یکم مئی: ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات 2017
دنیا کے تمام محنت کش آج شہداء شکاگوکو خراج تحسین پیش کررہے ہیں۔
کسی قوم کی تاریخ اس قوم کے افراد کے عمل اور ان کے کردار سے مطابقت رکھتی ہے اور ان کے خیالات اور ارادوں کی مظہر ہوتی ہے۔ خیالات و اداروں کا ماخذ مادی حالات زندگی ہوتے ہیں۔ اس لیے جو لوگ کام کرتے ہیں ان کے کچھ نظریات، خیالات اور ارادے ہوتے ہیں۔ ایک قوم میں بیک وقت کئی طبقات ہوتے ہیں لیکن ان میں صرف دو ہی نمایاں ہیں ایک جاگیردار اور دوسرا سرمایہ دار جو کہ اپنی شان وشوکت اور حیثیت کے اعتبار سے ایک منفرد مقام رکھتے ہیں جبکہ دوسری طرف مظلوم طبقہ مزدوروں اور کسانوں کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اصل میں کسی قوم کی ترقی میں دوکردار یہ مزدور طبقہ ادا کرتا ہے اسی کی بدولت اس قوم کی پہچان ہوتی ہے جبکہ اس کے برعکس سرمایہ دار تو صرف سرمایہ خرچ کرکے کروڑوں اربوں کے چکر میں ہوتا ہے اس کا تو ایک نظریہ ہوتا ہے کہ کس طرح ایک کارخانے سے چار کارخانے بن جائیں۔ شکاگو سے اُٹھنے والی تحریک کا نتیجہ یہ ہے کہ صنعتی ممالک میں محنت کشوں کے مطالبات پر توجہ دینی شروع کی اور بتدریج ان مراعات میں اضافہ ہوتا رہا۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد بین الاقوامی سطح پر آئی ایل او کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس ادارے نے کارکنوں کی اُجرت، حادثات سے بچاؤ، اوقات کار کے تعین، کم عمر بچوں سے روزگار لینے اور جبری مشقت کے خاتمے وغیرہ جیسے اہم معاملات پر ممبر ممالک کے صلح مشورے سے اصول وضع کیے اور اس طرح صنعتی کارکنوں کی فلاح و بہبود کیلئے عملی اقدامات شروع ہوئے۔ پاکستان 31 اکتوبر 1947ء کو بین الاقوامی ادارے کا ممبر بنا اور اب تک بین الاقوامی دنیا کی طرح ہم نے بھی محنت کشوں کے اوقاتِ کار ہفتہ وار تعطیل، یونین سازی، معاوضہ، سوشل سکیورٹی کا طریقہ کار اور جبری مشقت کے خاتمے، عورتوں اور بچوں سے غروب آفتاب کے بعد کام کی ممانعت وغیرہ جیسے اہم معاملات پر قانون سازی کی ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد انہی قوانین کو لاگو کیاگیا۔ جوں جوں ملک میں صنعتی ترقی ہوتی گئی کارکنوں کی تعداد بڑھتی گئی تو قوانین میں ترامیم کی جاتی رہی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شکاگو کے مزدوروں نے مزدوروں کے حقوق کیلئے بہت بڑی قربانی دی اور مزدوروں پر ہونے والے ظلم استحصال کو ختم کرنے کی نوید سنائی۔ مزدوروں کے کام کے اوقات کو آٹھ گھنٹوں میں متعین کروایا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کیونکہ کسی استحصالی ریاست یا حکومت کے خلاف لڑنا کوئی آسان کام نہیں اور نہتے مزدوروں کا مسلح سپاہیوں سے ٹکرانا نہایت مشکل ہے لیکن جب کوئی شخص یا طبقہ اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے جنگ آزما ہوجاتا ہے تو پھر وہ ہر طاقت سے ٹکرا جاتا ہے لیکن ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ دین اسلام میں مزدور کی محنت کی عظمت کا تصور بہت اعلیٰ اور برتر ہے۔
شاعر اسلام علامہ اقبال تو یہاں تک کہتے ہیں کہ
جس کھیت سے دہکان کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
یعنی جو کھیت کسان کو روٹی مہیا نہیں کرتا تو پھر اس کھیت کا کیا فائدہ؟ سب سے زیادہ ضروری تو مزدور کی محنت ہے۔ جس کے بل بوتے پر کھیت لہلہاتے ہیں، فیکٹریاں اور کارخانے چلتے ہیں اور وہاں پر بھی مزدوروں کے حقوق حاصل نہ ہوں تو پھر اس فیکٹری اور کارخانوں کا کیا فائدہ؟ دنیا کا ہر کام محنت کار کی مرہونِ منت ہوتا ہے۔ اس لیے ہم نے دیکھا ہے کہ جن ممالک نے دنیا میں ترقی کی اُنہوں نے محنت کی عظمت کے تصور کو اپنایا اور اپنے یہاں کے مزدوروں اور ان کی فیڈریشنوں کو بغیر کسی جواز کے ناراض یا دشمن نہیں بنایا، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج پاکستان میں مزدوروں کی معاشی حالت بہتر ہورہی ہے، مہنگائی کا مسئلہ ہے اگر حکومت اس مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو مزدوروں کی دعائیں لے گی۔ حکومت دین اور دنیا دونوں میں سرخروح ہوجائے گی۔ یکم مئی کے عالمی دن پاکستان کے محنت کش طبقہ ملک کے غریب عوام اور محب الوطن طبقوں کے ساتھ شانہ بشانہ جدوجہد کرکے پاکستان کی اقتصادی اور سماجی ترقی اور اسے غیروں کی دستنگری سے آزاد کروانے اور خودکفالت کی بنیاد پر ملک کو تعمیر کی جدوجہد کو کامیاب کرنے کا عہد کرتا ہے تاکہ پاکستان میں محنت کش، استحصال اور ناانصافیوں سے آزاد ہوں۔ اسی وجہ سے اسلام میں محنت کش کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ پاکستان کے محنت کش ہر دور میں دنیا میں سامراج کو یہ مذمت کرنے اور چھوٹے ممالک کو آزادی کے حق کی حمایت اور دنیا میں خوفناک اسلحہ سازی اور نسلی امتیاز اور سامراج کی جاریت کے خلاف بھی اپنی آواز بلند کریں گے تاکہ دنیا کے وسائل انسانی تباہ کاریوں کی بجائے انسانی بنیادی ضروریات کو فراہمی پر صرف ہوں اور دنیا میں ٹیکنالوجی اور قدرتی وسائل کو انسانی غربت، بھوک کے خاتمے کیلئے بروئے کار لایا جائے۔
تحریر: شیخ محمد انور
سینئر نائب صدر پاکستان ریلوے پریم یونین سی بی اے