وطن کی حفاظت مسلح افواج کا نصب العین ہے۔
پاکستانی قوم کو ایک بار پھر 6 ستمبر کے جذبے کی ضرورت ہے۔
اس روز پاک فوج کے شہیدوں اور غازیوں نے غزوۂ بدر کی یاد تازہ کردی تھی۔
آج کے دن وطن کے بیٹوں نے وطن کی حفاظت کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیاتھا۔
6 ستمبر اہل پاکستان کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ 53 سال قبل آج ہی کے دن پڑوسی ملک بھارت نے اپنی بے پناہ فوجی طاقت کے بل بوتے پر پاک سرزمین پر حملہ کیا لیکن خدا کا فضل ہمارے شامل حال تھا اور ہم نے اپنے سے پانچ گنا طاقتور دشمن کو ذلت آمیز شکست دے کر وطن عزیز کو محفوظ کرلیا۔ اس جنگ میں ہماری مسلح افواج نے یہ بھی ثابت کردکھایا کہ اگر وہ حملہ آور ہوں تو انہیں آگے بڑھنے سے روکا نہیں جاسکتا اور اگر وہ دفاعی پوزیشن میں ہوں تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں پیچھے دھکیلنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ آج کا دن ہماری تاریخ کا ایک یادگار دن ہے کیونکہ آج سے 53 سال پہلے ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان نے جارحیت کا ارتکاب کرکے ہمارے ایمان کا امتحان لیا تھا جس میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم کامیاب و کامران نکلے اور ہم نے ہندوستان پر واضح کر دیا کہ پاکستان زندہ رہنے کے لیے بنا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس کی آزادی کو سلب نہیں کرسکتی۔ آج ہمیں یہ بات بھی یادرکھنی چاہیے کہ جہاں ہماری جیت یعنی اپنی آزادی کی حفاظت میں ہماری فوج کی سرفروشی کارفرما تھی، وہاں یہ عنصر بھی موجود تھا کہ پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی تھی۔ جب برصغیر میں آزادی کا اعلان ہوا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ عوام اور مسلح افواج کے درمیان وہ فاصلے ختم ہوگئے ہیں جو استعماری طاقت نے پیدا کررکھے ہیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد مسلح افواج نے وطن کی سالمیت کا کام سنبھال لیا۔ اب انہوں نے اپنے فرائض ایک خود مختار عوام کی مرضی کے مطابق اور ایک آزاد سلطنت کے مفاد کے مطابق ادا کرنے تھے۔ بابائے قوم نے مسلح افواج کو پاکستان کی تمام سروسز سے زیادہ اہم قرار دیا تھا۔ انہوں نے مسلح افواج کو عوام کی جان و مال کا محافظ قرار دیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ افواج پاکستان اسلامی جمہوریت کی ترقی اور اسے برقرار رکھنے کی حفاظت کریں گے، اس طرح قائد اعظم محمد علی جناح نے نہ صرف ملک میں ان کے کردار کی وضاحت کردی بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ عوام کے ساتھ ان کا رشتہ کیا ہوگا۔ ان کا فرمان یہ تھا کہ اب جب کہ نئی مملکت وجود میں آگئی ہے آج کے بعد مسلح افواج کا رشتہ عوام سے ہوگا اور یہ عوام کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔ مسلح افواج کے جوان اور افسر کسی امتیاز کے بغیر ملک کے تمام حصوں سے لیے جائیں گے اور انتخاب خالصتاً اہلیت کی بنیاد پرہوگا۔ ان کی قوت کا سرچشمہ قوم ہوگا اور قوم ہی کیلئے وہ اپنی جانیں قربان کریں گے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بحران کے وقت ہی قوم کو خدا یاد آتا ہے اور مسلح افواج، لیکن جب وہ بحران گزر جاتا ہے تو قوم خدا کو بھی بھول جاتی ہے اور فوج کو بھی۔ 1947ء سے لے کر 2018ء تک یعنی تحریک پاکستان کے دوران 1965ء اور 1971ء کی جنگ میں جتنی شہادتیں پاکستانی فوج اور اُن کے شانہ بشانہ پاکستانی قوم نے دی ہیں اس سے کئی گنا شہادتیں گزشتہ چند سالوں میں دہشتگردی کے دوران پاکستانی فوج کے جوانوں، افسروں، مدرسوں، مساجد اورسکولوں میں سویلینز نے دی ہیں مگر اس کے باوجود استعماری قوتیں آج بھی پاکستان کو دہشتگردوں کی سرزمین کا الزام لگاتے ہیں۔ مغربی ملکوں کا پاکستان کے ساتھ ایسا رویہ کیوں ہے، یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی فوج کے آج ہر یونٹ میں، ملک بھر کی ہربستی میں کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں پر پاکستانی فوج کے جوان یا سویلین نے جامِ شہادت نوش نہ کیا ہو۔ آخر ہمارا جرم کیا ہے؟ آخر امریکہ اور نیٹو کی فوجیں ہم سے کیا چاہتی ہیں؟ اُن کو ہم سے کیا توقعات ہیں؟ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ استعماری قوتیں آج پاکستان کو اپنے اشاروں پر چلانا چاہتی ہیں جبکہ پاکستان کی بہادر فوج دیگر فورسز اور پارلیمنٹ اس بات کو اچھی طرح سمجھ چکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج حکومت اور پاکستان کی غیور فوج ایک پیج پر ہے۔ آئے دن مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کیلئے نت نئے طریقے ڈھونڈے جاتے ہیں، کبھی نبی ﷺ کے کارٹون بنائے جاتے ہیں اور کبھی نبی اکرم ﷺ کے نام کو مختلف استعمال کرنے والی چیزوں پر لکھا جاتا ہے لیکن شاید اُن لادینی قوتوں کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ پاکستان کی بائیس کروڑ عوام اپنی بہادر فوج کے ایک اشارے پر ہر طرح کی قربانی دینے کیلئے تیار ہوچکی ہے۔ ویسے بھی مسلمان ہمیشہ شہادت کی آرزو رکھتا ہے۔ یہی کہنا میں حق بجانب سمجھتا ہوں کہ آج پاکستان کی فوج چومکھی لڑائی لڑ رہی ہے لیکن انشاء اللہ وہ دن جلد آنے والا ہے جب پاکستان مدینے کی ریاست کی طرح ایک ریاست بنے گا۔ اگر غور کیا جائے تو آج بھی بنگلہ دیش میں ہزاروں مسلمان جیلوں میں پڑے ہیں، اُن کا جرم صرف اور صرف پاکستان سے محبت ہے اور وہ پاکستانی پرچم کی حرمت کی خاطر پھانسیوں کو چوم رہے ہیں اور پاکستانی پرچم میں لپٹنا اپنے لیے باعث اعزاز سمجھتے ہیں۔ پاکستانی نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ بے راہ روی کا رویہ ترک کردیں اور چائنہ کی طرح اپنے آپ کو اپنے پاؤں پر کھڑا کریں۔ہمیں آج ڈالر کی غلامی سے باہر آجانا چاہیے۔ بھوکا رہنا پسند ہونا چاہیے مگر یہودونصاریٰ کے آگے بھیک نہیں مانگنی چاہیے۔ میرا تعلق پاکستان ریلوے سے ہے اور میرے لیے یہ باعث خوشی ہے کہ 23 مارچ کو پاکستان ریلوے کی تاریخ میں پہلی بار عظیم فریدی گیٹ مین (شہید) کی زوجہ کو صدر پاکستان نے ایوانِ صدر میں تمغہ شجاعت سے نوازا۔ پاکستان کے سب سے بڑے دفاعی ادارے کے گینگ مین جیکب آباد کے سیکشن پر رات کو ڈیوٹی کے دوران دہشتگردوں کی گولیوں کا نشانہ بنے۔
6 ستمبر کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ آج کے دن ان عظیم فرزندوں نے مادرِ وطن کی حفاظت کیلئے جام شہادت نوش کیااور اس ملک کی سلامتی اور استحکام کو اپنا خون دے کر حیات جاودان حاصل کی ہے۔ آج کے دن پاکستان کی فوج کا مقابلہ ہندوستانی فوج کے ساتھ ہوا تھا اور پوری قوم پاکستانی افواج کے ساتھ مل کردشمنوں پر فتح حاصل کرکے بارگاہِ الٰہی میں سرخروہوئی تھی۔ وطنِ عزیز کا دفاع اور اس کا استحکام صرف پاک افواج کا ہی کام نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم کا فرض ہے کہ سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ ان مکروہ عزائم اور برائیوں کا بھی قلع قمع کریں جوپوری قوم کیلئے ناسور کی صورت میں نظر آتا ہے اور ان معاشی سماجی برائیوں کا تدراک کرکے اس مملکت کی تعمیر و ترقی میں حصہ لے کر احسانِ خداوندی کے شکرگزار رہیں جس نے ہمیں یہ ملک عطا کیا۔
تحریر: شیخ محمد انور
سینئر نائب صدر پاکستان ریلوے ایمپلائز پریم یونین سی بی اے
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0300-9481002
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب