تحریر: شیخ محمد انور(ریلویز)
فون نمبر: 0333-2250719
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
پشاور سے خیبرپاس کا سفر دنیا کا بہترین سفر تصور کیا جاتا تھا۔
دنیا کا مشکل ترین ٹریک ماضی میں دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اس ٹریک کو سلور لائن بھی کہاجاتا ہے۔
موجودہ دورِ حکومت میں اگر یہ ٹریک بحال نہ ہوا تو پھر ناممکن ہے۔
وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید صاحب سے درخواست ہے کہ ML-1 کی طرح اس کو بھی ترجیح دیں۔
سیاحت کا شعبہ بہت سے ترقی پذیر ملکوں کی معیشت کے فروغ میں اہم کردار اداکرتاہے کیونکہ سیاحت کی صنعت سے نہ صرف روزگار کے مواقع فراہم ہوتے ہیں بلکہ غیرملکی سیاحوں کی آمد کی وجہ سے قیمتی زرمبادلہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ سیاحت کی عالمی تنظیم ڈبلیو او ٹی کی رپورٹ کے مطابق ہر سال چالیس کروڑسے زیادہ سیاح دنیا کے مختلف ملکوں میں سیروسیاحت کرتے ہیں جس سے دنیا بھر میں سیاحت کی صنعت کو سالانہ ساڑھے بائیس کروڑ امریکی ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔ پاکستان میں موجودہ حکومت ملک بھر میں سیاحت کو فروغ دینے میں بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ خصوصی دلچسپی لے رہی ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ پاکستان دنیا کے ان چند خوش قسمت ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں قدرت نے جنت کہلانے والے مناظر سے بھرپور خطے، پہاڑوں کے بے مثال حسن، ریگستان، ثقافتی روایات کے انمول خزانے اور انسان کو حیرت میں ڈالنے والے مناظر عطا کیے ہیں۔ سیاحت کے اتنے مقامات اس قدر پرکیف رنگوں میں آمیزش کے ساتھ کسی اور ملک میں کم ہیں۔ یہ سب قدرت کے عطاکردہ انمول تحفے آپکو اپنی طرف بلارہے ہیں۔ بے مثال حسنِ فطرت کے چند مناظر دیکھنے کا موقع اللہ تعالیٰ نے گزشتہ دنوں عطا فرمایا۔ میں لاہور سے تنہا پشاورگیا اور وہاں سے چند دوستوں مہر علی ہوتی، انور علی خان، محمد اشرف علی ہوتی، داؤدالرحمن، محمد ارشد، نقیب اللہ اور وادی مہران کے باسی خیرمحمدتونیو کے ہمراہ پشاور سے بذریعہ روڈ طورخم بارڈر پر جانے کا پروگرام بنایا کیونکہ ریلوے لائن تو 2007ء کے سیلاب کی وجہ سے بندہوچکی ہے جو کہ سیاحت کیلئے بہترین ذریعہ تھا۔ خیبرسفاری ٹرین کے ساتھ دو سٹیم انجن لگاکراسے پشاور سے لنڈی کوتل تک لیجایاجاتا تھا اور اس میں غیرملکی سیاحوں کے ساتھ پاکستانی سیاح بھی خوب دلچسپی لیتے تھے۔ خیبرپختونخواہ کا کل رقبہ 74521 مربع کلومیٹر پر محیط ہے جبکہ اس کے ساتھ ملحقہ فاٹا کا رقبہ 27290 مربع کلومیٹر ہے۔ سفر کا آغاز ہم نے ٹیوٹا ہائی لکس کے ذریعے کیا۔ یاد رکھیں جب کبھی آپ اس علاقے کی سیرکاپروگرام بنائیں تو اپنے ہمراہ مقامی افراد کو لازمی لے کرجانا مناسب ہوگا۔ پشاور شہرسے طورخم روڈ پر کارخانہ مارکیٹ آجاتی ہے۔ اس کو کراس کرنے کے بعد خیبر ایجنسی کی حد شروع ہوجاتی ہے۔ سڑک کے دونوں طرف چھوٹی چھوٹی خوبصورت مٹی کی بنی ہوئی دکانیں نظر آتی ہیں جہاں سے آپ سفر کا سامان خرید سکتے ہیں۔ تھوڑے ہی فاصلے پر 1964ء میں تعمیرکیاگیا دروازہ بابِ خیبر موجود ہے۔ بابِ خیبر کے قریب ہی درہِ خیبر کی تاریخ اُردو اور انگریزی میں درج ہے۔ مختلف ادوار میں حملہ آور شہنشاہوں کے علاوہ جن اقوام کا بھی یہاں سے گزرہوا ان کی مختصر تاریخ اور تاریخی معرکوں کااحوال بھی درج ہے۔ بابِ خیبر سے چھ کلومیٹر کے فاصلے پر جمرود کے علاقے سے درہ خیبر شروع ہوجاتا ہے اور آپ کی دائیں جانب قدرتی حسن سے مالامال پہاڑ بھی نظرآنے شروع ہوجاتے ہیں۔ یہاں واقع جمرود قلعہ کو مہاراجہ رنجیت سنگھ کے کمانڈر ان چیف ہری سنگھ نے 1823ء میں بنوایا تھا جو کہ امیرکابل کی فوجوں سے لڑتاہوامارا گیا اور اسی قلعے میں دفن ہے۔ یہ قلعہ کھردرے پتھروں اور مٹی سے بنایاگیا۔ راستے میں چھوٹی سی علی مسجد بھی آتی ہے جو کہ بہت مشہور ہے جسکے بارے میں مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اس مسجد میں حضرت علی کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھاگیاہے جبکہ اس کے بارے میں کوئی مستند ثبوت موجود نہیں، یہ بس وہاں کے لوگوں کی روایت ہے۔ یہ مسجد شگئی قلعہ کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ سطح سمندر سے 2300 فٹ بلند شگئی قلعہ 1920ء میں برطانوی دورِ حکومت میں تعمیرکیاگیااور اب وہاں فرنٹیئر کانسٹیبلری تعینات ہے۔ لنڈی کوتل پشاور سے 47 کلومیٹر دور اور سطح سمندر سے 1072 میٹر کی بلندی پر واقع ہے اور اکثروبیشتر یہاں پر ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہوتی ہیں۔ لنڈی کوتل درہِ خیبر کا بلند ترین مقام ہے۔ لنڈی کوتل ریلوے اسٹیشن مورچہ نمابناہوا ہے۔ ریلوے اسٹیشن کے ٹکٹ گھر کے ساتھ مختصر تاریخ بھی درج ہے جو کہ قابل مطالعہ ہے۔ یہاں کا نمکین گوشت، خمیری روٹی اور قہوہ بہت مشہور ہیں۔ لنڈی کوتل سے چندکلومیٹر کے فاصلے پر مچنی چیک پوسٹ ہے اور پاک افغان سرحد پر یہ آخری مقام ہے جہاں تک سیاح جاسکتے ہیں۔ اس خوبصورت چیک پوسٹ پر ایف سی کے چاک و چوبند دستے ہروقت مستند کھڑے نظر آتے ہیں۔ یہاں سرکاری طورپر سیاحوں کی مشروبات اور قہوہ سے تواضع کی جاتی ہے اور خیبر رائفل کے جوان اس چیک پوسٹ پر خوبصورت کمرے میں بریفنگ بھی دیتے ہیں۔ طورخم پشاور سے 57 کلومیٹر دور پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن پر واقع ہے اور طورخم سے افغانستان کی حدود شروع ہوجاتی ہے۔ اگر آپ طورخم جانے سے ایک ہفتہ قبل پشاور میں تاریخی قلعہ بالاحصار میں متعلقہ آفیسر سے اجازت نامہ لے لیں تو پھر آپ کی سیر میں مزید چاشنی پیداہوسکتی ہے کیونکہ خیبر رائفل کے جوان آپ کی خوب رہنمائی اور مزیدار مقامی روایتی کھانوں سے تواضع کرتے ہیں۔ برطانوی حکومت یہ چاہتی تھی کہ ہندوستان کا دفاع مضبوط کیا جائے، اس سے پہلے کہ ماضی کی تاریخ کی طرح افغانستان سے حملہ آور پنجاب پر حملہ آور ہوں یاتو افغانستان پر قبضہ کرلیاجائے یا پھر افغانستان میں برطانوی مفادات کی نگران حکومت قائم کی جائے۔ کم از کم خیبرپختونخواہ جس کا نام اسی مناسبت سے شمال مغربی سرحدی صوبہ رکھا گیا تھا افغان سرحد پر ایسی مضبوط دفاعی لائن ہو کہ اس مقام پر کسی بھی حملہ آور کر روک دیا جائے۔ درہِ خیبر اس حوالے سے اہم تھا کہ اس درے سے زیادہ ترحملہ آور برصغیر میں آتے رہے تھے جن میں سکندرِ اعظم، شہاب الدین غوری، محمود غزنوی، امیر تیمور، ظہیرالدین بابر اور احمد شاہ ابدالی زیادہ مشہور ہیں۔ اس لیے انگریزوں نے خیبرپختونخواہ کے علاقوں میں دفاعی مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے درہئ خیبر سے لنڈی کوتل تک ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ شروع کیا۔ 1890ء میں پشاور کینٹ سے ریلوے لائن کی توسیع کا کام شروع ہوا اور 1901ء میں یہ ریلوے لائن پشاور سے جمرود تک پہنچ گئی۔ ریلوے لائنوں کی تعمیر کا یہ سروے بہت مشکل تھا جس کو انگریز ماہرین نے محافظوں کے ساتھ گھوڑوں پر سوار ہوکر مکمل کیا۔ اس پہاڑی علاقے میں جہاں دریا ندیاں اور نالے بھی ہیں اور بلندوبالا پہاڑ بھی، موسم بھی شدت رکھتا ہے اور یہاں کے باسی بھی دنیا کے جنگجو اور نڈر قبائل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزوں نے خیبرپختونخواہ میں قبائلی نظام کو برقرار رکھتے ہوئے یہاں عمومی طور پر داخلی آزادی اور خودمختاری دے رکھی تھی لیکن اس کے باوجود خیبرپختونخواہ میں انگریزوں کے خلاف مزاحمت جاری رہی۔ پشاور کینٹ سے ہاشم کلی، اسلامیہ کالج، جمرود قلعہ، باگیاری، میزانک، چانگئی، شاگئی، زنتارا، سلطان خیل، تخت بیگ، لنڈی کوتل، تورتی گاہ اورلنڈی خانہ آخری اسٹیشن ہے افغان سرحد تک یہ ریلوے لائن نہایت دشوار گزار اور خوبصورت پہاڑی راستوں پر واقع ہے۔ یہ ریلوے لائن جمرود سے ڈیڑھ ہزار فٹ کی بلندی پر مزید 3500فٹ تک بلندی پر جاتی ہے، پھر ساڑھے 20 میل کے مختصر فاصلے پر کئی موڑ بلندیاں اور ڈھلوانیں آتی ہیں، یہاں سے 900 فٹ ڈھلوان اچانک آتی ہے۔ یہ ریلوے لائن برصغیر میں اپنی نوعیت کی منفرد ریلوے لائن ہے۔ اس کا اندازہ اس سے کیاجاسکتا ہے کہ اس سفرمیں جمرود سے 26 میل کے علاقے میں 34 سرنگیں اور 92 پل آتے ہیں۔ یہاں پر ریلوے لائن کی تعمیر میں انگریزوں نے انجینئرنگ کے کمالات کے ساتھ بہت محنت کی کیونکہ اُس وقت نہ تو ڈرون کیمرے تھے اور نہ ہی موجودہ دور کی طرح جدید ترین مشینری تھی۔ اس ریلوے لائن کی تعمیر میں 1919ء کی تیسری برطانوی افغان جنگ نے ضروری اور تیزرفتار تعمیر کام کے ساتھ ناممکن کو ممکن بنادیا۔ جمرود تالنڈی کوتل سیکشن 3 نومبر 1925ء کو کھولا گیا اور لنڈی کوتل سے لنڈی خانہ سیکشن 3 اپریل 1926ء کو کھولاگیا۔ یہ ایک ایسی ریلوے لائن ہے جس کی مثال دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی اور واقعی ریلوے لائن کی تعمیر کے اعتبار سے اس وقت یہ دنیا کی مثالی ریلوے لائن تھی اور پاکستان کی پہلی سٹیم سفاری ٹرین بل کھاتے ہوئے 34 پلوں اور 92 سرنگوں میں سے گزر کر لنڈی کوتل کے تاریخی ریلوے اسٹیشن پر رکتی تھی۔1990ء میں اس سفاری ٹرین کا تصور پیش کیا گیا اور 1992ء میں وہ دن بھی آیا جب یہ ٹرین پشاور سے روانہ ہوئی۔ تیرہ سال تک سیاح اس ٹرین کے ذریعے اس درے کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ 1880ء کے برطانوی دورِ حکومت میں جنگی مقاصد کیلئے افغان بارڈر تک یہ ریلوے لائن بچھائی گئی جو کہ بعد میں پاکستان کی پہلی سٹیم سفاری ٹرین کی گزرگاہ بنی۔ کہا جاتا ہے کہ اس ٹریک پر اُس زمانے میں جتنے اخراجات ہوئے اتنی رقم میں ہموار جگہ پر چاندی کا ٹریک بچھایاجاسکتا تھا۔ اس لیے اس ٹریک کو عجوبہ بھی کہتے ہیں اور سلور لائن بھی کہتے ہیں۔ 5 مئی 2007ء میں ایک ایسا سیلابی ریلہ آیا کہ جس سے اس ریلوے لائن کا پشاور سے رابطہ ٹوٹ گیا اور ایسا رابطہ ٹوٹا کہ آج تک بحال نہیں ہوسکا۔ ماضی کی حکومتوں نے اس قومی ورثہ کیلئے کوئی کوشش نہ کی جسکی وجہ سے آج لنڈی کوتل کی یہ وادی جو کبھی سفاری ٹرین کی سیٹیوں اور انجن کے ہارن کی آواز سے گونجتی تھی 2007ء سے ویران ہوچکی ہے۔ پشاور سے درہ خیبر تک کا سفر دنیا کا بہترین سفر تصور کیا جاتا تھا دنیا کا مشکل ترین ٹریک دنیا بھر سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ جسطرح اُنہوں نے اس قوم کو نیاپاکستان کا نعرہ دیا ہے اسی طرح اس نئے پاکستان میں سیروسیاحت کو فروغ دینے کیلئے غیرملکی اداروں سے رابطہ کرکے اس ٹریک کودوبارہ بحال کروایا جائے تاکہ دنیا بھر سے سیاح اس نایاب و نادر سیاحتی سفر کی کشش میں پاکستان کی جانب کھینچے چلے آئیں۔ جس سے ایک جانب اگر پاکستان کو خطیر زرمبادلہ حاصل ہوگا تو دوسری جانب پاکستان ایک خوبصورت اور قابلِ دید مقام کے طور پر مثالی پُرامن خطے کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے گا۔
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب