تحریر: شیخ محمد انور(مرکزی سینئر نائب صدر پاکستان ریلوے پریم یونین سی بی اے)
اقوامِ متحدہ برماروہنگیا میں مسلمانوں کی مدد کیلئے امن فوج فوری طور پر بھیجے
روہنگیا کے معاملے پر عالمی برادری کا دوہرا معیارکیوں؟
جب میں یہ تحریر لکھنے بیٹھا تو مجھے الخدمت فاؤنڈیشن کے صدر عبدالشکور صاحب کا بنگلہ دیش سے بذریعہ Whatsapp پیغام وصول ہوا، میں اُن کی گفتگو کو تحریر میں لاناانتہائی ضروری سمجھتا ہوں۔اُنہوں نے بتایا کہ کل ہم کوکرس بازار پہنچے اور یہاں آنے کے بعد ہم نے طے کیا کہ ہم اُس علاقے میں جائیں گے جہاں روہنگین، مظلومین اور مہاجرین موجود ہیں۔ یہ ایک لمبا سفر تھا، ہم وہاں پہنچے تو جو مناظر ہم نے دیکھے وہ بالکل ناقابلِ بیان تھے، بڑی تعداد میں اب بھی لوگ ننگے پاؤں، ننگے جسم وہاں سے ہجرت کرکے آرہے ہیں اور اُن کا کوئی ٹھکانہ موجود نہیں ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو ہم نے درجنوں کی تعداد میں سڑک پر روتے ہوئے اورچیختے ہوئے دیکھا اور ناقابلِ بیان چیزیں کہ بارش ہو تو اُن کے پاس کوئی چھتری موجود نہیں ہے، چھت موجود نہیں ہے، سینیٹیشن کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ تھوڑے سے علاقہ میں اگر دو سے تین لاکھ افراد موجود ہوں تو اُن کو اپنی ضروریات کیلئے، سینیٹیشن کیلئے جانا ہو تو وہ کیا کریں گے؟ یہ افسوس ناک اور دردناک چیزیں ہیں کہ جو چیز میں میڈیا کے ذریعے دنیا میں بالخصوص پاکستانی عوام تک پہنچانا چاہتا ہوں کہ الحمدللہ الخدمت فاؤنڈیشن یہاں کے پارٹنرز کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے اور جو کام ہونے والے ہیں اُن میں چار چیزیں تو بہت ہی اہم ہیں، جس میں سب سے پہلے خوراک، ادویات اور علاج معالجہ (خاص طور پر چھوٹے بچے جو کہ بارش اوراوس کی وجہ سے زیادہ متاثر اور بیمار ہورہے ہیں) تیسرا بڑا مسئلہ سینیٹیشن کا ہے لاکھوں کی تعداد میں لوگ کہاں جائیں اپنی ضروریات کیلئے۔ چوتھابڑا مسئلہ پینے کیلئے صاف پانی کا ہے جو کہ وہاں موجود نہیں ہے۔ لہٰذا وہاں پر ہینڈ پمپ اور پانی کے کنویں کھودنے کیلئے سروے کیاجارہا ہے۔
برما جنوب مشرقی ایشیا میں واقع ہے۔ اس کا رقبہ اڑھائی لاکھ مربع میل ہے۔ دارالحکومت رنگون ہے۔ ایک اندازے کے مطابق آبادی سات کروڑ ہے جس میں سے اکثریت کا تعلق بدھ مذہب سے ہے۔ 1996ء میں برما کا سرکاری نام تبدیل کرکے میانمار رکھ دیا گیا۔ اس وقت اس ملک کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ کسی زمانے میں چاول برآمد کرنے والے بڑے ملکوں میں اس کا شمار ہوتا تھا لیکن بدانتظامی اور کرپشن سے تجارت بری طرح متاثر ہوئی اورآج برما کی جی ڈی پی کی شرح اس وقت دنیا میں کم ترین سطح پر ہے۔ 1886ء سے 1948ء تک برما پر برٹش راج رہا۔ صوبہ اراکان بنگلہ دیش کے ساحلی شہر چاٹگام سے متصل ہے۔
آج برما میں مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ڈھایا جا رہا ہے دُنیا میں اس کی کہیں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ دنیا کے کسی حصے میں کسی بھی اقلیت کے ساتھ وہ ظلم، جبر اور تشدد نہیں ہورہا جو آج برمی مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے۔ برما کے مسلمانوں کو برما میں ایک جگہ سے دوسری جانب جانے پر بھی پابندیاں عائد ہیں۔ نہ تو انہیں سرکاری ملازمت مل سکتی ہے، یہاں تک کہ مسلمانوں پر شادی کرنے پر بھی پابندی ہے۔ اس کی اجازت بھی سرکار سے لینی پڑتی ہے۔ خواہش مند جوڑے کو حکومتی اہلکاروں کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے اور ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ شادی کی خواہش میں لڑکی ان درندہ صفت سرکاری اہلکاروں کے ہاتھوں اپنی عزت گنوا بیٹھی۔ اس کے علاوہ بچے پیدا کرنے پر بھی پابندی ہے اور ملک میں کئی بار مسلم کش فسادات بھی ہوئے لیکن بین الاقوامی برادری نے کبھی کوئی نوٹس نہیں لیا۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق میانمار کے روہنگیا کے مسلمانوں پر مظالم میں ایک بار پھر شدت آچکی ہے چنانچہ بچوں اورخواتین سمیت روزانہ درجنوں مسلمانوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ میانمار کی فوج کے ساتھ بدھ مت ملیشیا بھی مسلمانوں پر حملہ آور ہونے اور ان کے گھروں کو نذر آتش کرنے کے انسانیت سوز فعل میں ملوث ہیں۔
بنگلہ دیش کی حکومت نے اب تھوڑی سی نرمی کی ہے اور تنظیموں کو کام کرنے کی اجازت دی ہے۔ جو لوگ جان بچا کر آگئے ہیں اگرچہ مشکل صورتحال میں ہیں لیکن بہرحال خوف سے باہر نکل آئے ہیں۔لیکن اب بھی چار لاکھ روہنگین اپنے علاقے کے اندر پہاڑوں میں موجود ہیں اور اس خطرے میں مبتلا ہیں کہ کسی بھی وقت اُن کو زندہ جلایا جا سکتا ہے یا ذبح کیا جا سکتا ہے۔ اُن کی مدد کیلئے بھی مختلف ذرائع استعمال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ برما میں بچوں کے سرقلم کیے جارہے ہیں۔ مسلمانوں کے گھروں کو نذرِ آتش کیا جارہا ہے، کسی کا بیٹا غائب، کسی کی بیٹی غائب، کسی کی ماں غائب، کسی کا باپ غائب، میانمارحکومت کو دہشتگرد قرار دیا جائے۔ آسیاں اور اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کی خاموشی سمجھ سے بالا تر ہے۔ روہنگیا کے مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنا اُمت مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔
میانمار میں مسلمانوں کے قتل عام کا جو انسانیت سوز سلسلہ جاری ہے اس کے تناظر میں عالمی برادری کے مہذب اور انسان دوست حلقوں کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ روہنگیا کے مظلوم، بے آسرا اور بے قصور مسلمانوں کی بلاتاخیر مدد کیلئے عملی اقدامات کریں۔ انہی سطور میں ہم عالم اسلام کے نام نہاد قائدین پر بھی زور دے کر کہیں گے کہ رسمی بیانات اور سفارتی سطح پر مذمت کا وقت گزر چکا۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ عالم اسلام کی نمائندہ تنظیم (اوآئی سی) کو کبوتر کی طرح آنکھ بند نہیں کرنی بلکہ عملی جدوجہد اور نعرہ تکبیر کو بلند کرنا چاہییں اور یہ سامنے رکھنا چاہیے کہ عراق، لیبیا، شام، یمن اور افغانستان تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں جبکہ تیل اور دیگر بے پناہ وسائل سے مالا مال آج مسلمان ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ آج مسلمان رسوا ہیں۔ میں یہ لکھنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ جب حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں مسلمان بکریاں چرایا کرتے تھے تو آدھی دنیا میں اُن کی حکومت تھی اوراُسی دور کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ چرواہے کا بکرا بھیڑیے نے کھا لیا تو وہ چیخ اُٹھا کہ امیرالمومنین آج اس دنیا میں نہیں رہے۔ جس کی وجہ سے آج بھیڑیے کو یہ جرأت ہوئی ہے۔ لہٰذا او آئی سی، سعودی عرب پاکستان کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ چھوٹے سے ملک مالدیپ کے فیصلے کی تقلید کرتے ہوئے اپنے ملکوں سے برما کے سفیروں کو نکال دیں اور ترکی کے صدر طیب اردگان کے ساتھ مل کر فیصلہ کن کال دی جائے اور ہر طرح کے سفارتی اور تجارتی تعلقات ختم کیے جائیں۔روہنگیا کے مسلمانوں کی بھرپور اخلاقی اور مالی مدد مستقل طور پر کی جائے۔ میں وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان شاہد خاقان عباسی سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ترک صدر طیب اردگان کے ہم آواز ہو کر برمی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی اور اُن پر ہونے والے مظالم کے خلاف سرکاری طور پر کمپین چلائیں، برمی حکومت کو انتباہ کیا جائے اوراگر برمی حکومت نہ مانے تو پھر محمدبن قاسم کی طرح برما کو منہ توڑ جواب دیا جائے۔ پاکستان کے بیس کروڑ عوام آپ کی پشت پر ہوں گے۔
تحریر: شیخ محمد انور(مرکزی سینئر نائب صدر پاکستان ریلوے پریم یونین سی بی اے)
فون نمبر: 0300-9481002 ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب