ملک بھر میں لاک ڈاؤن جو محدود …… …… وہ محفوظ کیا…… …… حکومت کرونا وائرس کو شکست دے پائے گی؟ خدارا ریلوے مزدوروں کے حال پر بھی رحم کریں۔ 2020

تحریر: شیخ محمد انور
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
ملک بھر میں لاک ڈاؤن جو محدود …… …… وہ محفوظ
کیا حکومت کرونا وائرس کو شکست دے پائے گی؟ خدارا ریلوے مزدوروں کے حال پر بھی رحم کریں۔
چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والے کرونا وائرس نے دنیا کو ہلاکررکھ دیا ہے۔ اس مہلک مرض کے باعث دنیا بھر میں مریضوں کی تعداد 8 لاکھ کے قریب ہوچکی ہے اور اس تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں کرونا وائرس سے اموات کا سلسلہ تھم نہیں سکا۔ دنیا کے 199 ممالک اور خودمختار علاقوں میں پھیلنے والے کروناوائرس سے مرنے والوں کی تعداد 35ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اس جان لیوا وبا سے اٹلی میں سب سے زیادہ اموات ہوئی ہیں۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، تمام تر اقدامات کے باوجود ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ممالک بھی اس عالمی وباء کے آگے بے بس نظر آرہے ہیں۔ کرونا وائرس ایک عالمی وباء کی صورت میں عالم انسانیت کو عذاب میں مبتلا کررہا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح کروناوائرس پاکستان میں بھی پہنچ چکا ہے۔ ملک بھر میں کروناوائرس کے مجموعی مریضوں کی تعداد پنجاب میں 571، سندھ میں 502، خیبرپختونخواہ میں 188، بلوچستان میں 138 اور گلگت میں 116افراد متاثر ہوئے ہیں اور 20 افراد جان کی بازی ہارچکے ہیں۔ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے حکومتی سطح پر کوششیں جاری ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کے چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں لاک ڈاؤن جاری ہے لیکن افسوس کہ پاکستان کی عوام لاک ڈاؤن پر عمل درآمد نہیں کررہی۔ عوام کو کرونا وائرس سے بچانے کیلئے حکومت نے اگر یونیورسٹیاں، کالج، سکول اور مارکیٹیں بند کی ہیں توعوام گھروں میں بیٹھنے کی بجائے سڑکوں پر کرکٹ کھیلنے میں مصروفِ عمل ہے، پاکستانی قوم کو یہ سب کھیل تماشہ لگ رہا ہے، کچھ لوگ شور مچارہے ہیں کہ یہ سب کیوں کیا جارہا ہے اور کچھ لوگ لاک ڈاؤن کی خوشی میں گھروں میں دعوتیں اُڑانے میں مصروف ہیں اور ابھی تک پاکستانی قوم نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ خطرہ یہ ہے کہ جب مرض بگڑتا ہے تو سوائے وینٹیلیٹر کہ کوئی چارہ کار ممکن نہیں اور مریض کووینٹیلیٹر نہ ملنے کا مطلب موت ہے۔ دستیاب اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر میں صرف 2500 کے قریب وینٹیلیٹر موجود ہیں جوکہ ناکافی ہیں۔ اٹلی میں تباہی کی اصل وجہ وہاں کی عوام کا عدم تعاون ہے جنہوں نے حکومتی لاک ڈاؤن کے خلاف جلوس نکالنے شروع کردئیے تھے اور آج حالتِ زاریہ ہے کہ اموات اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ لاشوں کو شاول کے ذریعے اُٹھا کر ٹرکوں میں ڈال کر گڑھوں میں اجتماعی طور پر دفن کیاجارہا ہے اور یہی صورتحال سپین کی ہے اور امریکہ جیسی سپرپاور بھی اس موزی بیماری کے سامنے بے بس دکھائی دیتی ہے۔ وفاقی حکومت نے ایک کروڑ بیس لاکھ مستحق خاندانوں کیلئے سوارب کا حکومتی پیکج کا اعلان کیا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ مزدور طبقوں کو ریلیف دینے کیلئے وزیراعظم عمران خان اور اُن کی کابینہ جو فیصلے کررہی ہے اگر اس پر عمل درآمد ہو تو یہ قابلِ تحسین ہے۔ ہمارے پاس اس بیماری سے نمنٹنے کا واحد حل احتیاط ہے اور فیصلہ عوام نے خود کرنا ہے کہ لاک ڈاؤن میں سیرسپاٹے کرنے ہیں یا گھروں میں بندہوناہے۔ عوام کو چاہیے کہ حکومت کے ساتھ تعاون کریں تاکہ کرونا کے خلاف جنگ جیتی جاسکے اور پھر سے نظام زندگی بحال ہوسکے مگر افسوس کہ ہم کرونا سے لڑنے کی بجائے آپس میں لڑرہے ہیں۔ کرونا وائرس کی وباء سے اللہ تعالیٰ نے تمام انسانیت اور خصوصی طور پر تمام اُمت مسلمہ کو یہ پیغام دیا ہے کہ دنیا کی مادی، سائنسی اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی بنیاد پر آپ اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے راستے کو چھوڑ کر شیطانی راستہ اختیار کرچکے ہیں جو کہ تباہی اور بربادی کا راستہ ہے۔ تمام اُمت مسلمہ سے اپیل ہے کہ فوراً صحیح اور صراط مستقیم کے رستے کو اختیار کرکے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو بہترکرلیں اور اللہ سے دُعا کریں کہ اللہ ہمیں صحیح رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی غیبی مدد سے ہمیں اس وباء سے نجات عطا فرمائے۔آمین۔ حکومت دستیاب وسائل سے عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کررہی ہے جبکہ کچھ لوگ جان بوجھ کر اشیائے خوردونوش کا بحران پیدا کرکے عوام کیلئے مشکلات پیداکررہے ہیں۔ اس میں دورائے نہیں کہ ناجائز منافع خوری کے ذریعے عام آدمی کی جیب پر ہاتھ صاف کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ اب جبکہ ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کی جاچکی ہیں، آٹا چینی کے نرخوں کی سخت نگرانی کی جارہی ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کو آہنی ہاتھوں سے دبوچا جاسکے تاکہ عوام کو مصنوعی مہنگائی سے نجات مل سکے۔ کرونا وائرس کے بے قابو جن کے باعث جب پوری دنیا بے بسی کا شکار کاروباری مراکز فیکٹریاں بند ہیں اور ہرکسی کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں تو ایسی صورت میں عوام کا فرض ہے کہ حکومت کی طرف سے جاری کردہ ہدایات پر عمل کریں۔ اگر ہم یونہی لاک ڈاؤن کے حوالے سے حکومت کے احکامات ہوا میں اُڑاتے رہے تو پھر کرونا کی وباء سے نمنٹا نہیں جاسکتا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تمام مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے سب سے زیادہ مزدور طبقے کا خیال رکھیں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کا گزراوقات محنت مزدوری پر ہوتا تھا۔ یہ لوگ روزانہ کی بنیاد پر کماکرکھایا کرتے تھے۔ اب جبکہ کرونا کے باعث یہ لوگ گھروں میں بیٹھنے پر مجبور ہیں تو حکومت سب سے پہلے ان مزدور طبقوں کو فوری ریلیف دے۔ ملک بھر میں کرونا وائرس کے کیسز میں اضافے کے حوالے سے عوام کے ساتھ ساتھ حکومتی حلقوں میں بھی تشویش پائی جارہی ہے۔ بیشک رجوع الٰہی، سماجی فاصلہ اور ایسے ہی احتیاطی اقدامات کے علاوہ اس مہلک وباء سے نجات کا کوئی راستہ نہیں، اگر ہوتا تو بڑی بڑی سپرطاقتیں تمام تر وسائل و خزانوں کے ساتھ اس قدر لاچار، بے بس اور معذور نظر نہ آتیں۔ میرے رب کی طرف سے معمولی سی آزمائش کیا آئی، طاقت کے نشے میں دھت ان سب ایٹمی طاقتوں کے ہوش ٹھکانے آگئے۔ آج ساری دنیا اس بات کا اقرار کررہی ہے کہ بیشک اللہ ہی کی بادشاہی ہے اور قیامت تک اسی کی بادشاہی قائم و دائم رہے گی۔ کرونا وائرس مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، روئے زمین ایک بھی ایسا ملک یا ایسا کونا نہیں جو اس وباء کا شکار نہ ہو۔ حکومت کے اعلان کے مطابق ملک بھر میں لاک ڈاؤن جاری ہے، تمام مواصلاتی نظام جام، سڑکیں سنسان، ہوائی اڈے ویران اور ریل گاڑیوں کا پہیہ جام ہے۔ تمام سرکاری و نجی دفاتر، مارکیٹیں اور دکانیں بند ہیں۔ مساجد میں 50سال سے زائد عمر کے لوگوں کو جانے سے روک دیا گیا ہے، حتیٰ کہ بیت اللہ اور روزۂ رسولﷺ بھی بند کردیا گیا ہے اور طواف بھی بند کردیا ہے، لوگوں کو گھروں میں رہنے کی سختی سے ہدایت کی جارہی ہے تاکہ کرونا وائرس سے بچاجاسکے، اس ہدایت پر عمل درآمد کیلئے فوج، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خدمات لی گئی ہیں۔ پورا ملک گھروں میں مقید ہے لیکن پاکستان ریلوے جو کہ خیبر سے کراچی، کراچی سے کوئٹہ، کوئٹہ سے تافتان، کوئٹہ سے چمن، لاہور سے واہگہ اور لاہور سے چک امرو تک پھیلا ہوا ہے، اس کے ساتھ کیرج ورکشاپ، اسٹیل شاپ، لوکوشاپ، سی ڈی ایل شاپ راولپنڈی، کیرج فیکٹری اسلام آباد، اسٹیشنوں پر موجود واشنگ لائنز، ڈیزل شیڈز اور لوکو موٹیو فیکٹری رسالپور میں ہزاروں ملازمین اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں، انہیں کسی قسم کی کوئی چھٹی نہیں ہے۔ ریلوے ملازمین جو کہ دن رات لوہے سے کھیلتے ہیں یہ لوہے کے بنے ہوئے تو نہیں ہیں اور نہ ہی یہ ملازمین کرونا پروف ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا ریلوے ملازمین کی زندگی اتنی سستی ہے یا انہیں قربانی کا بکرا سمجھا گیا ہے، ان کے احساسات اور جذبات نہیں۔ یہ ملازمین جنگلوں، پہاڑوں، صحراؤں اور ریگستانوں میں شب و روز ڈیوٹیاں سرانجام دے ہیں۔ ان کے پاس کوئی حفاظتی سامان بھی میسر نہیں ہے۔ یاد رکھیں جب تک معاشرے میں ناانصافیاں ہوتی رہیں گی تب تک قدرتی آفات قوم پر آتی رہیں گی۔ ہم وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کو توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ جس طرح ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل سٹاف کو تین ماہ کیلئے رسک الاؤنس دیا ہے جو کہ خوش آئند ہے اسی طرح ریلوے ملازمین کو بھی مشکل حالات میں قوم کی خدمت جاری رکھنے پر رسک الاؤنس بھی دیا جائے اور حفاظتی سامان بھی فراہم کیا جائے تاکہ ریلوے ملازمین بھی مالی آسودگی کے ساتھ ساتھ محفوظ ماحول میں اپنے فرائض جاری رکھ سکیں کیونکہ موجودہ صورتحال میں ملازمین کے کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں اور ظاہر ہے کہ جب کوئی ریلوے ملازم کرونا سے متاثرہوگا تو اُس کے اہلِ خانہ اور اہلِ محلہ کے علاوہ اُس کے ساتھ کام کرنے والے دیگر ساتھی بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔ یوں وہ مقصد سرے سے فوت ہوجائے گا جس کی خاطر پورے ملک میں لاک ڈاؤن کیا گیا ہے۔

کیٹاگری میں : Column

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے