مدینہ کی بستی کے دو اصول، خوفِ خدا اور عشقِ رسول

مدینہ کی بستی کے دو اصول، خوفِ خدا اور عشقِ رسول
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان صاحب نے منصب سنبھالنے کے بعد قوم سے جو پہلا خطاب کیا اس میں انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان میں ریاست مدینہ کا نظام رائج کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے اس خطاب نے مجھ سمیت پوری پاکستانی قوم کے دل جیت لیے۔ اللہ ربُ العزت آپ کو اس پاک ارادے میں استقامت عطا فرمائے اور آپ کے ہاتھوں یہ بکھرا ہوا پاکستان جو میرے نزدیک اکہتر سال گزرنے کے باوجودآج بھی اپنی منزل سے دور ہے اور اس کے عوام اپنے قائد اعظم کے بنائے ہوئے اصولوں اتحاد، تنظیم اور ایمان کو نظر انداز کرنے کے باعث آج تک ایک قوم نہیں بن سکے۔ آج ہم پنجابی، پختون، بلوچ، سندھی، سرائیکی اورمہاجر کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہمسایہ ملک ہندوستان کے عوام اپنے آپ کو ہندوستانی قوم کہلا کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم ہرمیدان میں ہندوستان سے بہت پیچھے ہیں۔ اللہ کرے کہ آپ کا خواب شرمندۂ تعبیر ہواور پاکستان مدینے کی ریاست کے نمونے پر تعمیر و ترقی کی منزل کی جانب گامزن ہو سکے!
خان صاحب! میں آپ کو مدینے کی بستی کا ایک واقعہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جب رسول اکرم ا کا وصال ہوا تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو یاد آیا کہ مدینے کی ایک بستی میں ایک بڑھیا اکیلی رہتی ہے جس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ اُس کے گھر گئے، دروازے پر جا کر اندر آنے کی اجازت لی۔ اندر جا کر ماں جی کو کہا کہ میں آپ کی خدمت کیلئے آیا ہوں۔ میں آپ کو کھانا بنا دیتا ہوں، پانی بھر کر لا دیتا ہوں۔ تو اماں کا جواب تھا کہ بیٹا! اس کی ضرورت نہیں کیونکہ پہلے ہی ہر روز صبح ایک شخص آتا ہے اور میرے گھر کے سب کام کرکے چلا جاتا ہے۔ جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بہت حیران ہوئے آپ نے مسلسل دوچار روز نگرانی کی لیکن کوئی نظر نہ آیا تاہم انہوں نے یہ سلسلہ جاری رکھا ایک دن رات کے آخری پہر میں حضرت عمررضی اللہ عنہ چھپ کر بیٹھے تھے۔ کیا دیکھا کہ ایک شخص چادر اوڑھ کر بڑھیا کے گھر میں داخل ہوا کچھ دیر بعد وہ باہر آیا اور ایک پانی کا مشکیزہ بھر کر گھر میں لے گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس خدمت گار کو پہچاننے کے لیے جب غور سے دیکھا تو وہ خلیفہ بلالفصل، جن کا مقام انبیاء کے بعد ہے، سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ تھے۔
جناب وزیر اعظم یہ تو ریاست مدینہ کے قیام کے بعد کا واقعہ تھا، اس سے بھی بہت پہلے جب ریاست مدینہ کے بانی حضرت محمدا نے اپنی نبوت یعنی کلمہ طیبہ کی دعوت کا آغاز کیا تو مکے کی بستی کے مکینوں نے بیک آواز یہ گواہی دی کہ آپ ا صادق اور امین ہیں آپ جو کہیں گے سو فیصد درست کہیں گے مگر اس کے باوجود جب اہل مکہ نے کلمہ طیبہ کی دعوت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور رسول کریم ا اور ان کے ساتھیوں کو طرح طرح سے ستایا جانے لگا تو تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بیت اللہ میں جب نبی اکرم ا نماز پڑھنے جایاکرتے تھے تو ایک بڑھیا ہر روز آپ کے راستے میں کوڑا پھینکا کرتی تھی۔ ایک دن وہ کوڑا پھینکنے نہ آئی، دوسرے دن بھی نہ آئی، تیسرے دن بھی نہ آئی اور جب چوتھے دن بھی نہ آئی تو آپ ا اُس کے گھر چلے گئے اور گھر جا کر دروازے پر دستک دی، اندر سے بیٹی نے دیکھا کہ آپ ا باہر کھڑے ہیں تو اُس نے ماں کو کہا کہ تُو تو بیمار پڑگئی ہے باہر وہ شخص آیا ہے جس کے راستے میں تو کوڑا پھینکتی تھی اور میں تجھے منع کرتی تھی۔ بتا اب ہمارا کیا بنے گا؟ بڑھیا نے کہا کہ اس کو اندر آنے دے میں نے سُنا ہے کہ اس کا اخلاق بہت اچھا ہے۔ آپ ا اندر تشریف لے گئے اور بڑھیا کی عیادت کی اور خیریت معلوم کی تو وہ آپ ا کے اخلاق سے اس قدر متاثر ہوئی کہ فوراً اسلام قبول کر لیا۔
خان صاحب! حدیث میں آیا ہے کہ دو مواقع پر اللہ ربُ العزت کا عرش ہل جاتا ہے، ایک جب میاں بیوی میں جُدائی یعنی طلاق ہوجاتی ہے اور دوسرا جب یتیم ظلم کی وجہ سے روتا ہے تو اللہ کا عرش ہل جاتا ہے۔ اللہ ربُ العزت نے سورۃ البقراء کی آیت نمبر۳۸ پارہ نمبر۱ میں ارشاد فرمایا ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ”اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ سے نیک سلوک کرنا اور رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں سے……“ اللہ ربُ العزت نے جہاں اپنی وحدانیت کا اقرار لیا وہیں یتیموں اور محتاجوں کے حقوق کا ذکر کردیا۔ سورۃ النساء پارہ نمبر۴ کی آیت نمبر۰۱ میں ارشاد فرمایا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ جو لوگ یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں اور اس جرم کی سزا اللہ پاک یہ دے گا کہ قیامت کے دن جب یہ لوگ آگ کھانے پر مجبور ہوں گے اور یہ لوگ قیامت کے دن قبر سے اس طرح اُٹھیں گے کہ اُنکی آنکھوں، کانوں اور منہ سے شعلے نکل رہے ہونگے جو شخص بھی ان کو دیکھے گا اس علامت سے پہچان لے گا کہ اس شخص نے یتیموں کا مال ناحق کھایا ہے۔
خان صاحب! میں آپ کی توجہ ایک انتہائی اہم مسئلے کی طرف دلوانا چاہتا ہوں کہ آپ وقت کے حاکم ہیں۔ اکتوبر 2006؁ء میں اُس وقت کے وزیر اعظم نے مزدوروں کی بیواؤں اور یتیم بچوں کیلئے پی ایم پیکج کا اعلان کیا تھا لیکن بدقسمتی کہ اُنہوں نے سستی شہرت تو حاصل کرلی مگر آج تک اُس کے لیے سرکاری محکموں کو اضافی وسائل مہیا نہ کیے۔ اسی طرح پھر نو فروری 2015کو اُس وقت کے وزیر اعظم نے اس پالیسی پر نظرثانی کی اور اعلان کیا کہ بیواؤں کے بچوں کی شادی، تعلیم، ہاؤس رینٹ اور بیواؤں کے لیے پلاٹ کو سکیل کے حساب سے واجبات دیے جائیں گے۔ شہرت تو لے لی مگر سرکاری محکموں کو اضافی بجٹ انہوں نے بھی نہ دیا۔
جناب وزیر اعظم! مجھے ریلوے کے محنت کشوں کی اجتماعی سودا کار پریم یونین کے سینئر نائب صدر کی حیثیت سے آئے روز اپنے محکمہ کی ایسی بیواؤں سے واسطہ پڑتا ہے جن کے خاوند محکمہ ریلوے میں ملک و قوم کی خدمت کرتے ہوئے ڈیوٹی پر فوت ہو گئے مگر سالہا سال گزر جانے کے باوجود ان کی بیواؤں کو اعلان کردہ یہ واجبات آج تک ادا نہیں کئے گئے اسی طرح ایسے بہت سے یتیم بچے بھی ریلوے دفاتر کی راہداریوں میں دھکے کھاتے اور چکر لگاتے عام دیکھے جا سکتے ہیں، جن کے والد کی ڈیوٹی کے دوران وفات کے بعد ان سے محکمہ میں ملازمت دینے کا وعدہ اس پی ایم پیکج میں کیا گیا تھا…… میں ریلوے ملازمین کا ایک نمائندہ ہونے کی حیثیت سے آپ کے علم میں لانا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اس وقت یہ واجبات بڑھتے بڑھتے تقریباً دو ارب سے تجاوز کرچکے ہیں۔ آپ سے استدعا ہے کہ اس مسئلہ پر فوری توجہ دی جائے، بیواؤں اور یتیم بچوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا جائے اور ان کے تمام واجبات اور حقوق ادا کیے جائیں۔ میں آپ سے یہ بھی گزارش کروں گا کہ ریلوے میں کام کرنے والے یتیم بچے اور بچیوں کو مستقل کرنے کا حکم جاری کریں اور ہزاروں خاندانوں کی دُعائیں سمیٹ لیں۔ میرے نزدیک ماضی کی حکومت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اُنہوں نے اس ملک کی بیواؤں اور یتیم بچوں کی دُعائیں نہ لیں بلکہ یتیم بچوں کی آہیں اور سسکیاں اُن کو لے بیٹھیں۔ امید ہے آپ ان بے سہارا بیواؤں اور یتیموں کا سہارا بنیں گے، ان غریب و لاچار لوگوں کے سر پر دست شفقت رکھتے ہوئے ان کے واجبات اور حقوق کی فوری ادائیگی کا حکم جاری کریں گے تاکہ ان کی آہوں، سسکیوں اور بددعاؤں اور رب قہار و جبار کے غضب سے محفوظ رہ سکیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق اور جزائے خیر سے نوازئے۔
خان صاحب! یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب آپ نے حکومت کا چارج سنبھالا تو ملک کا خزانہ خالی تھا اور سابقہ حکمرانوں نے اس ملک کو بڑی بے دردی سے لوٹا اور معاشی ابتری کی ذمہ دار ماضی کی حکومتیں ہیں۔ آپ کو اندرونی اور بیرونی بے پناہ سازشوں کا سامنا ہے لیکن میرا یہ یقین ہے کہ اللہ ربُ العزت آپ کو پاکستانی قوم اور مزدوروں کی دُعاؤں سے اس بحران سے نکالے گا۔ آپ ایک جمہوریت پسند انسان ہیں اور آپ نے قوم کو جو خواب دکھائے تھے اب ہم ان کی تعبیر کے منتظر ہیں، سیاسی جماعتوں اور بالخصوص حکمرانوں کو محنت کشوں کو نظر انداز نہیں کرناچاہیے۔ مزدوروں کے بغیر ملکی معیشت کی ترقی کا پہیہ نہیں چل سکتا۔ منتخب ایوانوں میں محنت کشوں کی مخصوص نشستیں ہونی چاہییں۔ مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ملک کے مزدوروں کی تنخواہ ایک تولہ سونا کے برابر کرنی چاہیے۔ آپ کو چاہیے کہ مزدور برادری کی پریشانیوں کو حل کرنے کیلئے پاکستان نیشنل لیبر فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل اور پاکستان ریلوے پریم یونین کے مرکزی صدر حافظ سلمان بٹ جو کہ دو مرتبہ قومی اسمبلی کے اور ایک مرتبہ صوبائی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں اور جن کا دامن بے داغ ہے جو کہ آج بھی کرائے کے مکان میں رہتے ہیں اُن کے ساتھ ایک نشست کریں تاکہ ملک بھر کے مزدوروں کو آپ قومی دھارے میں شامل کرسکیں۔
تحریر: شیخ محمد انور
مرکزی سینئر نائب صدر پاکستان ریلوے پریم یونین سی بی اے
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0300-9481002

کیٹاگری میں : Column

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے