آرٹیکل محمد عظیم فرید گیٹ مین شہید ٹوبہ ٹیک سنگھ

اللہ جزائے خیر دے نوائے وقت کے دوستوں کو کہ جو ایک ایسے غریب محنت کش کی آواز بنے جس نے اپنے فرض کی ادائیگی میں اپنی جان آفرین کے سپرد کردی۔ ہوا یوں کہ مورخہ21 مئی 2016؁ء کی گرم صبح تھی 9بجنے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا سورج اپنی آب و تاب سے چمک رہا تھا، موسم خاصا گرم تھا۔ وہ ٹوبہ ریلوے اسٹیشن کے پھاٹک پر اپنی ڈیوٹی پر مستعد کھڑا تھا۔ اچانک گھنٹی بجنا شروع ہوگئی، اُس نے بھاک کر لاک میں سے چابی نکالی، پہلے ایک جانب اور پھر دوسری جانب کا گیٹ بند کرکے اُسے تالا لگایا اور چابی دوبارہ واپس سائیڈ لاک میں لگادی تاکہ سگنل ڈاؤن ہوسکے۔ کیبن مین نے بروقت سگنل ڈاؤن کردیا۔ابھی وہ اس ذمہ داری سے فارغ ہوا ہی تھا کہ اُس نے دوسرے گیٹ کی جانب دیکھا کہ ایک خاتون اپنے دونوں کانوں میں ہینڈ فری لگائے ہاتھ میں موبائل فون پکڑے ٹریک کو کراس کررہی تھی، اسی اثنا میں لاہور سے کراچی جانے والی شالیمار ٹرین اُس خاتون کے سرپہنچ گئی۔ اُسے خاتون کی موت یقینی دکھائی دینے لگی۔ اُسی لمحے اس نے فوری طور پر فیصلہ کیا اور شور مچاتا ہوا خاتون کی طرف بھاگا اور اُسے دھکا دے کر ریلوے لائن سے دوسری جانب پھینک دیا مگر اس افراتفری میں وہ خود کو نہ سنبھال سکا اور انجن کے ساتھ ٹکرا کر اپنی جان دے دی اور شہادت کے رتبے سے سرفراز ہوگیا۔ یہ غریب ریلوے ملازم کی اپنے فرض کیلئے زیادہ سے زیادہ قربانی تھی جو کہ وہ پیش کرسکتا تھا مگر اس قربانی کی کسی کو کان و کان شہر میں خبر نہ ہوسکی۔ نہ وہ حالات کسی کے علم میں آسکے جن سے عظیم کی شہادت کے بعد اُس کے بچوں اور بیوہ کو دوچار ہونا پڑا۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب اللہ تعالیٰ نے راقم الحروف کو یہ توفیق دی کہ وہ عظیم آفریدی کے اہلِ خانہ کی آواز بن کر اُس کا عظیم کارنامہ اور اس کے اہلِ خانہ کی دکھ بھری داستان کو ضبط تحریر میں لائے۔ جسے نوائے وقت سنڈے میگزین کے انچارج خالد بہزاد ہاشمی نے 27 نومبر کے سنڈے میگزین میں شائع کرکے صورتحال سے عوام اور اربابِ اقتدار کو آگاہ کیا۔ نوائے وقت میگزین میں اس داستان کا چھپنا تھا کہ ضلعی انتظامیہ اور سیاسی قوتیں حرکت میں آگئیں مگر افسوس کہ ادارے کے علاوہ کسی نے اُن کی کوئی مالی مدد نہ کی۔ ماسوائے پنجاب یونیورسٹی کے سابق صدر برادرم امیرالعظیم صاحب کے چھوٹے بھائی اشرف عظیم نے پچاس روپے دئیے۔ الحمدللہ ریلوے انتظامیہ جو کہ پہلے ہی دن سے اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ تھی اُس میں بھی مزید تیزی آگئی۔ لاہور ڈویژن کے ڈویژنل ٹریفک آفیسر شجاعت علی اور اے او فیصل آباد چوہدری شبیر فوری طور پر شیخ انور کے ہمراہ اُن کے گھر پر پہنچے۔ بیوہ کو تسلی دی، بچوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا اور فوراً ہی اُن کے واجبات کی ادائیگی کیلئے کوششیں شروع کردیں۔ اسی اثناء میں راقم الحروف کی درخواست پر فوری طور پر اُس وقت کے ڈی ایس راؤ وقار احمد شاہد نے عظیم آفریدی کا نام ستارۂ جرأت کیلئے Recommend کرکے جنرل مینیجر / چیف ایگزیکٹیو آفیسر پاکستان ریلوے کو بھجوا دیا۔ اسی دوران راؤ وقار احمد شاہد صاحب ٹرانسفر ہوگئے اور اُن کی جگہ آنے والے ڈی ایس سفیان ڈوگر نے وزیر اعظم پیکج کے تحت اُن کے بیٹے تجمل حسین کو والد کی جگہ پر ٹوبہ ریلوے اسٹیشن کے اُسی پھاٹک پر تعینات کردیا اور وزیر اعظم پیکج کے چھ لاکھ روپے اور پینشن کے تمام واجبات بیوہ کواُس کے گھر پر پہنچا دئیے۔ مرحوم کا کوارٹر بھی اُس کی بیوہ کے نام ٹرانسفر کردیا گیا۔ وہ آج اُسی جھونپڑی میں سُکھ کے ساتھ زندگی بسر کررہی ہے جہاں وہ اپنے شوہر کے زیرسایہ زندگی گزارا کرتی تھی اور اُس کے بچے کھیلا کودا کرتے تھے۔ تجمل آج اُسی ریلوے پھاٹک پر وہی لیور کھینچ رہا ہے اور اپنے اہلِ خانہ کی پرورش کررہا ہے جسے پہلے اُس کا باپ عظیم کھینچا کرتا تھا۔ تجمل نہایت سعادت مند بیٹا ہے اور سرکاری نوکری کے ساتھ ساتھ اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قریبی مسجد میں پانچ وقت کی نماز کی امامت بھی کرواتا ہے اور خطبہ جمعہ کے ذریعے دین کی تعلیمات سے مقامی آبادی کو روشناس بھی کرواتا ہے۔ نوائے وقت میں عظیم آفریدی کی جرأت اور بہادری کی اشاعت کے باعث اُس کا کارنامہ اقتدار کے ایوانوں تک بھی پہنچا اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے اُس کی قربانی اور بہادری کا اعتراف کرتے ہوئے وزیراعظم کو باقاعدہ تحریری سفارش بھیجی ہے کہ فرض کی ادائیگی پر جان نچھاور کرنے والے گوہرنایاب عظیم آفریدی جیسے فرض شناس ملازم کی قربانی کی قدر کی جائے اور اُسے وفاقی حکومت تمغہ شجاعت اور نقد انعام کا اعلان کرے۔ توقع ہے کہ وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب میاں محمد نوازشریف اس سفارش کو جلد عملی جامہ پہنائیں گے۔
تحریر: شیخ محمد انور
مرکزی سینئر نائب صدر پاکستان ریلوے پریم یونین سی بی اے
فون نمبر: 0300-9481002

کیٹاگری میں : Column

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے