”ریل کی بحالی“ ”مزدور کی خوشحالی“
پاکستان ریلوے کا قیام برٹش دورِ حکومت میں اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں ہوا اور ریلوے کی پہلی ٹرین کراچی سٹی اور کوٹری سٹی کے درمیان 13 مئی 1861ء عوام کیلئے کھولی گئی۔ پاکستان ریلوے قومی، دفاعی اور فلاحی ادارہ ہے۔ اس ادارے سے اس ملک کا دفاع بھی منسلک ہے اور اس ادارے کے ذریعے ہی عام حالات اور جنگ کے دوران اسلحے کی نقل و حرکت ریلوے کی ٹرینوں کے ذریعے ہی ممکن ہوتی ہے۔ بلا شبہ پاکستان ریلوے سب سے سستا، محفوظ، آرام دہ اور پولیوشن سے پاک ذریعہ ہے۔ پاکستان ریلوے ملکی معیشت اور دفاع میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ درحقیقت پاکستان ریلوے چاروں صوبوں کی زنجیر ہے۔ جب پاکستان ریلوے بنی تو اس کا مقابلہ بیل گاڑی سے تھا مگر آج اس کا مقابلہ جہاز، ڈائیوو بس کے ساتھ ہے۔
جو ٹرین کراچی، پشاور، کوئٹہ اور سکھر سے چلتی ہے اس ٹرین میں آپ کو چاروں صوبوں کی ثقافت نظر آتی ہے۔ اس میں پختون، بلوچی، پنجابی، سندھی اکٹھے سفر کررہے ہوتے ہیں۔ یہ پاکستان کے اتفاق بھائی چارے اور قومی یکجہتی کی مثال ہے۔ یہ ٹرین منی پاکستان کی تصویر پیش کرتی ہے۔
پاکستان ریلوے ملک بھر کے بوڑھے افراد کو کرایہ میں 50فیصد رعایت ہے۔ صحافی حضرات کو بمعہ فیملی 80 فیصد جبکہ طالب علموں، معذوروں، سکاؤٹس، سپورٹس، پاکستان آرمی اور فورسز کی نقل و حرکت میں بھی 50 فیصد رعایت دی جاتی ہے۔ اس کے برعکس وفاقی حکومت کی جانب سے کسی قسم کی اضافی مراعات ریلوے کی نہیں دی جاتی۔
میں نے پاکستان ریلوے میں اپنی سروس کا آغاز 1985ء میں کیا اس وقت ریلوے میں ایک لاکھ چالیس ہزار ملازمین تھے جبکہ ایک جنرل مینیجر ہوا کرتا تھا۔ آج صرف 80000ملازمین رہ گئے ہیں اور ریلوے کے دو جنرل مینیجر 21گریڈ میں، چیف ایگزیکٹیو آفیسر 22 گریڈ میں، تین ایڈیشنل جنرل مینیجر 21گریڈ میں، ڈائریکٹر والٹن 21گریڈ، آئی جی ریلوے 21گریڈ، ممبر فنانس 21گریڈ، سیکرٹری ریلوے بورڈ 21گریڈ، ایم ڈی پراکس 21گریڈ، ایف جی آئی آر 21گریڈ جبکہ گریڈ 19 اور گریڈ 20 کی بے شمار پوسٹیں بڑھا دی گئی ہیں۔ ریلویز سکڑھتی چلی گئی اور افسر شاہی بڑھتی چلی گئی۔ پاکستان ریلوے 1970ء تک منافع بخش ادارہ تھا۔
1۔ 1960ء تک پاکستان ریلوے ملک کے طول و عرض میں 60 فیصد پیسینجر اور گُڈز کی باربرداری کرتا تھا اور ٹرانسپورٹیشن کا واحد او رقابل اعتماد ذریعہ تھا۔
2۔ درحقیقت ریلوے کی تباہی کا آغاز 1971ء سے شروع ہوا جب سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکے دورِ حکومت میں ریلوے کا بجٹ علیحدہ کردیا اور ریلوے میں واچ اینڈ وارڈ پولیس کو ختم کرکے ریلوے پولیس کا قیام عمل میں آیا اور ریلوے اکاؤنٹس کے ڈیپارٹمنٹ کو ختم کرکے آڈیٹر جنرل کے ماتحت کردیا گیا۔
3۔ 1977ء میں ضیاء الحق کی مارشل لاء کے دور میں جب لیفٹینینٹ جنرل سعید قادر کو 16-03-1981 ریلوے کا وزیر لگا دیا گیا جس نے ریلوے کا گُڈز کا کام NLC پر منتقل کردیا جس کی وجہ سے ریلوے کی آمدن کا بڑا ذریعہ ختم ہوگیا۔ ریلوے کی مال گاڑیاں اور ویئر ہاؤس تباہ ہوگئے۔
4۔ 1993ء میں برکی رپورٹ کی روشنی میں ریلوے کو تین کمپنیوں میں تقسیم کردیا گیا اور ریلوے کے ایک جنرل مینیجر کی بجائے تین جنرل مینیجر بنا دئیے گئے۔تین ایڈیشنل جنرل مینیجر بنا دئیے گئے اور ریلوے کا چیئرمین ڈی ایم جی سے لگا دیا گیا۔ ریلوے ایک ٹیکنیکل ادارہ ہے اور اس کے سربراہ کا غیر پروفیشنل ہونا اس کی تباہی کی ایک اہم وجہ ہے۔
5۔ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے جب جمہوری حکومت پر شب خون مارا اس کے دور میں ریلوے میں ٹریڈ یونین پر پابندی عائد کردی گئی۔ جنرل جاوید اشرف قاضی کو چیئرمین تعینات کردیا گیا۔ مجھے دو مرتبہ صوبہ بدر کیا گیا میرے کئی ساتھیوں کو نوکری سے برطرف کیا گیا۔ بے شمار دوستوں کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ ہمارا جرم یہ تھا کہ ہم مزدوروں کے نمائندے تھے۔
6۔ خوف و ہراس پھیلانے کے بعد جنرل جاوید اشرف قاضی،جنرل حامد بٹ، جنرل سعید الظفر نے ریلوے کی پانچ مربہ زمین جو کہ شہر لاہور کے دل کینال بینک پر واقع ہے حسین بلڈر کے حوالے کردی وہاں پر آج کل رائل پام بنا ہوا ہے۔ ریلوے زمینوں پر CNGپمپوں کی لوٹ سیل لگا دی گئی کھیلوں کے میدانوں میں پلازے بنا دئیے گئے۔
7۔ پاکستان کی تاریخ کا بدترین معاہدہ چائنہ حکومت اور یلوے کے درمیان کیا گیا جس سے اربوں روپے کی ریلوے لائنیں خریدی گئیں۔ اڑھائی سو بوگیاں، ڈیڑھ سو ہائی کپیسٹی ویگنیں، 69 انجن خریدے گئے جو کوچ ہم پاکستان میں ایک کروڑ بارہ لاکھ روپے میں خریدے گئے وہ کوچ ہم نے چائنہ سے پانچ کروڑ روپے کی خریدی اور آج ہم ہر سال آٹھ ارب روپے چائنہ کو سود کی مد میں ادا کرتے ہیں۔ یہ لوگ کک بیگس اور لوٹ مار کرکے اپنے گھروں میں چلے گئے اور آج قومی سطح کا دفاعی ادارہ شدید مالی بُرہان میں مبتلا ہے۔
8۔ 27-12-2007 کو محترمہ بے نظیر کی شہادت پر ریلوے پر اس طرح یلغار کی گئی کہ شاید بے نظیر کو کسی ریلوے ملازم نے شہید کیا ہو۔ ریلوے کے 600 کلو میٹر کے ٹریک کو نذر آتش کردیا گیا۔ 62 ریلوے اسٹیشن اور 22 انجن جلا دئیے گئے۔ ریلوے کو 20 سے 25 ارب کا نقصان ہوا۔ پیپلز پارٹی کو اقتدار مل گیا۔ پانچ سال تک انہوں نے خوب مزے کیے لیکن ریلوے کو کوئی بیل آؤٹ پیکج نہ مل سکا جبکہ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے تین مرتبہ اسمبلی میں کھڑے ہو کر بیل آؤٹ پیکج کا اعلان بھی کیا۔
9۔ سابق وفاقی وزیر ریلوے غلام احمد بلور نے 04-11-2008کو ریلوے کا بطور وزیر چارج سنبھالا تو اس وقت ریلوے کے پاس 292انجن موجود تھے۔ اسی طرح 2008-09 میں ریلوے نے 23 ارب کمایا اور انجن 289 تھے۔ 2009-10 میں 21 ارب 80 کروڑ کمایا اور انجن 263 تھے۔ 2010-11 میں 18 ارب 60 کروڑ کمایا اور انجن 223 تھے۔ 2011-12میں 15 ارب 50 کروڑ کمایا اور انجن 134 تھے۔ 2012-13 میں 18 ارب 20 کروڑ کمایا اور انجن 130 رہ گئے تھے۔ جب خواجہ سعد رفیق نے 07-06-2013 کو ریلوے کا چارج سنبھالا تو اس وقت انجن 160 اور آمدن 22 ارب 80 کروڑ ہوئی اور 2014-15 میں 32 ارب سے زائد ریکارڈ آمدن ہوئی اور انجن 290 کے قریب ہوگئے۔ حاجی غلام احمد بلور کے دورِ حکومت میں اس وقت کے چیئرمین سمیع الحق خلجی کرپشن کے بدترین سکینڈل پر منظر عام پر آئے۔
تمام اداروں کے سربراہان اور ذمہ داران کو پاکستان ریلویز کی بحالی کے عمل سے سبق سیکھنا چاہیے۔ مزدوروں کے روزگار کا تحفظ کرتے ہوئے نجکاری سے بچنا چاہیے۔ اداروں کی نجکاری مسائل کا حل نہیں کسی ادارے نے ترقی دیکھنی ہے تو پھر ریلوے میں ایک بار سفر ضرور کرے۔ ترقی گُڈ گورنس کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ خواجہ سعد رفیق کے جرأت مندانہ اقدام، پریم یونین کے مرکزی صدر حافظ سلمان بٹ کی مشاورت، چیف ایگزیکٹیو آفیسر پاکستان ریلوے محمد جاوید انور، دیگر افسران اور مزدوروں کے باہمی تعاون کی وجہ سے ماضی کا ڈوبتا ہوا ادارہ آج تیزی سے ترقی کے منازل طے کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تیس ماہ کے اندر پاکستان ریلوے کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی ریل سے کم نہیں۔ مورخہ 07-06-2013 کو جب خواجہ سعد رفیق نے ریلوے کا چارج سنبھالا تو ہمارے حالات بہت خراب تھے۔ نہ تو ریلوے کے پاس ڈیزل تھا، نہ ہی انجن اور نہ ہی کوچیں تھیں۔ ہمارے گُڈز یارڈ قبرستان بن چکے تھے اور ریلوے ٹریک سُنسان تھے۔ مال گاڑیاں بالکل بند ہوچکی تھیں۔ مسافر ٹرینوں کا کوئی پُرسان حال نہ تھا اکثر و بیشتر ڈیزل نہ ہونے کی وجہ سے ٹرینیں اسٹیشنوں پر کھڑی ہوجایا کرتی تھیں لیکن الحمدللہ آج حالات پہلے سے یکسر مختلف ہیں۔ ہم ایک تحریک سے وابستہ لوگ ہیں اور حق اور سچائی کی بات کو کرنا اپنا عین فریضہ سمجھتے ہیں۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ وفاقی وزیر ریلوے نے جو ہمارے ساتھ پہلی ملاقات میں وعدے کیے تھے وہ آج تک اُن پر پابند ہیں۔ ریلوے میں آج نہ تو سیاسی مداخلت ہے اور نہ ہی کرپٹ افسران اور کرپٹ ملازمین کی گنجائش باقی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ریلوے جیسا ادارہ جس پر آئی ایم ایف سمیت حکمرانوں کی ریلوے کی قیمتی اثاثوں پر نظر تھی الحمدللہ آج وہ پیچھے ہٹ چکے ہیں۔ آجر اور اجیرآج ایک جگہ کھڑے ہیں۔ انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان کی ریل دنیا کی بہترین ریلویز میں شمار ہوگی۔ آج ہم کیرج فیکٹری میں کوچز بھی تیار کررہے ہیں۔ رسالپور فیکٹری جو کبھی بند پڑی تھی آج وہاں انجنوں کی مینٹینینس کرکے دوبارہ ٹریک پر لایا جارہا ہے۔ ورکشاپس جو کہ کل تک ویران ہو چکی تھیں آج اُن ورکشاپوں میں نمازِ فجر سے لے کر شام تک مزدور سرگرم عمل نظر آتا ہے۔ جس کا تمام تر سہرا وفاقی وزیر، حافظ سلمان بٹ اور چیف ایگزیکٹیو سمیت تمام مزدوروں کے سر جاتا ہے۔
میں نے پی آئی اے سمیت دیگر قومی اداروں کے مزدوروں سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ اداروں کے سربراہان تکنیکی معاونت کیلئے پاکستان ریلوے کے افسران، مزدوروں اور وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق سے رجوع کریں تاکہ پاکستان کے قومی اثاثوں کو نجکاری سے بچایا جاسکے کہ جنہوں نے حکومت، انتظامیہ اور مزدوروں کو ایک ہی لڑی میں پرودیا جس کی وجہ سے آج ماضی کا ڈوبا ہوا ادارہ تیزی سے ترقی کی منازل طے کررہا ہے۔ آج کی ریلوے ایک ترقی یافتہ ملک کی ریل کا منظر پیش کررہی ہے۔ اُنہوں نے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف صاحب کے حُسن انتخاب کی داد دیتے ہوئے کہا کہ ایک وقت تھا کہ نہ تو عوام ریل سے خوش تھی اور نہ ہی ریل کا ملازم خوش تھا بلکہ ریل کا ملازم بالکل مایوس ہوچکا تھا۔ خواجہ سعد رفیق، ریلوے افسران اور شب و روز مزدوروں کی محنت کی وجہ سے آج ادارہ ٹارگٹ سے بڑھ کر کام کررہا ہے۔
میں وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف صاحب سے مطالبہ کرتا ہوں کہ خواجہ سعد رفیق کی نگرانی میں ٹاسک فورس بنائی جائے جس کا مقصد قومی اداروں کی نجکاری کے بجائے بحالی ہو۔ ٹاسک فورس میں تمام اداروں کے سربراہان، سی بی اے یونین کے ذمہ داران اور پریم یونین کے مرکزی صدر حافظ سلمان بٹ کو شامل کیا جائے۔ ٹاسک فورس کو بااختیار بنایا جائے تو انشاء اللہ دو سال کے اندر اندر ادارے بحالی کی طرف چل پڑیں گے۔ اُنہوں نے آج نارووال ریلوے اسٹیشن کے اپ گریڈیشن کے افتتاح کے موقع پر خواجہ سعد رفیق کو مبارکباد دی۔ یاد رہے کہ 16ریلوے اسٹیشنوں کو اپ گریڈ کیا جارہا ہے۔ نارووال اسٹیشن کو جدید ترین بنانے پر پینتیس کروڑ روپے کی رقم خرچ ہوگی۔ آج پاکستان ریلوے کی آمدن بتیس ارب سے تجاوز کرچکی ہے اور اس سال انشاء اللہ ہم سینتیس ارب تک اپنی آمدن کو یقینی بنائیں گے۔ اُنہوں نے مزدوروں کو خوشی کی نوید دی کہ ریلوے کی تاریخ میں پہلی بار ریلوے ملازمین کو بونس ملے گا۔
آج ریلوے کی بحالی کے سلسلے میں جتنے منصوبے چل رہے ہیں اُن میں لاہور سے نارووال، وزیرآباد، سیالکوٹ، چک امرو پر نیا ٹریک بچھانے کے سلسلے میں جرمن کی آئی ایل ایف کمپنی سروے کررہی ہے اسی طرح پشاور، جلال آبادعمر منشی ایسوسی ایٹ کمپنی سروے کررہی ہے۔ ایم ایل ٹو مین لائن کوٹری، دادو، کشمور، ڈی جی خان، کوٹ ادو، کندیاں، اٹک سٹی سیکشن کو اپ گریڈ کیا جارہا ہے تاکہ ٹرین کی رفتار کم از کم 120 ہوسکے اسی طرح جیکب آباد، گوادر کے سروے کا اخباروں میں باقاعدہ اشتہار آچکا ہے۔ کوئٹہ، بستان، زوب، ڈی آئی خان سیکشن کا بھی سروے ہورہا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آنے والے وقت میں انشاء اللہ ریلوے کے ذریعے اس ملک میں انقلاب آئے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان منصوبوں پر موجودہ حکومت مخلصانہ انداز میں کام جاری رکھے۔ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان ریلوے کے پاس آج کم از کم پندرہ دن کا فیول موجود ہوتا ہے جبکہ ماضی میں ہم مختلف اسٹیشنوں پر ٹرینوں کو روک کر پٹرول پمپوں سے ڈیزل منگواتے رہے ہیں۔ آج مسافروں کو بھی انشورنس کی سہولت دی گئی ہے، بیواؤں اور پنشنرز کو کمپیوٹر کے ذریعے اپنی مرضی کے بینک سے پنشن کی سہولت میسر کر دی گئی ہے۔ ملازمین کو تنخواہیں بروقت مل رہی ہیں حتیٰ کہ پریم یونین کے مطالبے پر ریل کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جی پی ایف کا اکاؤنٹ اسٹیٹ بینک میں علیحدہ کھول دیا گیا ہے اور ہر ملازم کو اب جی پی ایف لینے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اللہ کا شکر ہے کہ مین لائن پر ریلوے نے 160 کلومیٹر کا کامیاب ٹرائل بھی کیا ہے ریلوے کے حالات میں یہ سب بہتری میرے نزدیک جہد مسلسل اور گُڈ گورنس کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ اگر اداروں کی نجکاری ہوئی تو قومی اور دفاعی نوعیت کے ادارے غیر محفوظ ہاتھوں میں چلے جائیں گے۔