تحریر: شیخ محمد انور
فون نمبر: 0333-2250719
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
کشمیر کی آزادی اور یوم یکجہتی کشمیر
مقبوضہ کشمیر کا ذرہ ذرہ شہداء کے خون سے رنگ چکا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے قبرستانوں میں ہزاروں شہداء ابدی نیند سورہے ہیں جبکہ لاکھوں نوجوان شہادت کیلئے تیار ہیں۔
5 فروری کو ہر سال یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایاجاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز 1990ء میں ہوا جب جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد (مرحوم) کی اپیل پر اس وقت کے اپوزیشن لیڈر اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد نواز شریف نے اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے قاضی حسین احمد کی اپیل کی تائید کی کہ جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کی جائے۔ ان کی کال پر پورے پاکستان میں 5 فروری 1990ء کو کشمیریوں کے ساتھ زبردست یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا۔ ملک گیر ہڑتال ہوئی اور ہندوستان سے کشمیریوں کو آزادی دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس دن جگہ جگہ جہاد کشمیر کی کامیابی کیلئے دُعائیں مانگی گئیں۔ بعد ازاں پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے 5 فروری کو عام تعطیل کا اعلان کرکے کشمیریوں کے ساتھ نہ صرف یکجہتی کا مظاہرہ کیا بلکہ وزیر اعظم مرحومہ بے نظیر بھٹو آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد تشریف لے گئیں جہاں انہوں نے قانون ساز اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس کے علاوہ جلسہ عام سے خطاب کیا، کشمیریوں کو ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا اور مہاجرین کشمیر کی آباد کاری کا وعدہ کیا۔ تب سے اس دن کو ہرسال سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔ پورے ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے جبکہ آزاد کشمیر اسمبلی اور کشمیر کونسل کے مشترکہ سیشن سے صدر یا وزیراعظم پاکستان خصوصی خطاب فرماکرجدوجہد آزادی کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ فطرت نے کشمیر کو پاکستان کے ساتھ ایسے رشتوں میں منسلک کردیا ہے کہ یہ دونوں خطے ایک دوسرے کیلئے جسم و جان کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔ پاکستان کا وجود کشمیر کے بغیرنامکمل ہے اور کشمیری بھی پاکستان کو ہی اپنی منزل مراد سمجھتے ہیں۔ 5 فروری کو دراصل کشمیر ی اور پاکستانی عوام مل کر اس عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ حالات کوئی بھی صورت اختیار کریں یہ رشتہ نہ صرف برقرار رہے گا بلکہ اس میں مزید مضبوطی آتی جائے گی۔ تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے سے پتہ چلتا ہے کہ 71 سال قبل خون کی جو قربانی کشمیر کے اس حصہ میں دی گئی تھی جسے آزاد کشمیر کہاجاتا ہے آج بھی اس کے تسلسل میں مقبوضہ کشمیر کا ذرہ ذرہ شہدائے آزادی کے خون کی یاد دلاتا ہے۔ تحریک آزادی کشمیر دراصل جہدمسلسل ہے اور لگاتار قربانیوں کی ایک ایسی داستان ہے جس کا ہر ورق خون شہداء کی روشنائی سے لکھاگیا ہے۔ قربانیوں کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ساری ریاست آزادی کی نعمت سے بہرہ ور ہوکرپاکستان کا حصہ نہیں بن جاتی۔ کہا جاتا ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی نصف صدی سے زائد پر محیط ہے لیکن اگر ہم سرزمین جموں کشمیر کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اس علاقے کے لوگوں کی آزادی وحریت کی تحریک صدیوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ وہ مغلوں کا دور ہو یا افغانوں کا، سکھوں کا ہو یا پھر ڈوگروں کا، کشمیری عوام اور خصوصیت کے ساتھ کشمیری مسلمان ہر دور میں آزادی کی شمع کو فروزاں کرنے کیلئے اپنے خون کا نذرانہ پیش کرتے رہے۔ کشمیری عوام نے کسی بھی دور حکومت میں غلامی کو قبول نہیں کیا اور کسی نہ کسی صورت مصروف جدوجہد رہے۔ مغلیہ دور میں سرینگر میں بننے والی مسجد میں برسوں تک نماز نہ پڑھنا بھی کشمیری عوام کی اسی ناراضگی اور برہمی کا اظہار تھا جو ان کے دل میں حملہ آور حکمرانوں کیلئے تھا۔ سکھوں کا دور بھی کشمیر میں ایک خونی دور تھا اور ڈوگروں نے تو کشمیری عوام کی زندگی کو عذاب بنادیا تھا زندگی کے ہر شعبہ میں ان کا استحصال کیا گیا اور انسان ہونے کے باوجود ان کے ساتھ حیوانوں سے بدتر سلوک روا رکھا گیا۔ بھارت گزشتہ 73 سال سے کشمیر کے مظلوم عوام کو بندوق کی نوک پر غلام بنائے ہوئے ہے۔ بھارت کی 10لاکھ سے زائد فوج تمام تر ظلم و بربریت اور انسانیت سوز ہتھکنڈوں کے باوجود کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے کیونکہ طاقت اور ظلم کے ذریعے کسی قوم کو غلام نہیں بنایاجاسکتا۔ کشمیری عوام بھارت کے ظلم و ستم اور قید سے آزاد ہونے کیلئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہادینے کو تیار ہیں۔ پاکستانی عوام اپنے کشمیری بھائیوں کی جدوجہد آزادی کی پشتیبانی جاری رکھے ہوئے ہے اور کسی بھی لمحہ انہیں تنہا نہیں چھوڑا نہ آئندہ چھوڑیں گے۔ اقوام متحدہ اپنے چارٹر پر موجود کشمیر کے تنازعہ کا سب سے پرانا مسئلہ حل کرانے کی طرف توجہ دے۔ 5فروری کا دن ہر سال آتا ہے اور گزر جاتا ہے، ملک بھر میں جلسے اور سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں، حکومت سرکاری سطح پر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے اعلان کرتی ہے۔ سیاسی و مذہبی جماعتیں بھی 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر مختلف پروگرامات کا انعقاد کرتی ہیں۔ یوم یکجہتی کے دن پاکستان بھر کی مذہبی، سیاسی و کشمیری جماعتیں مقبوضہ کشمیر کی عوام کو اس بات کا یقین دلاتی ہیں کہ اہل پاکستان ان کی تحریک آزادی کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ ہمیں صرف 5 فروری کو ہی اپنے کشمیری مجاہدین کو یاد نہیں رکھنا چاہیے بلکہ ہر وقت اُن کی آزادی کیلئے ہمہ تن کوشاں رہنا چاہیے لیکن بدقسمتی سے اقوامِ متحدہ اپنی ہی قراردادوں سے راہ فرار اختیار کرتی نظر آرہی ہے جسکی وجہ سے آج دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ عالمی برادری اس کا ادراک کرے ورنہ یہ دنیا ایک بار پھر تیسری عالمگیر جنگ کی لپیٹ میں آسکتی ہے۔ آج کشمیر میں ایک لاکھ سے زائد افراد جیلوں میں بند ہیں، ہزاروں لاپتہ ہیں، ہزاروں ماؤں، بہنوں، بھائیوں اور بیٹوں نے جام شہادت نوش کرلیا ہے۔ نہتے اور بے گناہ انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے، چادروچار دیواری کا کوئی تقدس نہیں رہا اور گزشتہ چھ ماہ سے جنت نظیر وادی کشمیر میں کرفیو لگا ہوا ہے اور ہر گھر ایک جیل کا منظر پیش کررہا ہے۔ نوجوان بچے اور بچیاں جب کرفیو کو توڑ کر گھروں سے باہر نکلتی ہیں تو اُن پرپائلٹ گنوں کے ذریعے فائرنگ کی جاتی ہے جس سے سینکڑوں انسانوں کی آنکھوں کی بینائی چلی گئی ہے اور شہادت پانے والے نوجوانوں کو اپنے گھروں میں دفنایاجارہا ہے۔ دراصل آج مقبوضہ کشمیر کی حالت ایسی ہے کہ یہ مسلمانوں کیلئے کربلا بن چکی ہے۔ ہر طرف اونچے پہاڑوں سے گھری ہوئی وادی کشمیر میں مسلمانوں کی حالت ایسی ہے جیسے کوئی پنجرے میں بند ہو۔ بھارتی فوج نے کشمیری مردوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب حریت پسندوں کی تلاشی کے نام پر گھروں کو نہ جلایا جارہا ہو۔ بھارتی فوج نے نازی اور اسرائیلی فوج سے بھی بڑھ کر ظالم و جابر ہونے کا ثبوت دیا ہے اور جو کام تاتاری، جرمن اور یہودی افواج بھی نہیں کرسکیں وہ بھارتی فوج دن کی روشنی میں کررہی ہے اور کشمیری خواتین کی اجتماعی آبروریزی کی جارہی ہے۔ دوسری طرف قتل و غارت کا ایسا بھیانک کھیل جاری ہے جس سے دراصل کشمیریوں کی نسل ختم کرنا مقصود ہے۔بھارت کی ہٹ دھرمی کی انتہاء یہ ہے کہ اس کی فوج نے وادی کو پوری طرح گھیرے اور محاصرے میں لے رکھا ہے، غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بھی حقیقت حال جاننے کیلئے وادی میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ آج پوری دنیا میں انسانیت بنیاد ی حقوق کی آواز بلند کررہی ہے، حیرت ہے کہ دنیا کے نقشے پر موجود کشمیر جتنا حسین و خوبصورت خطۂ ہے اتنا ہی زیادہ اس کے حسن کو پامال کیاجارہا ہے۔دنیا بھر میں انسانیت کی اعلیٰ اقدار سے محبت کرنے والے لوگ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے ان بچوں، جوانوں اور بوڑھوں کو سلام پیش کررہے ہیں جنہوں نے ہرقسم کے مظالم کا سامنا کرنے اور ہرروز اپنے پیاروں کی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے باوجود آزادی وحریت کا پرچم نہ صرف بلند رکھا بلکہ ان کی جدوجہد ہرگزرتے دن کے ساتھ زیادہ ولولہ انگیز نظرآرہی ہے۔ مظلوم کشمیری عوام نے بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہرظلم کے باوجود آزادی آزادی کے نعرے لگاکراور جابجاپاکستانی پرچم لہرا کر اقوام عالم کے سامنے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ اپنی مرضی سے کرنے کے حق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ مودی سرکار نے مہذب دنیا، انسانی حقوق کی تنظیموں، اقوام متحدہ اور خود بھارت کے حقیقت پسند حلقوں کی رائے کو یکسرمسترد کرتے ہوئے بظاہر یکطرفہ قانون سازی کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی ہے تاہم یہ گھناؤنا اقدام آزادی کشمیر کی جانب بہت بڑا قدم ہے۔ بھارتی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 370کو غیر آئینی طریقے سے ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کی آزادوخودمختار حیثیت پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس عاجلانہ اقدام کے ذریعے بھارتی سالمیت پر خودکش حملہ بھی کیا ہے۔ اب چاہے مقبوضہ وادی میں مسلح افواج کی تعداد بڑھادی جائے، کرفیو، ایمرجنسی، تشدد، ماردھاڑ اور ریاستی جبر کے بدسے بدترین حربے اختیار کرلیے جائیں، حقیقت یہی ہے کہ کشمیر کو آزاد ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ اسے بھارت کی بدقسمتی ہی قرار دیاجاسکتا ہے کہ کشمیر پر جبری قبضہ برقرار رکھنے کی ناکام کوشش میں مشرقی پنجاب سے تامل ناڈواور بنگال تک سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ قرآن کریم میں ہے کہ جب کسی کی تباہی مقصود ہو تو اُس کی عقل پر پردے ڈال دیے جاتے ہیں، پھر وہ غلط فیصلے کرتا ہے جو اسے تباہ کرڈالتے ہیں۔ مودی سرکار کی طرف سے 370 کے خاتمے کا فیصلہ بھی دراصل قدرت کے مذکورہ بالا اصول کا عملی ثبوت ہے۔ مزید یہ کہ امتیازی شہریت ایکٹ کے خلاف ہندوستان کے طول و عرض میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ تمام اقلیتی قومیں اکٹھی ہوگئی ہیں اور مودی حکومت کے خلاف مسلسل شدید مظاہرے ہورہے ہیں۔ انتہاء تو یہ ہے کہ مودی کو دہلی میں تقریر کیلئے 5 ہزار فوج کو حفاظت پر معمور کرنا پڑا اور فضاء میں طیارے اُن کے پروگرام کی رکھوالی کرتے رہے اور چاروں طرف ائیر کرافٹ گنیں نصب کی گئیں۔آج کیرالہ شہر، آسام، حیدرآباد، بنگال، بہار اور دیگر شہروں میں وہاں کے مقامی لوگوں نے پاکستانی جھنڈا لہرا کر ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے جس کی وجہ سے سینکڑوں مسلمانوں اور دیگر قوموں کے افراد کو پابند سلاسل کردیاگیاہے۔ مگر اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ ظلم جتنا بھی بڑھتا چلا جائے آزادی کی منزل اتنی ہی قریب آتی چلی جاتی ہے اور وہ دن دور نہیں جب کشمیری ہی نہیں بھارت کے دوسرے علاقوں کے مظلوم بھی ظلم سے نجات پائیں گے۔ اور آزادی کی نعمت سے سرفراز ہوں گے۔ انشاء اللہ العزیز
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب