یوم مئی! کس طرح مزدوروں کا عالمی دن بنا
اسلام ہمیں مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے قبل اس کی اجرت کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے۔
حضورﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ قیامت کے روز تین آدمی ایسے ہوں گے جن سے میں جھگڑا کروں گا، ایک وہ شخص جس نے میرا نام لے کر معاہدہ کیا اور پھر اس آدمی نے اس عہد کو توڑ دیا۔یعنی بدعہدی کی، دوسرا وہ شخص جس نے کسی شریف اور آزاد آدمی کو اغواء کرکے اسے فروخت کیا اور اس کی قیمت کھائی، تیسرا وہ شخص جس نے کسی مزدور کو مزدوری پر محنت کیلئے مقرر کیا، پھر اس سے پورا کام لیا اور کام لینے کے بعد اس کو اس کی مزدوری ادا نہیں کی، یا اس کی محنت اور مشقت کے برابر اس کی اجرت ادا نہ کی۔
یکم مئی دنیا بھر کے مزدوروں اور محنت کشوں کا دن ہے اور اسے عالمی سطح پر انتہائی جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس دن شکاگو کے ان مزدوروں کی باقاعدہ یاد منائی جاتی ہے جنہوں نے 1886ء میں اپنے حقوق کی جدوجہد میں اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا تھا اور دنیا بھر کے مزدوروں کو یہ درس دیا تھا کہ انہیں سرمایہ داری کے نظام میں طبقاتی حقوق کے حصول کیلئے قدم قدم پر اتحاد اور ایثار کیلئے کمربستہ رہنا چاہیے۔ پاکستان میں بھی یہ دن بڑے عزم اور وقار کے ساتھ منایا جاتا ہے اور ملک بھر کی مزدور تنظیمیں اس موقع پر اپنے اس عزم کا اعادہ کرتی ہیں کہ وہ اپنے جائز حقوق کے تحفظ اور منصفانہ نظام معیشت کی تعمیر کیلئے اپنی تاریخی جدوجہد جاری رکھیں گی۔ آج الحمدللہ مزدور طبقہ دنیا کے ہر ملک میں ایک مؤثر طاقت اور آواز بن چکا ہے۔ صنعتی ترقی کے عمل نے دنیا بھر میں مزدور تحریک کو مضبوط اور فعال بنادیا ہے۔ مزدوروں نے قومی آزادی کی تحریکوں میں بڑا سرگرم اور قابلِ فخر کردار ادا کیا۔ ہمارے اپنے وطن میں بھی مزدوروں نے اپنے کسان بھائیوں اور غریب عوام کے ساتھ مل کر ہمیشہ جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد میں قابلِ فخر کردار ادا کیا۔ دنیا بھر کے مزدور یکم مئی کے دن اپنا بین الاقوامی تہوار یوم مئی مناتے ہیں۔ اس دن شکاگو کے شہید مزدوروں کو اپنی جانیں قربان کرنے اور اپنے خون کا نذرانہ پیش کرنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور ان کی جلائی ہوئی مشعل کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں بلند رکھتے ہوئے آگے بڑھتے رہنے کے عزم کی تجدید کرتے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ مزدور طبقہ ازل سے استحصال و جبر کی چیرہ دستیوں کا شکار ہے اور وسائل سے محرومی کے باعث اپنی محنت سے پیدا کی ہوئی دولت میں سے اپنے جائز حق سے محروم رہتا ہے۔ مزدور کا بیٹا آج بھی روٹی کو ترستا ہے۔ سرمایہ دار مزدوروں کا خون نچوڑنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اور اس سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ سرجھکائے دن رات محنت مشقت کرکے اس کی دولت میں اضافہ کرتے رہیں۔ ان ناانصافیوں کے خلاف پہلی زور دار آواز 1886ء میں شکاگو کے شہیدوں نے بلند کی۔ اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ مزدور کو انسان سمجھا جائے اور اسے جانوروں کی طرح کام کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ اُنہوں نے منظم ہوکر روزانہ آٹھ گھنٹے اوقات کار کے تعین اور مزدوروں پر آجروں کے غیر انسانی تشدد بند کروانے کیلئے صدائے احتجاج بلند کی اور اپنے یہ مطالبات اربابِ اختیار تک پہنچانے کیلئے سڑکوں پر پُر امن مظاہروں اور جلسہ جلوس کا آغاز کیا۔ یہ بات سرمایہ داروں کیلئے ناقابلِ برداشت تھی کہ وہ مزدور جن کی اہمیت ان کے نزدیک کسی جانور سے زیادہ نہ تھی ان کے سامنے آکر اپنے حقوق کی بات کریں۔ اس لیے اُنہوں نے مزدوروں کی اس آواز کو ہمیشہ کیلئے خاموش کرنے کیلئے گولیوں سے اُن کے سینے چھلنی کردئیے گئے۔ ظلم و ستم کی اس انتہاء کے باوجود مزدوروں کے حوصلے پست ہونے کی بجائے اور بلند ہوتے گئے۔ اُنہوں نے اپنے گریبان چاک کرکے اپنے شہید ساتھیوں کے بہتے ہوئے خون سے ترکرلیے اور سرخ پرچم بنالیا۔ یہ سرخ پرچم رہتی دنیا تک مزدور جدوجہد کی علامت بن گیا اور جب تک دنیا قائم ہے اس جھنڈے کی سرخی مزدوروں کی شہادت کی یاد دلاتی رہے گی۔ آخر کار مظلوموں کا خون رنگ لایا اور ظالم ظلم کرتے کرتے عاجز اور بے بس ہوگئے۔ مظلوم و مجبور محنت کش ستم سہتے سہتے کامیابی سے ہمکنار ہوگئے۔ میں یہ لکھنا حق بجانب سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں پہلی بار وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں 1972ء میں یکم مئی کو مزدوروں کے جلسوں میں ذوالفقار علی بھٹو شامل ہوئے۔ اس طرح یوم مئی کا دائرہ وسیع ہوکر پاکستان میں عوامی زینت اختیار کرگیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء میں پہلی بار محنت کشوں کیلئے لیبر پالیسی کا اعلان کیا۔
1۔ ٹریڈ یونین کو سرگرمیوں میں حصہ لینے کی قانونی اجازت کو تحفظ دیا۔2۔ ملازمین کو برطرف اور چھانٹیوں کو قانوناً منع قرار دیا۔3۔سرکاری اور نجی اداروں میں یونین سازی کی اجازت دی۔4۔کم از کم اجرت کا تعین کیا۔ یکم مئی کو ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا۔5۔جلدی اور فوری انصاف کیلئے لیبر کورٹس اور قومی صنعتی تعلقات کمیشن تشکیل دیا۔ 6۔مزدوروں کے علاج و معالجہ کیلئے سوشل سکیورٹی سکیم اور اولڈ ایج بینیفیٹ کا اجراء کیا۔7۔مزدوروں کیلئے رہائشی کالونیاں بنائیں اور مفت پلاٹ تقسیم کیے گئے۔8۔صنعتی اداروں میں 8 گھنٹے اوقات کار مقرر کیے، اوور ٹائم کی دوگنا ادائیگی کو قانونی طور پر لازمی قرار دیا۔
لیکن اگر آج ہم اس بات کا موازنہ کریں کہ 2018ء میں ملک بھر میں مزدور کی حالت زار کیا ہے تو پتا چلے گا کہ مزدور کا بیٹا آج بھی روٹی، روزی اور چھت کو ترستا ہے۔ ملک بھر میں بیروزگاری نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ روزگار نہ ملنے کی وجہ سے آج ملک بھر میں جرائم کی شرح بہت بڑھ چکی ہے۔ ہم ایک طرف تو ہسپتال بنانے میں مصروفِ عمل ہیں، دوسری طرف ہر ضلعے میں بڑے بڑے تھانے،جیلیں اور کچہریاں بنانے میں مصروف ہیں لیکن ہمارے حکمران اس بات کو نہیں سوچ رہے کہ یہ جرم کیوں بڑھ رہے ہیں؟ جس کی بنیادی وجہ بیروزگاری ہے۔ ہمارے پاؤں میں کیل چبھی ہوئی ہے، ہم کیل کو نہیں نکال رہے بلکہ جوتا تبدیل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہسپتال آباد ہوگئے ہیں اور گراؤنڈز ویران ہوگئے ہیں۔ میرا تعلق مزدوروں کی دنیا سے ہے آج بھی ایک مزدور گینگ مین، کی مین، کیرج معاون، شیڈ معاون، برج معاون، آئی او ڈبلیو سٹاف، جو سارا دن مزدوری کرتا ہے اور پسینے سے شرابور رہتا ہے صرف اس لیے کہ اس نے اپنے بچوں کیلئے دال روٹی کا سامان اکٹھا کرنا ہے۔ اس کے باوجود وہ نہ تو اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوا سکتا ہے، نہ بچوں کا علاج اچھے طریقے سے کروا سکتا ہے۔ دن رات کام کرنے کے باوجود جب وہ گھر لوٹتا ہے تو اُس کا بچہ اُس کا اُترا ہوا چہرا دیکھ کر اپنی تمام تر خواہشات اپنے دل میں ہی چھپا لیتا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب گھرانے کا ایک فرد کماتا تھا اور سب کھانے والے ہوتے تھے مگر آج کے دور میں سب گھر والے دونوں ہاتھوں سے صبح و شام بھی محنت مزدوری کریں تب بھی بڑی مشکل سے روٹی میسر آتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ روٹی سستی تھی، مجھے یاد ہے کہ نان کے ساتھ دُکاندار تھوڑا سا سالن مفت دے دیا کرتا تھا مگر آج کے اس جدید دور میں انسان روٹی کیلئے ایک دوسرے کا خون کررہا ہے۔ میں ایک دن مقامی تھانے میں کسی کام کے سلسلے میں گیا تو وہاں میں نے دیکھا کہ ایک بچہ کسی کی جیب کاٹتے ہوئے پکڑا گیاتھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ بچہ اس سے پہلے بھی دو بار چوری کے کیس میں پکڑا گیا ہے اور چھ ماہ کی قید بھی کاٹ چکا ہے۔ اس سب کی بنیادی وجہ صرف یہ ہی ہے کہ اُس نے اپنا پیٹ بھرنا ہے۔ میں نے پوچھا کہ اس بچے کو آپ نے ہتھکڑی کیوں لگائی ہوئی ہے تو جواب ملا کہ یہ پہلے بھی پکڑا جاچکا ہے اور عادی مجرم ہے۔ میں بہت پریشان ہوا اور میں نے اس بچے سے پوچھا کہ تم نے یہ کیوں کیا تو اُس نے کہا کہ میری ماں بیمار ہے، باپ مرچکا ہے، گھر کا سب سے بڑا میں ہوں اور بیروزگار ہوں، گھر کا گزارا نہیں ہوتا تو میں کیا کروں۔ یہ سن کر میرا جسم لرز اُٹھا اور مجھے حضرت عمربن خطابؓ کی وہ بات یاد آگئی کہ اگر دریا دجلہ کے کنارے پر کتا بھوکا سوگیا تو عمر تُو اس کا جواب دہ ہوگا۔ نہ جانے آج کتنے معصوم بچے دن رات ہوٹلوں، موٹرسائیکلوں،گاڑیوں، سائیکلوں اور تندوروں پر کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جن ہاتھوں میں قلم اور کتاب ہونی چاہیے آج وہ ہاتھ موبل آئل، گریس اور پٹرول سے لتھڑے ہوتے ہیں پھر بھی ہم اللہ سے مدد کی توقع رکھتے ہیں۔ پاکستان کے مزدور اپنے وطنِ عزیز سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں، ان کے دلوں میں ایمان اور اتحاد کی شمع روشن ہے۔ ان کے خون میں محنت اور جدوجہد کا جذبہ شامل ہے۔ درحقیقت محنت ہی ان کا ایمان اور ان کی عظمت ہے۔ دنیا بھر میں پاکستان کے مزدوروں کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے اور ان کی صلاحیتوں کا پوری دنیا اعتراف کرتی ہے۔ یہ محنت کش پاکستان کی تعمیر و ترقی کیلئے دن رات کوشاں ہیں۔ آج ہی نہیں بلکہ قیام پاکستان کے وقت بھی ان محنت کشوں نے ایک نئی اسلامی مملکت کے قیام کیلئے بے شمار خدمات انجام دیں اور قیام پاکستان کے بعد بھی ہمارے محنت کش اسی جذبے کے تحت سرگرمِ عمل ہیں۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور محنت کش ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس ملک کے پیداواری عمل کو تیز کرنے کیلئے مزدوروں کا احترام بے حد ضروری ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت ان کی عظمت اور محنت کا اعتراف کرتی ہے،بیشتر اقدامات اور مسائل حل بھی ہورہے ہیں لیکن آج بھی مزدور کی تنخواہ بہت کم ہے، مہنگائی نے مزدور کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ آج پاکستان کے محنت کش اس عہد کی تجدید کریں گے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو پاکستان کی تعمیروترقی کیلئے صرف کریں، پُرامن رہ کر اپنے مطالبات کے حصول کی کوشش کریں، کارخانوں، ورکشاپوں اور صنعتی اداروں کی رونق اور قوم کی خوشحالی کا راز درحقیقت مزدوروں کی محنت میں مضمر ہے۔ حضورﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ قیامت کے روز تین آدمی ایسے ہوں گے جن سے میں جھگڑا کروں گا، ایک وہ شخص جس نے میرا نام لے کر معاہدہ کیا اور پھر اس عہد کو توڑ دیا۔یعنی بدعہدی کی، دوسرا وہ شخص جس نے کسی شریف اور آزاد آدمی کو اغواء کرکے اسے فروخت کیا اور اس کی قیمت کھائی، تیسرا وہ شخص جس نے کسی مزدور کو مزدوری پر محنت کیلئے مقرر کیا، پھر اس سے پورا کام لیا اور کام لینے کے بعد اس کو اس کی مزدوری ادا نہیں کی، یا اس کی محنت اور مشقت کے برابر اس کی اجرت ادا نہ کی۔ میرے نزدیک یوم مئی منانے کا سلسلہ اسلام کے طلوع کے بہت بعد شروع ہوا، اسلامی احکام کے مطابق صرف ایک دن ہی مزدوروں کا عالمی یوم نہیں منایا جاتا بلکہ یہ احکام آجروں اور اجیروں کے مابین اشتراک عمل محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کی غرض سے ہمہ وقت ہر سطح پر نافذ العمل ہیں۔ ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ نے خود بکریاں چرائیں، لوگوں کا سامان اُٹھایا، جنگِ خندق کی کھدائی میں حصہ لیا، حتیٰ کہ مسلمانوں کے عظیم جرنیل ہونے کے باوجود کپڑوں میں پیوند لگائے، یہاں تک کہ بھوک کے موقع پر اپنے پیٹ پر پتھر باندھے۔ آج کے دن ہمیں یہ عہد کرنا ہے کہ ملک اور مزدور کے درمیان ہم آہنگی زندگی کے ہر شعبے میں اسلامی اصولوں کے مطابق بنانی ہے۔ لہٰذا مزدور بھائیوں کو چاہیے کہ اپنے حقوق کی بات کیلئے کسی یونین لیڈر کی بجائے اپنے نبی مکرمﷺ کی ذات بابرکات سے رہنمائی حاصل کریں۔ اسلامی اصولوں کو خود بھی اپنائیں اور اپنے معاشرے کو بھی اسلامی بنانے کی کوشش کریں اسی میں ہمارے مسائل کا حل ہے اور اس پر ہماری دنیا اور آخرت کی کامیابی کا انحصار ہے۔
تحریر: شیخ محمد انور
سینئر نائب صدر پاکستان ریلوے ایمپلائز پریم یونین سی بی اے
فون نمبر: 0300-9481002
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب