تحریر: شیخ محمد انور
ای میل: sheikhmanwarW@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
نظریہ پاکستان کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔
تحریک پاکستان کا اصل مقصد سرزمین پر حکمرانی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ دین اسلام کا عملی نفاذ تھا۔
آزادی کی تحریک میں قرار داد پاکستان بے حد اہمیت کی حامل ہے۔ اس کے بعد مسلمانوں میں اتحاد رونما ہوا اور کامیابی کے ساتھ مسلمانوں کا کارواں منزل با منزل پاکستان کی جانب گامزن ہوااور مسلم لیگ اور مسلم قوم نے ہندوؤں کے ظلم و ستم کے خلاف پاکستان کے حصول کیلئے تن، من، دھن کی بازی لگانے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں صرف 7 سال کی جہدمسلسل جدوجہد کے بعد پاکستان حاصل کرلیا گیا جو ایک معجزہ اور قابلِ فخر کارنامہ ہے اور جو زندہ جاوید رہے گا۔ آج سے 80 سال قبل برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے لیے ایک جداگانہ وطن کا مطالبہ کیا تھا۔یہ ہماری ملت کی تاریخ کا ایک یادگار دن تھا جس کی اہمیت اس حقیقت کے باوجود کم نہیں ہوسکتی کہ ہم نے اپنے عظیم رہنما قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں جو مملکت حاصل کی تھی اس کے جسد پر پے درپے بہت گہرے زخم لگائے گئے ہیں جن سے آج بھی خون جاری ہے۔ ہمارے دشمن تو ہماری آزادی اور سالمیت کے خلاف پروپیگنڈے کرنے میں مصروفِ عمل رہتے ہیں جس میں انہیں آج بھی ایسے افراد کا تعاون حاصل ہے جنہوں نے پاکستان اور نظریہ پاکستان کو کبھی قبول نہیں کیا۔ آج ہم مایوسی، بددلی اور شکست خوردگی میں مبتلا ہیں، ہم میں سے بہت سے لوگوں کی خوداعتمادی مایوسی اور ناامیدی میں بدل چکی ہے اور ان کیلئے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ہم بچے کچھے پاکستان کو بھی قائم رکھنے میں کامیاب ہوسکیں گے یا نہیں؟ یہ درست ہے کہ موجودہ حالات بہت مشکل اور صبرآزما ہیں لیکن قوموں کی تاریخ میں ایسے مرحلے آتے رہتے ہیں جب امید کی شمع لودینے لگتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بڑھتی ہوئی تاریکی اب کبھی ختم نہیں ہوگی لیکن ہر صبح اپنے ساتھ ہمیشہ ایک روشنی کی کرن لاتی ہے کیونکہ یہی نظام قدرت ہے۔ قائد اعظم نے جب ہندوستان کے مسلمانوں کی رہنمائی کی ذمہ داری اُٹھائی تو اُس وقت برصغیر کے مسلمان چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹے ہوئے تھے، اُن کی کوئی حیثیت اور کوئی طاقت نہیں تھی، وہ بکھرے ہوئے اور ایک دوسرے کے دست و گریباں تھے لیکن قائد اعظم نے اپنی قیادت میں ان میں توانائی اور خوداعتمادی کی ایک نئی روح دوڑا دی اور کروڑوں بکھرے ہوئے افراد کو ایک دل اور ایک جان بنادیا، ان کے ذہن اور دل آزادی کے جذبے سے سرشار تھے، ان میں ملی تشخص اور قومی طاقت کا شعور اس طرح پیدا ہوگیا تھا کہ دشمن کی کوئی سازش کارگر نہیں ہوسکی۔ انھوں نے برہمنی سامراج کی تمام زنجیریں توڑنے کا تہیہ کیا تھا۔ وہ متحد ہوگئے، اُن کے دل ایک ساتھ دھڑکتے تھے، ان کی ایک ہی منزل تھی، ان کا ایک ہی نصب العین تھا، ان سب نے ایک ہوکر اپنے لیے ایک جداگانہ مملکت قائم کرنے کا عہد کیا تھا اور یہ اسی اتحاد کا نتیجہ تھا کہ مسلمان ایک طاقت بن گئے، ایک عظیم اور ناقابل تسخیر طاقت جس نے ہندوؤں اور انگریزوں کے گٹھ جوڑ کو ناکام بنادیا جس کے نتیجے میں بہت جلد ایک آزاد ریاست کے طور پر پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ مسلمانانِ برصغیر کی تاریخ آزادی میں 23 مارچ کو اس اعتبار سے ایک باوقار حیثیت حاصل ہے کہ اس روز مسلمانوں کے جداگانہ قومی تشخص کی بنیاد پر ان کیلئے ایک الگ ریاست کے قیام کا تاریخی مطالبہ کیا گیا اور آل انڈیا مسلم لیگ نے قائداعظمؒ کی قیادت میں اپنے اجلاس میں ایک قرار داد منظور کی جس کے بارے میں خود قائداعظمؒ نے اس اجلاس میں کہا تھا کہ ”یہ قرار داد ہندوستان کی تاریخ میں ایک نشانِ راہ ہے کیونکہ ہند کے مسلمانوں نے اس کے ذریعے اپنی تشریح و تصریح کردی ہے“۔ اسے ابتداء میں قرار داد لاہور کا نام دیا گیا مگر بہت جلد اسے قرار دادِ پاکستان کے نام سے لازوال شہرت حاصل ہوگئی اور قائد اعظمؒ کی فراست اور مسلمانانِ برصغیر کے عزم و اتحاد کا کرشمہ ہے کہ سات سال کی قلیل مدت میں اس قرار داد کے مطابق مسلمانوں کا جداگانہ وطن پاکستان کے نام سے معرضِ وجود میں آگیا۔ اسی قرار داد میں جو مطالبہ کیا گیا تھا اسے علامہ اقبالؒ کے اس تاریخی خطبے کی بازگشت قرار دیاجاسکتا ہے جو انہوں نے مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ الٰہ آباد میں دیا تھا اور جس میں انہوں نے کھلے لفظوں میں برصغیر کی تقسیم پر زور دیاتھا۔ اس اعتبار سے یہ دن مسلمانانِ برصغیر کی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس روز ان کی قومی جدوجہد کی منزل واضح طور پر متعین ہوگئی تھی اور وہ عزم و اتحاد کے ساتھ قائد اعظمؒ کی رہنمائی میں اس منزل کیلئے سرگرمِ سفر ہوگئے تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس اتحاد کی بدولت وہ بہت جلد ایک عظیم اور ناقابلِ تسخیر طاقت بن گئے اور انگریزوں اور ہندوؤں کی مشترکہ سازشوں کا پوری ہمت اور طاقت کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے اپنے نصب العین کے حصول میں کامیاب ہوگئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان آج انتہائی مشکل صورتحال سے دوچار ہے اور ہمیں ابھی اپنے قومی وجود کی حفاظت کیلئے بہت کچھ کرنا ہے لیکن پاکستان جس قومی بنیاد پر معرض وجود میں آیا ہے اس کو مضبوط کیے بغیر ہم اپنے قومی وجود کے تحفظ کو یقینی نہیں بناسکتے یہ بنیاد اسلام ہے، بدقسمتی سے ماضی میں بھی اسلام کا نام تو بہت لیاگیا مگر عملاً اسلامی معاشرے کے قیام کیلئے کچھ نہیں کیاگیا۔ آج کا دن ہمیں نہ صرف فکروعمل کی دعوت دیتا ہے بلکہ ہمیں یہ یاد بھی دلاتا ہے کہ ہم پر تعمیروطن اور استحکام وطن کے سلسلے میں کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ آج کا دن یہ پیغام لے کر طلوع ہوا ہے کہ ہمیں اپنی قومی بنیاد اور ملکی یکجہتی کی حفاظت پہلے سے بھی کہیں زیادہ ذمہ داری کے ساتھ کرنی چاہیے۔ جب پاکستان معرض وجود میں تو ملک میں اسلامی نظام کی بنیاد رکھ دی گئی تھی اب اس بنیاد پر ہمیں عدل و انصاف اور معاشی و معاشرتی ترقی کا بالائی ڈھانچہ تعمیر کرنا ہے۔ یہ قوم کے ہر فرد کا فریضہ ہے کہ اسلامی خطوط پر ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے مواقع سے فائدہ اُٹھائے اور قومی تعمیر نو کی سرگرمیوں میں اپنا حصہ ادا کرے اگر اہلِ پاکستان ایک طاقت ور اور ترقی یافتہ قوم کی حیثیت سے عالمی برادری میں کوئی باعزت مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں اپنی صفوں میں مثالی اتحاد پیدا کرنا ہوگا اور اپنی تمام توانائیاں قومی تعمیر کے کاموں کیلئے وقف کرنا ہوں گی۔ ہم مسلمانوں کا ایک ہی نعرہ تھا ”پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الا اللہ“ لیکن افسوس کہ آج بے راہ روی کی وجہ سے جس کو پہلے ہی بہت گھناؤنا زخم 1971ء میں لگ چکا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کا ایک بازو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جداہوگیا لیکن آج ناعاقبت اندیش قوتیں پاکستان میں ایسے غلیظ ہتھکنڈے آزما رہے ہیں کہ جنہیں دیکھنے اور سننے کے بعد ہر انسان کا سرندامت سے جھک گیا ہے۔ آج کے دن ہمیں صدقِ دل اور خلوص نیت سے یہ عہد کرنا چاہیے کہ اپنے وطن کے استحکام اور سالمیت کیلئے ہم کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ ہم تفرقہ اور انتشار پسند قوتوں کا ہرقدم پر ڈٹ کر مقابلہ کریں گے اور ایک ایسا معاشرہ تعمیر کریں گے جو اسلام کے عدل و مساوات کے نظریوں پر قائم ہوگا۔ ہم بلاشبہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اسلام کی تعلیمات کے مطابق ڈھال کر نہ صرف اپنے مصائب و مسائل کا حل تلاش کرسکتے ہیں بلکہ پوری دنیا کو اسلام کی حقانیت کا قائل کرسکتے ہیں۔ یہ مقصد محض حکومتی سطح کے اقدامات اور اسلامی قوانین کے نفاذ سے ہی حاصل نہیں ہوسکتا بلکہ ہم میں سے ہرفرد کو اپنا محاسبہ کرناہوگا اور روزمرہ کے معمولات میں اسلامی تعلیمات پر عمل پیراہوناہوگا۔ ہماری دینی اور دنیوی نجات کی واحد صورت یہی ہے کہ اسلام کے ساتھ وابستگی کے زبانی دعوے کرنے کے بجائے ہمارا عمل ہمارے ایمان کی تصدیق کرے اور ہمارا معاشرہ امن و سلامتی اور ترقی و خوشحالی کا گہوارہ بن جائے اس کیلئے ہمیں لامحالہ بہتر مسلمان اور بہتر پاکستانی بن کر دکھانا ہوگا۔ آئیے آج کے مبارک دن ہم اس عہد کی تجدید کریں کہ ہم پاکستان اور نظریہ پاکستان کی حفاظت کریں گے اور پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی معاشرہ میں بدل دیں گے۔ یوم پاکستان ہمیں اپنے ماضی کی کوتاہیوں کا اصلاح و احوال کرنے، حال کو درست کرنے کا تقاضہ کرتا ہے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کیلئے مادروطن کو پیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے غوروفکر اور ملک کی سلامتی و استحکام کی خاطر ہر قربانی دینے کیلئے تیار رہنے کا متقاضی ہے اور یہی مادر وطن کا ہم پر قرض ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلی جب تک وہ خود اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش اور خیال نہ کرے۔ محلات اور بنگلوں کی تمنا کے چکروں میں وقت ضائع نہ کریں یا ان کی طلب میں ہرجائزوناجائز کاموں میں وقت ضائع نہ کریں بلکہ صبروتحمل سے کام لیں۔ اپنے سے اوپر کلاس کو نہ دیکھیں بلکہ اپنے کم طاقت اور کمزور کو دیکھیں اور اُن کی مدد کریں اسی جذبے کی آج مادروطن کو سخت ضرورت ہے۔ کیونکہ جن حالات کا مادرِ وطن کو آج سامنا ہے شاید پہلے کبھی نہیں تھا جس کیلئے ہر پاکستانی کو بغیر امتیاز رنگ و نسل اور تعصب ایک قوم و ملت بن کر یکجہتی کا مظاہرہ کرکے اتحاد و اتفاق اور یگانگت کا ثبوت دینا ہی مادر وطن کے قرض اتارنے کے مترادف ہے۔ مادر وطن کے تقدس اور تحفظ کیلئے اس کی چادر پر اپنی جان نچھاور کرنے کیلئے ہمیں ہروقت تیار رہنا ہوگا۔ لسانیت، تعصب، دہشتگردی اور فرقہ واریت کے عذاب سے نجات کیلئے جرأت مندانہ فیصلے کرناہونگے جن سے اللہ کی رضا کے ساتھ ساتھ ہمارا ایمان، پاکستان اور سلامتی و تحفظ کی ضمانت حاصل ہوسکے اور جو قرارداد مقاصد اور یوم پاکستان کی صحیح روح ہے نیز مادرِ وطن کا ہم پر قرض اور فرض بنتا ہے۔
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب