شاعر مشرق، مفکر پاکستان، حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ 2020

تحریر: شیخ محمد انور(مرکزی سینئر نائب صدر پاکستان ریلوے پریم یونین سی بی اے)
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0300-9481002
شاعر مشرق، مفکر پاکستان، حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ
یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر کوئی شخص بیک وقت ریفارمر معلم فلسفی شاعر ہوسکتا ہے جس کی نگاہ بلند سخن دلنواز جان پرسوز تو وہ حکیم الامت علامہ اقبال کی ذات ہے دانائے راز جس نے مسلم قوم کو آزادی کی راہ دکھائی جس نے اپنے افکار سے شعور زندگی بخشا، جس نے جہدعمل کی راہ متعین کی قوم جورازسرفرازی سے آشنا نہ تھی تلاش رہبر منزل میں سرگرداں تھی اسے راستہ دکھلایا۔ علامہ اقبال سیالکوٹ کے کشمیری گھرانے میں 9 نومبر 1877؁ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم کا نام شیخ نور محمد تھا جو کہ نہایت ہی متقی اور پرہیزگار انسان تھے اور عاشق قرآنِ حکیم تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم ایک مکتب میں حاصل کی۔ اس کے بعد سکول میں داخل ہو کر سکول کا امتحان پاس کیا اور اس کے بعد مرے کالج میں داخل ہوئے۔ اسی ادارے میں سید میر حسن جیسے شفیق اُستاد سے پڑھنے کا موقع ملا اور ان کی بدولت علامہ اقبال میں شعر و شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کرنے کے بعد آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور یہیں سے بی اے اور ایم اے کیا اور ایران کے فلسفہ مابعدالطبیعات پر ایک مبسوط مقالہ رقم کیا جس پر جرمنی کی مشہور میونخ یونیورسٹی نے انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی۔ جرمنی سے انگلستان آکر انہوں نے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ لندن یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر بھی رہے۔ حضرت علامہ اقبال ایک عظیم شاعر ہی نہیں بلکہ ہمہ صفت موصوف عظمت کے حامل اور مصلح قوم تھے، دراصل وہ بیسویں صدی میں ملت اسلامیہ کے اولین معمار ہیں، اسلامی فکر کی تشکیل جدید اوروقت کے فکری و جذباتی رجحان کو روحانی، اخلاقی اور سیاسی حیثیتوں سے تبدیل کرنے اور اصلاح و ترقی کی راہ پر مسلمانانِ برصغیر کو گامزن کرنے میں ان کا بڑا حصہ تھا۔ اُنہوں نے اسلامی فکر کی تشکیل جدید کی اور اسلامی قومیت کے ساتھ ہی اسلامی بین الاقوامی سیاست کے تصور کو بھی اُجاگر کیا ہے۔ ملت اسلامیہ کو تمدنی و معاشرتی، اخلاقی و سیاسی اعتبار سے اسلامی تعلیمات کو اختیار کرنے کی تلقین کی ہے اور ان کے جذبہ عمل کو بیدار کیا ہے۔ علامہ اقبال ہماری قوم کا سب سے بڑا فکری سرمایہ ہیں اور اس مملکتِ خدا کا ہرشہری، ہر مزدور، ہر طالبعلم اور ہر شعبہ زندگی کے اعتبار سے ان کا ہمیشہ مرہون منت رہے گا کہ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ، آزاد اور خود مختار ملک کا تصور پیش کیا۔ علامہ اقبال کی شہرت جہاں مسلمانوں کے موجودہ دور میں مصلحانہ کردار کی تھی وہیں قیام پاکستان میں ایک ممتازشخصیت کی بھی تھی کیونکہ انہوں نے اپنے خطبہ الٰہ آباد میں مسلمانوں کی الگ مملکت کا پورا نقشہ پیش کردیاتھا اور پھر محمد علی جناح کو جو مستقل طور پر لندن کوچ کرگئے تھے، خط لکھ کر ہندوستان واپس آنے اور مسلمانوں کی قیادت کرنے کی ترغیب دی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انکے انتقال پر تعزیتی بیان میں محمد علی جناح نے اعتراف کیا کہ ان کیلئے اقبالؒ ایک رہنماء بھی تھے، دوست بھی تھے اور فلسفی بھی تھے جو کسی ایک لمحہ کیلئے بھی متزلزل نہ ہوئے اور چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔ اقبال کا خواب کسی خیالی دنیا کا خواب نہ تھا ایک ٹھوس حقیقت ہے ایسا ملک جسے جنت نظیر کہاجائے۔ قائد اعظم نے اس جنت کا نقشہ کھینچا کہ یہ اسلام کی تجربہ گاہ ہوگا۔ یہاں ذات پات کا کوئی سوال نہیں ہوگا۔ یہاں انصاف ہوگا، اسلام کے عدل و انصاف پر مبنی ایک نظام مملکت کا نفاذ ہوگا۔ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ آپ کا تعلق کسی بھی علاقے سے ہو آپ سب سے پہلے مسلمان اور بعد میں پاکستانی ہیں۔ اگر آپ نے اپنی شناخت پنجابی، سندھی اور پٹھان رکھی تو پاکستان ٹکڑے ٹکڑے ہوکربکھر جائیگا۔ علامہ اقبال کی شعر وشاعری نے مسلمانوں کے اندر حریت پسندی کا وہ جذبہ پیدا کردیا کہ ان کی وفات کے باوجود وہ حریت پسندی کا شعلہ پروان چڑھتا چلا گیا اور بالآخر برصغیر کا مسلمان ریاست مدینہ کے بعد کلمے کی بنیاد پر بننے والا پاکستان وجود میں لے آیا۔برصغیر کے مسلمانوں نے قائد اعظم اور علامہ اقبال کی قیادت میں ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان بننے کے موقع پر جتنی قربانیاں برصغیر کے مسلمانوں نے دیں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایک ترک سکالر نے اقبال کو خراج عقیدت ادا کرتے ہوئے لکھا کہ اقبال کی شخصیت صرف ان کے ہم وطنوں کیلئے باعث فخر نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے مایہ ناز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے افکار عالیہ سے نوعِ انسان کیلئے متعدد مسائل حال کرنے کی کوشش کی۔ آپ نے 21 اپریل 1938؁ء کو لاہور میں رحلت فرمائی اور شاہی مسجد کے سامنے حضوری باغ میں دفن ہوئے۔ عام دنوں میں بھی لوگ ان کے مزار پر فاتحہ خوانی کیلئے جاتے ہیں مگر خاص مواقع مثلاً یوم ولادت اور یوم وصال پر بہت زیادہ لوگ حاضری کیلئے جاتے ہیں اور اسی دن وہاں پر مسلح افواج کی تبدیلی ہوتی ہے۔ یوم وصال کے موقع پر ملک کے سربراہان کی طرف سے بھی ان کے مزار پر پھول چڑھائے جاتے ہیں اور بے شمار علمی اور ادبی اداروں اور انجمنوں کی طرف سے بھی چادریں چڑھائی جاتی ہیں اور فاتحہ خوانی کی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس اسلامی فلاحی مملکت کا خواب اقبال نے دیکھا تھا جو قائد اعظم اور زعماء پاکستان کا مقصود تھا، 73 سال کا عرصہ گزرجانے کے باوجود وہ مقصد حاصل نہ ہوسکا اس کے برخلاف قوم بے راہروی اور انحطاط کاشکار ہے۔ یہ کلیہ ہے جب کوئی قوم راہ مستقیم چھوڑ کر غلط راہ اختیار کرتی ہے تو اس کا نتیجہ ہمیشہ تباہی و بربادی کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ راست بازی اور اصول کا راستہ چھوڑ کر جب بھی حقائق پر مصلحت کو ترجیح دی جاتی ہے تو یہ ہمیشہ خسارے کا سودا ہوتا ہے۔ ہم نے اپنی عاقبت نااندیشی کے سبب ملک دولخت کردیا اور اس سانحہ عظیم سے بھی کوئی سبق نہ سیکھا آج بھی حالات دن بدن ابتر ہوتے جارہے ہیں۔ قتل و غارت گری روز کا معمول بن گیا ہے۔ امن و امان کی حالت تشویش ناک حد تک خراب ہے اور پوری قوم بے یقینی اور مایوسی کا شکار ہے۔ بہرحال ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اپنی بداعمالیوں سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے توبہ کرلیں اور عہد کرلیں کہ ہم صرف اور صرف پاکستانی ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کو چاہیے کہ وہ علامہ اقبال کے افکار پر عمل پیرا ہوں۔

کیٹاگری میں : Column

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے