الکاسب حبیب اللہ ”مزدور اللہ کا دوست“ 2019

الکاسب حبیب اللہ ”مزدور اللہ کا دوست“
اسلام مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے قبل اُجرت کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے۔
کاش یکم مئی کے موقع پر وزیر اعظم عمران خان ملک بھر کے تمام اداروں میں کام کرنے والے TLA ملازمین اور PM پیکج میں کام کرنے والے بچے اور بچیوں کو مستقل کرنے کا اعلان کریں۔
ملکی معیشت کے استحکام کا انحصار مزدوروں کی خوشحالی پر منحصر ہے۔ 8 کروڑ مزدوروں کی نمائندگی کیلئے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مزدوروں کا کوئی بھی نمائندہ موجود نہیں؟
آج کی خوبصورت دنیا محنت کشوں کے مرہونِ منت ہے۔ وہ اپنی محنت سے کارخانوں، صنعتی اداروں اور مفادِ عامہ کے اداروں مثلاً ریلوے، ٹیلیفون، پوسٹل، گیس، ریڈیو، ٹرانسپورٹ، زرعی میدانوں میں، کھیتوں، کانوں اور باغات میں زرعی پیداوار قوم کیلئے مہیا کرتے ہیں بلکہ اب حکمرانوں اور معاشرے پر فرض ہے کہ وہ ان کی نہ صرف محنت کا احترام کی قدروں کو بلند کریں بلکہ ان کی جائز بنیادی ضروریات کو معقول فراہمی کا انتظام کریں۔اسی لیے سرکارِ دوعالم نے کہا کہ اپنے ہاتھوں سے کام کرنے والا اللہ کا اور میرا دوست ہے اور اُسے اَلْکَاسِبُ حَبِیْبُ اللّٰہ کا خطاب دیا۔ یکم مئی کو دنیا بھر کے تمام مزدور محنت کی عظمت کے پرچم ہاتھوں میں لیے جلسے جلوس اور دیگر تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں، یکم مئی دنیا کے تمام محنت کشوں کیلئے ان کی جدوجہد کا دن ہے۔ آج کے دن ملک بھر کے بھٹہ ملازمین، کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین اور ملک بھر کے محنت کش دنیا بھر کے دوسرے ملازمین کے ساتھ مل کر یکم مئی کی تقریبات پورے جوش و خروش سے منارہے ہیں۔ ملک بھر میں جلسے جلوس اور تقریبات ہورہی ہیں۔ ہرسال کی طرح یہ سال بھی گزر جائے گا اور مزدور کو ماسوائے لاروں اور نعروں کے کچھ نہیں ملے گا اور سارا دن سڑکوں پر جلوس نکال کر شام کو آکر مزدور بے حال پلنگ پر لیٹ جائے گا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ یکم مئی کو حکومت کی طرف سے مزدوروں کے حقوق کیلئے اعلان کیاجائے مگر 71 سال میں کسی بھی حکومت نے یکم مئی کے موقع پر مزدوروں کو ماسوائے تسلیاں کچھ نہیں دیا۔ یکم مئی محنت کشوں کی فتح کا دن ہے۔ شکاگو کے شہیدوں نے محنت کی عظمت کا لازوال نقش قائم کیا۔ اس دن سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور حکومت نے مزدوروں کی تحریک کو کچلنے کیلئے ان نہتوں پر بے دریغ طاقت کا استعمال کیا اور نہتے مزدوروں پر گولیاں برسادیں۔ مزدور حقوق کے حصول کیلئے مزدوروں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ بے شمار مزدور موقع پر شہید ہوگئے، بے شمار مزدوروں کو سولی پر لٹکا دیا گیا۔ امریکہ کے شہر شکاگو کی سڑکیں خون سے سرخ ہوگئیں اور بالآخر ان قربانیوں کے نتیجے میں صنعت کاروں اور حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور 1886؁ء میں بیس گھنٹے مشقت کی بجائے آٹھ گھنٹے ڈیوٹی لینے کا حکم جاری ہوا۔اس طرح مزدوروں کے یہ الفاظ درست ثابت ہوئے اور یوم مئی دنیا بھر میں محنت کشوں کا عالمی دن کے طور پر منایا جانے لگا۔ اس دن مزدور تجدید عہد کرتا ہے کہ ہم اپنے حقوق کیلئے ہمیشہ جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اس دن مزدور جلسے جلوس نکالتے ہیں جس میں محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے مطالبات پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں یوم مئی کی سرکاری تعطیل کا اعلان 1972؁ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں ہوا جب وہ وزیراعظم پاکستان تھے۔ ہمیں اس حقیقت کو بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ یہ تحریک اچانک نمودار نہیں ہوئی بلکہ اس تحریک کا آغاز 1806؁ء میں شروع ہوگیا تھا۔ 1827؁ء میں پندرہ مزدور تنظیموں نے مل کر مزدوروں کے اوقات کار میں کمی کیلئے بھرپور احتجاجی تحریک شروع کی۔ 1861؁ء میں امریکہ کے کانوں کے محنت کش خود کو منظم کرچکے تھے۔ 20 اگست 1866؁ء امریکہ بھرکی مزدور تنظیموں نے نیشنل لیبر کے نام سے ایک مشترکہ تنظیم قائم کی جس نے امریکہ بھر میں مزدوروں کے اوقات کار آٹھ گھنٹے اوقات کار مقرر کرنے کا مطالبہ کردیا۔ صنعت کاروں نے مزدوروں کی برطرفیاں اور تشدد کی روش اختیار کی لیکن اس تحریک کو دبایا نہ جاسکا۔ 1870؁ء سے 1880؁ء تک کئی مرتبہ احتجاجی ہڑتالیں کی گئیں۔ 1873؁ء میں شکاگو میں امریکہ کی تحریک کا سب سے بڑا احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ 1875؁ء میں کئی مزدور رہنماؤں کو پھانسی دی گئی، تحریک بڑھتی چلی گئی اس طرح یہ تحریک شدت پکڑتی گئی۔ شکاگو میں امریکی پولیس نے مزدوروں پر شدید لاٹھی چارج کیا، فائرنگ کی اور بالآخر آخری معرکہ مزدوروں اور صنعت کاروں کے درمیان 133 سال قبل یکم مئی 1886؁ء کو ہوا۔ آج ٹریڈ یونین، تحریک اور محنت کشوں کے موجودہ حالات ایک تشویش ناک مسئلہ ہیں۔ ملک بھر میں ہزاروں ٹریڈ یونین اور سینکڑوں لیبر فیڈریشن موجود ہیں لیکن آج بھی محنت کش انتہائی نامساعد حالات سے دوچار ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک بھر میں محنت کش طبقہ سات کروڑ کی تعداد ہے، جن میں سے اکثر و بیشتر مزدور کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ پرائیویٹائزیشن اور ٹھیکیداری نظام نے مزدوروں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ شاید آج پھر دوبارہ 1886؁ء کی طرح ملک بھر کی تنظیمیں کہیں دوبارہ اکٹھی نہ جائیں کیونکہ آج بھی مزدور کا استحصال جاری ہے۔ نہ ہی مزدور تنظیموں کے ساتھ انتظامیہ اور صنعت کار باقاعدگی سے معاہدہ کرتے ہیں اور نہ ہی منافع میں اُن کا حصہ ہوتاہے۔ خدا کرے اس ملک میں آجر اور اجیر کے درمیان فاصلہ ختم ہوجائے اور مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے قبل اس کی مزدوری اُسے ادا کردی جائے۔ یوم مئی ایک روایتی دن ہے یہ پاکستان کے محنت کشوں کو منظم کرتا ہے، انہیں محبت اور بھائی چارے کا احساس دلاتا ہے اور ان کے اندر قوم و ملک کی تعمیر ترقی کیلئے جذبہ پیدا کرتا ہے۔ یہ محنت کشوں کی فتح کا دن ہے اور دنیا بھر کے محنت کش اس دن شکاگو کے جیالوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس تحریک کو عالمی بنادیا اور اپنے حقوق کیلئے ایک لازوال مثال قائم کی۔ پاکستان کے مزدور اپنے وطنِ عزیز سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں، ان کے دلوں میں ایمان اور اتحاد کی شمع روشن ہے۔ ان کے خون میں محنت اور جدوجہد کا جذبہ شامل ہے۔ درحقیقت محنت ہی ان کا ایمان اور ان کی عظمت ہے۔ دنیا بھر میں پاکستان کے مزدوروں کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے اور پوری دنیا ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں مزدوروں کو وہ حقوق حاصل نہیں ہیں جوکہ پارلیمنٹ کا پاس شدہ آئی آر اے ایکٹ 2012؁ء میں درج ہے حالانکہ یہ محنت کش پاکستان کی تعمیر و ترقی کیلئے دن رات کوشاں ہیں۔ ملکی معیشت کے استحکام کا انحصار مزدوروں کی خوشحالی پر منحصر ہے۔ 8 کروڑ مزدوروں کی نمائندگی کیلئے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مزدوروں کا کوئی بھی نمائندہ موجود نہیں؟ آج ہی نہیں بلکہ قیام پاکستان کے وقت بھی ان محنت کشوں نے ایک نئی اسلامی مملکت کے قیام کیلئے بے شمار خدمات انجام دیں اور قیام پاکستان کے بعد بھی ہمارے محنت کش اسی جذبے کے تحت سرگرمِ عمل ہیں۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور محنت کش ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس ملک کی پیداواری عمل کو تیز کرنے کیلئے مزدوروں کا احترام بے حد ضروری ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت ان کی عظمت اور محنت کا اعتراف تو کرتی ہے،بیشتر اقدامات اور مسائل حل بھی ہورہے ہیں لیکن آج بھی مزدور کی تنخواہ بہت کم ہے، مہنگائی نے مزدور کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے جب شام کو ایک بچہ مزدوری کرکے گھر لوٹتا ہے تو اپنی بوڑھی ماں اور باپ کو دیکھ کر پریشان ہوجاتا ہے کیونکہ اس کی دن بھر کی مزدوری سے ایک ٹائم کی روٹی بھی پوری نہیں ہوتی، جب پاکستان کا محنت کش خوشحال ہوگا تو اس ملک کے حالات بہتر ہوں گے، آج پاکستان کے محنت کش اس عہد کی تجدید کریں گے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو پاکستان کی تعمیروترقی کیلئے صرف کریں، پُرامن رہ کر اپنے مطالبات کے حصول کی کوشش کریں، کارخانوں، ورکشاپوں اور صنعتی اداروں کی رونق اور قوم کی خوشحالی کا راز درحقیقت مزدوروں کی محنت میں مضمر ہے۔ حضورﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ قیامت کے روز تین آدمی ایسے ہوں گے جن سے میں جھگڑا کروں گا، ایک وہ شخص جس نے میرا نام لے کر معاہدہ کیا اور پھر اس آدمی نے اس عہد کو توڑ دیا۔یعنی بدعہدی کی، دوسرا وہ شخص جس نے کسی شریف اور آزاد آدمی کو اغواء کرکے اسے فروخت کیا اور اس کی قیمت کھائی، تیسرا وہ شخص جس نے کسی مزدور کو مزدوری پر محنت کیلئے مقرر کیا، پھر اس سے پورا کام لیا او رکام لینے کے بعد اس کو اس کی مزدوری ادا نہیں کی، یا اس کی محنت اور مشقت کے برابر اس کی اجرت ادا نہ کی۔ ان احادیث قدسی سے واضح ہوتا ہے کہ محنت اور مشقت کی عظمت اور محنت کش مزدور پیشہ، طبقہ کے جائز حقوق کی حفاظت کا جو نظریہ اسلام نے پیش کیا اس کی کوئی دوسری مثال دنیا میں کسی اور دنیاوی معاشرے میں نہیں ملتی۔ جو شخص اپنے ہاتھوں سے محنت کرتا اور اپنا رزق تلاش کرتا ہے وہ شخص احترام کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ میرے نزدیک یوم مئی منانے کا سلسلہ اسلام کے طلوع کے بہت بعد شروع ہوا، اسلامی احکام کے مطابق صرف ایک دن ہی مزدوروں کا عالمی یوم نہیں منایا جاتا بلکہ یہ احکام آجروں اور اجیروں کے مابین اشتراک عمل محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کی غرض سے ہمہ وقت ہر سطح پر نافذ العمل ہیں۔ ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ نے خود بکریاں چرائیں، لوگوں کا سامان اُٹھایا، جنگِ خندق کی کھدائی میں حصہ لیا، اس موقع پر ایک صحابی رسولﷺ آپ کے پاس تشریف لائے کہ اللہ کے نبی اب میرے جسم میں بالکل ہمت نہیں رہی اور میرا پیٹ بھوک کی وجہ سے کمر کے ساتھ لگ گیا ہے۔ آپ نے صبر کی تلقین کی اور اپنے پیٹ سے قمیض اُٹھا کر دکھا تو آپﷺ کے پیٹ پر دوپتھر بندھے ہوئے تھے۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کے عظیم جرنیل ہونے کے باوجود کپڑوں میں پیوند لگائے، یہاں تک کہ بھوک کے موقع پر اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیے۔
تحریر: شیخ محمد انور
فون نمبر: 0300-9481002

کیٹاگری میں : Column

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے