(ریلوے بدحالی سے خوشحالی کی طرف گامزن) (پاکستان ریلوے، منی پاکستان)

تحریر: شیخ محمد انور (مرکزی سینئر نائب صدر پاکستان ریلوے پریم یونین سی بی اے)
فون نمبر: 0300-9481002
(ریلوے بدحالی سے خوشحالی کی طرف گامزن) (پاکستان ریلوے، منی پاکستان)
آج کل ملک بھر میں سیاسی گہماگہمی عروج پر ہے، کہیں اتحاد بن رہے ہیں اور کہیں اتحاد ٹوٹ رہے ہیں۔ کہیں پر دھرنے دے کر حکومت کو گرانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ ملک میں دن بدن انارکی کی فضا بنائی جارہی ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک سازش کے تحت کیاجارہا ہے جو کہ کسی بھی طرح ایک مہذب معاشرے کیلئے مناسب نہیں۔ قطع نظر ہر سیاسی جماعت بھرپور طریقے سے صف بندیوں میں مصروفِ عمل ہے۔ الیکشن کا سماں دن بدن بنتا نظر آرہا ہے۔ تمام قومی ادارے تباہی کی جانب گامزن ہیں۔چائنہ پاکستان میں گوادر سے کاشغر تک سی پیک کے ذریعے اربوں ڈالر کے منصوبے لگارہاہے۔ منصوبوں کی تکمیل سے نہ صرف معاشی عدم استحکام کا خاتمہ ہوگا بلکہ دفاعی اعتبار سے بھی اندرونی اور بیرونی طور پر مضبوط ہوگا جس سے ملک میں خوشحالی آئے گی، لاکھوں بیروزگاروں کو روزگار ملے گا اور انشاء اللہ پاکستان دنیا میں ایک ابھرتا ہوا ترقی یافتہ ملک نظرآئے گا۔ دوسری طرف غیر ملکی طاقتیں پوری توانائی کے ساتھ پاکستان میں دہشتگردی پھیلا کر ان منصوبوں کو ناکام بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔
واحد ریلوے ایک ایسا ادارہ ہے جس میں بہتری آئی ہے اور مزدوروں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ اگر ریلوے جیسا تباہ حال ادارہ جسکے ٹریک 2013؁ء سے قبل ویران ہوچکے تھے، یارڈقبرستانوں کا منظر پیش کررہے تھے، مال گاڑیاں بندہوچکی تھیں، مسافر ٹرینیں نہ چلنے کے برابر تھیں، اسٹیشنوں کی بجلی بل جمع نہ کروانے کی وجہ سے کاٹی جارہی تھی، ملازمین کو تنخواہ ملنا محال تھی، اوور ٹائم اور ٹی اے کا تصور ختم ہوچکا تھا۔پنشنرز اور بیواؤں کو اُنکے واجبات کی ادائیگی بالکل بند ہوچکی تھی، حتیٰ کہ ریل کے پاس نہ تو انجنوں کیلئے ڈیزل تھا اور نہ ہی انکی دیکھ بھال کیلئے کوئی فنڈز تھے۔ ملازمین اسٹیشن پر مسافروں کو دیکھ کر چھپ جایاکرتے تھے کیونکہ گاڑیاں کئی کئی گھنٹے تاخیر کا شکار ہوا کرتی تھیں اور مسافر اور ملازمین کے درمیان اکثر و بیشتر تکرار اور جھگڑے ہوتے تھے لیکن الحمدللہ آج پاکستان ریلوے کے ملازمین کا سرفخر سے بلند ہے کہ ان کا ادارہ دن بدن ترقی کی طرف گامزن ہے اور اس تباہ حال ادارے میں آج نئے نئے منصوبے بن رہے ہیں جسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آجر اور اجیر اکٹھے ہیں اور سب کی ایک سوچ ہے کہ ریلوے کو بحال کرنا ہے۔
چار سال میں اگر ریلوے جیسا ادارہ بہترہوسکتا ہے تو بقایاقومی ادارے کیوں بہتر نہیں ہوسکتے؟ پاکستان ریلوے قومی، دفاعی اور فلاحی ادارہ ہے، اس ادارے سے اس ملک کا دفاع بھی منسلک ہے اور اس ادارے کے ذریعے ہی امن اور جنگ کے دوران اسلحے کی نقل وحمل ممکن ہوتی ہے۔ بلا شبہ پاکستان ریلوے سفر کا سب سے سستا، محفوظ، آرام دہ اور آلودگی سے پاک ذریعہ ہے۔ پاکستان ریلوے ملکی معیشت اور دفاع میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ درحقیقت پاکستان ریلوے چاروں صوبوں کی زنجیر ہے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ ریلوے کی بحالی کا جرأت مندانہ قدم کوئی انقلابی اور فہم و فراست رکھنے والا انسان ہی کر سکتا تھا۔ جو اس کے نتیجے میں پیش آمدہ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکے اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کا خندہ پیشانی سے سامنا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔
میرا تعلق مزدوروں کی دنیا سے ہے اور مجھے اس بات کا فخر ہے کہ میں ریلوے کا ملازم ہوں۔ چند روز قبل ریلوے ہیڈ کوارٹر میں وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق سے اچانک ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ آج کل میری مصروفیت بہت بڑھ چکی ہے اور میری کوشش ہے کہ جانے سے پہلے زیادہ سے زیادہ منصوبے پائپ لائن میں ڈال جاؤں تاکہ پاکستان ریلوے کا مستقبل تابناک ہو، شاید میں تو نہ ہوں مگر اس قومی ادارے کو تو چلنا ہے، ریلوے میرے نزدیک منی پاکستان کا درجہ رکھتا ہے اور دفاعی لحاظ سے بھی اس کی بہت اہمیت ہے۔ میں ان کی گفتگو سن کر حیران ہوا کہ سیاسی جماعت کا ذمہ دار رکن ہونے کے باوجود روایتی سیاست کی بجائے ادارے کی بہتری کی فکر لاحق ہے جہاں آج سی پیک کے ذریعے بڑے بڑے منصوبے بن رہے ہیں۔
٭ گوادر کو ریلوے نیٹ ورک سے ملانے کی غرض سے گوادر سے جیکب آباد براستہ بسمیہ، مستونگ تک ٹریک بچھانے کیلئے فیزیبلٹی تیار کی جارہی ہے۔ گوادر میں زمین خریدی جاچکی ہے۔
٭ آزاد کشمیر کو ریلوے کے ساتھ ملانے کیلئے اسلام آباد سے مظفرآباد براستہ مری نئے ٹریک کی فیزیبلٹی کی تکمیل کے بعد زمین حاصل کرنے کیلئے PC-I پلاننگ کمیشن میں بھیج دیا گیاہے۔
٭ سبی، ہرنائی سیکشن کی اپ گریڈیشن اور بحالی پر تیزی سے کام جاری ہے جو جدید تقاضوں، بہترین معیار اور مجوزہ ڈیزائن کے مطابق ہورہا ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ سیکشن عرصہ دراز سے سیلاب اور دہشتگردوں کی مذموم کاروائیوں کی وجہ سے متاثر رہا جس کے نتیجے میں ریلوے کو اسے بند کرنا پڑا۔ اس سیکشن کی بحالی کیلئے خصوصی اقدامات کرتے ہوئے نیشنل لاجیسٹک سیل کی خدمات حاصل کرلی گئی ہیں۔ اس منصوبے کے تحت نہ صرف ریلوے لائن کو بہتر بنایا جائے گا بلکہ سبی اور ہرنائی کے اسٹیشن بھی اپ گریڈ کیے جارہے ہیں۔ فیزون کی تکمیل اگلے برس کے آغاز میں متوقع ہے۔
٭ چمن (پاکستان) سے سپن بولدک (افغانستان) تک لائن بچھانے کے PC-I کی حتمی منظوری ہوچکی ہے۔ جلد ہی اس پر افغان حکومت کی طرف سے NOC کے بعد کام شروع ہوجائے گا۔
٭ پشاور سے جلال آباد تک ریلوے لائن کے حوالے سے فزیبلٹی اسٹڈی 2017-18 کے دوران مکمل ہوجائے گی۔
٭ پاکستان اور ایران کے درمیان، براستہ تفتان، معطل شدہ مال بردار ٹرین کا دوبارہ اجراء ہوچکا ہے جو پاکستان کے مختلف اسٹیشنوں اور ایران کے درمیان سازوسامان کی ترسیل کا مؤثر ذریعہ بن گئی ہے۔
٭ قوی امکان ہے کہ ECO ٹرین کی بحالی، موجودہ مالی سال میں ہوجائے گی۔ اس حوالے سے پاکستان ریلویز اور ترکی ریلویز کے درمیان تفصیلی رابطوں کے بعد حتمی لائحہ عمل ترتیب دیاجارہا ہے۔
٭ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان فی الوقت واہگہ کے ذریعے پیسنجر اور گڈز ٹرینز چلتی ہیں جبکہ کھوکھرا پار، مونا باؤ کے راستے آپریشن صرف مسافر گاڑی تک محدود ہے۔ اس امکان کا جائزہ لیاجارہا ہے کہ تھرپارکرکے اس اہم روٹ پر مال بردار گاڑی کا اجراء کیاجائے۔
٭ ریلوے کے بوسیدہ ترین سیگنیلنگ سسٹم کو جدید ترین کمپیوٹرائزڈ سیگنیلنگ سسٹم میں تبدیل کیا جارہا ہے جس سے ٹرینوں کی رفتار میں اضافہ ہوگا۔
2013؁ء میں سترہ ارب سالانہ کمانے والا ادارہ آج پچاس ارب کا ہدف پورا کرنے کیلئے بھرپور کوشش کررہا ہے۔ یہ بہتری کوئی حادثاتی طور پر نہیں بلکہ پاکستان ریلوے کے افسران اور ملازمین کی شب و روز محنت شاقہ کا نتیجہ ہے۔ اگر ریلوے میں ہونے والے پراجیکٹوں کی تفصیلات لکھی جائیں تو وہ بہت زیادہ ہیں، مختصر یہ کہ پاکستان ریلوے کی تاریخ میں پہلی بار آج 55 امریکن انجن 4000 ہارس پاور کے بھی آچکے ہیں جو کہ گڈز ٹرینوں میں کام کررہے ہیں۔ 2014-15 میں 63 چائنیز انجن بھی ریلوے میں آچکے ہیں جو کہ پیسنجر ٹرینوں میں کام کررہے ہیں۔ 20 جدید ترین انجن مارچ2018؁ء تک پاکستان آجائیں گے جو کہ کوئٹہ ڈویژن میں کام کریں گے اور ہاپر ویگنیں بھی آچکی ہیں، 13 گاڑیوں کے 34 نئے ریکس مکمل تزئین و آرائش کے بعد سیکشنوں پر رواں دواں ہیں اور باقی سات گاڑیوں کے ریک بھی دسمبر 2017 تک مکمل کرلیے جائیں گے جبکہ محترمہ بینظیر شہادت کے موقع پر جلنے والی کوچوں میں سے اب تک 83 کوچوں کو ریلوے مزدوروں نے شب و روز محنت کرکے دوبارہ ٹریک پر رواں دواں کردیا ہے۔ اکانومی کلاس کی تین سو سے زائد بوگیوں کی اپ گریڈیشن کرکے انہیں اے سی سٹینڈرڈ کے معیار پر لایاجارہا ہے۔ آپ کے دور میں اور آپ سے پہلے بھی چند بااثر کیٹگریز کو اپ گریڈ کردیا گیا ہے جو کہ خوش آئند ہے جن کی تعداد چند سوہوگی جبکہ ٹرین آپریشن میں بنیادی کردار ادا کرنے والے ملازمین کو محض اس بنیاد پر شاید اپ گریڈ نہ کیاجاسکا کہ ان کا احتجاج صحرا میں چیخیں مارنے کے مترادف ہے۔ جن میں ٹریفک یارڈ سٹاف، سگنل سٹاف، کیرج سٹاف، آرٹی ایل سٹاف، ٹیلی کام، ٹرین کلرک، شیڈ سٹاف، سٹاف کار ڈرائیور، کمرشل سٹاف، آئی او ڈبلیو سٹاف، الیکٹریکل سٹاف، برج سٹاف، سینٹری ورکر، نائب قاصد، کی مین، میٹ، ٹرالی مین اور گینگ مین کو تاحال اپ گریڈ نہ کیاجاسکا۔ جن کی تعداد تقریباً چالیس ہزار کے قریب ہے جبکہ دوسری طرف ہائیکورٹ کے واضح احکامات کے باوجود گینگ مینوں کی اپ گریڈیشن تاحال سرخ فیتے کا شکار ہے۔ ریلوے ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی وجہ سے ہر شعبہ میں بہت زیادہ شارٹیج ہو چکی ہے جس کی وجہ سے سسٹم کو چلانا دن بدن دشوار ہوتا جارہا ہے۔ کوئٹہ اور سکھر ڈویژن میں پٹرولنگ کرتے ہوئے گینگ مین کئی مرتبہ دہشتگردوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر شہادت کے رتبے پر فائز ہوچکے ہیں اس کے باوجود گینگ مین آج بھی جنگلوں، صحراؤں اور پہاڑوں میں دہشتگردوں کا نہتہ ہونے کے باوجود اپنی ڈیوٹی پوری جانفشانی کے ساتھ کررہے ہیں۔ ان کو اپ گریڈ کا حق نہ ملنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ریلوے میں پی ایم پیکج میں کام کرنے والے بچے اور بچیاں اور ٹی ایل اے سٹاف آج اپنے وزیر کی طرف ترسی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کس دن ریل کا مسیحا ان کے مستقل ہونے کا اعلان کرے گا؟ کیا ہی اچھا ہو کہ ریلوے کی ملازمتوں میں ملازمین کے بچوں کا کوٹہ پچاس فیصد کیا جائے اور مکانوں پر پانچ فیصد کٹوتی بند کر دی جائے۔
خواجہ سعد رفیق صاحب! آپ منی پاکستان کے سربراہ ہیں، آپ نے ریلوے کے ٹائی ٹینک کو بھنور سے تو نکال دیامگر ملازمین کی اپ گریڈیشن اور فلاح و بہبود کے منصوبے ابھی تک بیانات کی حد تک ہیں۔ ریل کے ملازمین کو یقین ہے کہ اگر آپ کے دورِ اقتدار میں مزدوروں کی خوشحالی کے منصوبوں کا اعلان نہ ہوسکا تو پھر کبھی بھی ممکن نہیں ہوگا۔ آپ ریلوے ملازمین کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کا اعلان کرکے تاریخ میں ہمیشہ مزدور دوست اور ریل کے مسیحاکے طور پر زندہ رہیں گے۔

کیٹاگری میں : Column

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے