تحریر: شیخ محمد انور(مرکزی سینئر نائب صدر پاکستان ریلوے پریم یونین سی بی اے)
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
(شہید ملت لیاقت علی خاں)
اُنہوں نے اپنا سب کچھ پاکستان پر قربان کردیا۔
آپ کی مدبرانہ خارجہ پالیسی نے ایک نوزائیدہ مملکت کو اقوام عالم میں ممتاز مقام عطا کیا۔
تاریخِ پاکستان میں 16 اکتوبر 1951ء کا دن نہایت المناک ہے۔ جب کسی شقی القلب نے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو کمپنی باغ میں منعقدہ راولپنڈی کے ایک جلسہ عام میں اپنے ریوالور سے گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید کردیا جبکہ مرحوم ایک عظیم اجتماع سے خطاب کرنے والے تھے۔ وہ جونہی اسپیکر کے سامنے آئے تو ایک شرپسند نے گولیاں مار دیں اور نواب زادہ کے جسم میں وہ گولیاں پیوست ہوگئیں اور کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے پیچھے کی طرف گرنے لگے کہ پیچھے بیٹھے ہوئے ان کے پرائیویٹ سیکرٹری نے نواب زادہ صاحب کو اپنے بازوؤں میں سنبھال لیا اور وہ پاکستان کی عظمت کا آخری جملہ کہتے ہوئے ملت اسلامیہ پاکستان کو ہمیشہ ہمیشہ تنہا چھوڑ گئے۔ قاتل کا نام اکبر بیان کیاجاتا ہے جسے موقع پر ہی گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا اور اس بات کا آج تک پتا نہ چل سکا کہ اکبر کا یہ ظالمانہ فعل کس کے جنون کا حصہ تھا۔ اس قتل کے پیچھے کوئی ملکی یا غیرملکی سازش کارفرما تھی یا پھر یہ اس کا ذاتی فعل تھا۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اکبر کو گرفتار کرنے کی بجائے اس کو موقع پر مارنا اصل قاتلوں یا سازشوں کو بے نقاب نہ کرنے کی سازش تھی۔ آج ہم شہید ملت لیاقت علی خان کی 68ویں برسی ایک ایسے موقع پر منا رہے ہیں کہ جب ملک ایک انتہائی نازک اور کٹھن دور سے گزر رہا ہے جبکہ انڈیا مقبوضہ جموں کشمیر پر گزشتہ دو ماہ سے کرفیولگاکربیٹھا ہوا ہے۔ روزانہ مسلمانوں کی شہادتیں ہورہی ہیں اور حال یہ ہے کہ کرفیو کی وجہ سے اپنے گھروں میں شہیدوں کو دفنا رہے ہیں۔ دوسری طرف افغانستان سے دہشتگرد آئے دن پاکستانی فوج پر چھپ کر وار کررہے ہیں اور شہادتیں ہورہی ہیں۔ آخر کب تک پاکستان کی فوج صبر کرے گی۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی وقت برصغیر میں خوفناک جنگ چھڑ سکتی ہے۔ پاکستان کا بہت بڑا حصہ اپنے مرکز سے کٹ کر دشمن پاکستان کی کٹھ پتلی بن چکا ہے اور بقیہ حصہ پر دشمن کی للچائی ہوئی نظریں بری طرح گڑی ہوئی ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے دستِ راست، تحریک پاکستان کے نامور سپاہی اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان وہ عظیم مدبر اور روشن ضمیر سیاستدان تھے جنہوں نے نئی مملکت کی تعمیر ہوجانے کے بعد جس جانفشانی، حب الوطنی اور مسلسل محنت سے پاکستان کی ساکھ بحال کی اورگرتی ہوئی معیشت کو سہارا دیا۔ تباہ حال مہاجرین کی آبادکاری کی افواج پاکستان کی تنظیم کی اور عام شہری کا معیارِ زندگی بلند کیا وہ اپنی مثال آپ ہے جب 14 اگست کو آزادی کا پرچم لہرایاگیا تو پاکستان کے دامن میں سوائے ایمان، حریت، شہادتوں اور ایثار کے موتیوں کے اور کچھ نہ تھا۔ دفاتر میز کرسی سے، خزانے روپے سے اور انتظامیہ سازوسامان سے محروم تھی۔ تقسیم کے وقت جو رقم فوجی سازوسامان اور دیگر اثاثے پاکستان کے حصے میں آئے تھے بھارت نے انہیں اپنے پاس روک لیا اور اس کا عشرِ عشیر بھی پاکستان کے حوالے نہ کیا۔ بے سروسامانی کے اس عالم میں لیاقت علی خان نے مرکزی حکومت کو تعمیروترقی کی راہ پر گامزن کیا اور ان کی وزارتِ عظمیٰ کے چند سالوں میں پاکستان نے ایک عظیم قوم کی عظیم مملکت کی حیثیت سے اقوام عالم میں ایک منفرد مقام حاصل کیا۔ انہوں نے قوم کی بے لوث خدمت کی اور بار ہا اس عزم کا اظہار کیا کہ میں وزارت کے عہدے کو ذریعہ عزت نہیں بلکہ ذریعہ خدمت سمجھتا ہوں۔ شہید ملت نے قومی مسائل کے حل کیلئے جو اقدامات کیے اور قومی فلاح و بہبود کیلئے جو منصوبے بنائے اس کے پس منظر میں ان کی شخصیت کا اثر تھا اور اس سیاسی تربیت کے خدوخال نمایاں تھے جو انہوں نے قائد اعظم کی صحبت میں حاصل کیے تھے۔ انہوں نے خود ایک مرتبہ کہا تھا کہ میں نے قائد اعظمؒ سے 12 سال کی وابستگی کے دوران تین باتیں سیکھی ہیں جنہیں میں اہم سمجھتا ہوں۔ اول یہ کہ آپ کوئی ایسی بات نہ کہیں جسے آپ پورا نہ کرسکتے ہوں۔ دوسرے یہ کہ آپ قومی مفاد کی راہ میں اپنے ذاتی تعلقات یا ذاتی خواہشات نہ آنے دیں۔ تیسرے یہ کہ اگر آپ خود کو حق پر سمجھتے ہیں تو کسی دشمن کے سامنے خواہ وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو سر نہ جھکائیں۔ لیاقت علی خان نے پاکستان کے دستور کی تیاری میں بھی بہت محنت کی۔ اگرچہ وہ لامحدود سیاسی و معاشی مسائل کی بدولت قوم کو کوئی آئین تو نہ دے سکے تاہم انہوں نے 3مارچ1929ء کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں جو قراردادِ مقاصد پیش کی اسے دستور کی تیاری میں سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اس قرار داد کا ہرمکتبِ فکر کے عوام نے پرجوش خیرمقدم کیا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ”ایک ایسا دستور بنایا جائے جس میں اصولِ جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور عدلِ عمرائی کو جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے پورے طور پر ملحوظ رکھا جائے جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ انفرادی و اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق جو قرآن پاک اور سنتِ رسول نے متعین کی ہے ترتیب دے سکیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے حصول پاکستان میں اپنی پوری قوت اور صلاحیت صرف کر دی تھی اور اس کی سلامتی کیلئے قائد ملت لیاقت علی خان نے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہادیا تھا۔ آج کا دن ایک ایسی شخصیت کی زندگی اور کارناموں سے واقف ہونے کا موقع فراہم کررہا ہے جس کے عظیم کردار نے صرف اپنے دوستوں اور اپنی قوم کے افراد ہی سے خراج تحسین وصول نہیں کیا تھا بلکہ اُن کے مخالف اور سیاسی حریف بھی نذرانئہ عقیدت پیش کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ شہید ملت نواب زادہ لیاقت علی خان کی زندگی کے جس ورق کو بھی الٹا جائے وہ پوری طرح روشن اور تابناک نظر آئے گا خواہ وہ ایک نواب زادے کی حیثیت سے ہو یا ایک طالب علم، ایک عام سیاسی سپاہی یا کارکن کی حیثیت سے یا قائد اعظم کے مشیر، دست راست یا ایک دوست کی حیثیت سے اور پھر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت پاکستان کے وزیر اعظم اور قائد اعظم کے بعد ملت اسلامیہ پاکستان کے واحد رہنماء کی حیثیت سے ہر اعتبار سے انہوں نے ملت کے سامنے ایک بہترین نمونہ اور ایک اعلیٰ معیار پیش کیا۔ قائد ملت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ جب انہوں نے سیاست میں قدم رکھنے اور برصغیر کے مسلمانوں کی خدمت کرنے کا فیصلہ کرلیا تو اُن کے پیش نظر صرف ایک ہی مفاد تھا اور وہ ملت کا مفاد تھا۔ اُس کے آگے اپنی ذات، اپنے گھر بار اور اپنے خاندان کے مفاد کی کوئی اہمیت باقی نہ رہی تھی۔ وہ پاکستان اور تحریک پاکستان کی خاطر اپنی صلاحیت، اپنا وقت، اپنی دولت اور جائیداد سب کچھ لٹانے کیلئے ہر وقت آمادہ رہتے۔ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے بعد بھی اُن کی سادگی، اخلاص، بے غرضی کی یہی کیفیت رہی انہوں نے اپنے خاندان اور اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں کچھ بھی نہ سوچا۔ اگر انہیں کوئی فکر تھی اور دن رات تھی تو وہ صرف پاکستان کے مستقبل کی فکر تھی یہی وجہ ہے کہ وہ جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو اُن کے پاس نہ کوئی جائیداد تھی اور نہ کوئی بینک بیلنس تھا اور نہ انہوں نے اپنے لیے کچھ کیا تھا اور نہ کبھی اپنے منصب ورسوخ کو اپنے رشتے داروں کا مستقبل بنانے کیلئے استعمال کیا تھا۔ قیام پاکستان کے ابتدائی اور انتہائی کٹھن دور میں شہید ملت نے وزارت عظمیٰ کا بوجھ سنبھالا جبکہ پاکستان کے بدخواہوں کا ابتداء سے ہی یہ خیال تھا کہ یہ ملک زیادہ دنوں تک اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے گا۔ پاکستان کے مسلمان اقتصادی طور پر اُسے اپنے پیروں پر کھڑا نہ کرسکیں گے۔ بھارت طرح طرح کی سازشیں، رکاوٹیں اور جارحانہ کاروائیاں کرتا رہا۔ کشمیر پر اُس نے غاصبانہ قبضہ کرلیا۔ مہاجرین ایک سیلاب کی صورت میں پاکستان کی طرف دھکیلے جانے لگے۔ اس طرح ملک کے استحکام، اقتصادی حالات کی درستی، مہاجرین کی بحالی اور بھارتی سازشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے قائد ملت کو کئی محاذوں پر کام کرنا پڑا۔ پھر قائد اعظم کی بے وقت وفات کا صدمہ اور ان کی وفات کے بعد کٹھن حالات میں شہید ملت لیاقت علی خاں نے عزم و ہمت صبرواستقلال اور دانش مندی و تدبر کا ایسا مظاہرہ کیا کہ پاکستان کے دشمن جن کو قائد اعظم کی وفات کے بعد پاکستان کی تباہی کا یقین ہوچکا تھا سخت حیران رہ گئے۔ یہ لیاقت علی خاں ہی تھے جن کی طرف اُس وقت پوری ملت کی نظریں لگی ہوئی تھیں اور جو اُن کی امیدوں اور ہمتوں کا سہارا بنے ہوئے تھے وہ قائد اعظم کے بعد ملت اسلامیہ پاکستان کیلئے ایک ایسا ستون بنے ہوئے تھے جس نے پوری عمارت کا بوجھ اپنے اوپر اٹھا رکھا ہو۔ آج کا دن ہماری تاریخ کا وہ انتہائی غم انگیز دن ہے جبکہ دشمن نے خواہ وہ ملکی ہو یا غیرملکی یہ فیصلہ کیا کہ اگر پاکستان کی عمارت کو ڈھانا ہے تو صرف اس ایک ستون کو گرا دو ساری عمارت ازخود زمین پر آگرے گی۔ دشمن 16 اکتوبر کو راولپنڈی میں اس ستون کو گرانے میں گولی چلا کر کامیاب تو ضرور ہوگیا لیکن پاکستان کی عمارت ختم ہوجائے اُس کی یہ آرزوپوری نہ ہوسکی۔ شہید ملت کی آخری دُعا کہ خدا پاکستان کی حفاظت کرے۔
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب