۔ اکیسویں صدی میں تیز قومی معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ کراچی کے حالات میں بہت تبدیلی آئی ہے۔ کراچی کی امن عامہ کی صورت حال کافی بہتر ہوئی ہے اور شہر میں مختلف شعبوں میں ترقی کی رفتار میں بہت اضافہ ہوا۔ کراچی کے مسائل کا بغور جائزہ لیا جائے تو بہت سی وجوہات سامنے آتی ہیں۔ اگر فی الحال بارش کے باعث حالیہ تباہی کی بات کی جائے تو سندھ حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کا بھی قصور نظر آتا ہے۔ کراچی دنیا میں تیزی سے پھیلتے ہوئے شہروں میں سے ایک ہے اس لیے اسے بڑھتی ہوئی آبادی، ٹریفک، آلودگی، غربت، دہشت گردی اور جرائم جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ اس وقت کراچی کا سب سے اہم مسئلہ ندی نالوں پر بننے والی ناجائز تجاوزات اور ان کی صفائی ہے۔ پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح سیاست دانوں اور سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے کھلی جگہوں پر ناجائز تجاوازات کی تعمیر کا مسئلہ کراچی میں بھی عوام اور آنے والی نسلوں کے لیے پریشان کن ہے۔ کراچی میگا پولیٹن شہر ہونے کے باوجود اتنا بدقسمت ہے کہ قیامِ پاکستان کو 73 برس گزرنے کے باوجود اس کا کوئی ماسٹر پلان نہیں بن سکا ہے۔ حالاں کہ اس شہر کو ملک کا پہلا دارالحکومت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ شہری منصوبہ بندی کے ماہرین کے مطابق شہر کا ماسٹر پلان نہ ہونا اس شہر کے زیادہ تر مسائل کی جڑ ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شہر کا نکاسیِ آب کا نظام جب تک صحیح خطوط پر اْستوار نہیں ہو گا، تب تک بارش یونہی رحمت سے زحمت بنتی رہے گی۔ شہر قائد میں قریباً 374 ندے نالے ہیں جن میں 42 چھوٹے بڑے نالوں کو صاف رکھنے اور ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بلدیہ عظمٰی کراچی کی ہے۔ باقی نالے ضلعی بلدیات، کے ڈی اے اور کنٹونمنٹ بورڈز کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ ملیر اور لیاری ندیاں جو اب نالیاں بنتی جا رہی ہیں۔ لیاری ندی، گجر نالا، ملیر ندی اور اورنگی نالا شہر کے فطری مرکزی نالے یا ڈرین ہیں۔ اہم سوال یہ بھی ہے کہ ملیر اور لیاری ندی میں ہونے والی لاکھوں تجاوزات کو کون ختم کرے گا؟ اسی طرح ملیر ندی میں متعدد رہائشی پروجیکٹ زیر تعمیر ہیں اور بہت سے تعمیر ہو چکے ہیں جس سے ندی کی چوڑائی اور گہرائی بھی کم ہو چکی ہے۔ جب متعلقہ ادارے اور ضلعی بلدیات کچرا اٹھانے اور مروجہ طریقہ کار کو ٹھکانے لگانے کے بجائے ندی نالوں میں بہائیں گے اور نالوں پر یونہی قبضے کیے جاتے رہیں گے تو بارشوں  کے بعد ایسے حالات پیدا ہونا یقینی بات ہے۔ اگر بلدیہ کرچی کی تاریخ کی بات کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس کا آغاز 1933ء میں ہوا۔ ابتدا میں شہر کا ایک میئر، ایک نائب میئر اور 57 کونسلر تھے۔ 1976ء میں بلدیہ کراچی کو بلدیہ عظمیٰ کراچی بنا دیا گیا۔ 2005ء میں مقامی حکومتوں کے انتخابات میں سید مصطفیٰ کمال نے کامیابی حاصل کی اور نعمت اللہ خان کی جگہ کراچی کے ناظم قرار پائے جبکہ نسرین جلیل شہر کی نائب ناظمہ قرار پائیں۔ مصطفیٰ کمال ناظم کا عہدہ سنبھالنے سے قبل صوبہ سندھ کے وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی تھے۔ ان سے قبل کراچی کے ناظم نعمت اللہ خان 2004ء اور 2005ء کے لیے ایشیا کے بہترین ناظمین میں سے ایک قرار پائے تھے۔ مصطفیٰ کمال نعمت اللہ خان کا شروع کردہ سفر جاری رکھتے ہوئے شہر میں ترقی میں کافی تیزی سے کام کیا۔ لیکن 2010ء کے بعد کراچی شہر میں بلدیاتی نظام کے خاتمے کے بعد سے شہر کی ترقی کافی حد تک رک سی گئی تھی لیکن 2015ء میں عام انتخابات کے بعد سے نئی حکومتوں کے بعد شہر کی تعمیر و ترقی کا دوبارہ سے آغاز تو ہوا لیکن اصل مسائل اب بھی جوں  کے توں  ہی ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیت ہے کہ ملک میں  جب بھی مون سون کے موسم کا آغاز ہوتا ہے شہر ِ قائد کے باسی پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں، کیونکہ ندی نالے گندگی، کوڑا کرکٹ اور تجاوزات کے باعث سکڑ چکے ہیں اور بارش کے باعث کسی بھی وقت اربن فلڈ کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔کراچی کے عوام ایک عرصے سے اس عذاب سے گزرتے آرہے ہیں اور ہر برس سرکاری حکام طفل تسلی اور بیانات کے ذریعے انہیں بہلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ اس برس بھی شہر کے باسیوں کو برسات کی وجہ سے طویل ٹریفک جام ہونے، جگہ جگہ برسات کا پانی جمع ہونے اور گھروں، دفاتر اور دکانوں میں پانی داخل ہونے کا عذاب جھیلنا پڑ رہا ہے۔

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے