14 اگست، آرزوؤں کی تکمیل کا دن
اہلِ وطن کو 71 واں جشنِ آزادی مبارک
14 اگست ”اتحاد، ایثار اور اخلاص کے عہد کا دن ہے“۔
14 اگست، تحریکِ آزادی عزم و حوصلے کی لازوال داستان
آزادی بہت بڑی نعمت ہے اور غلامی سب سے بڑی لعنت۔ 14 اگست ایک پیغام کا دن ہے۔ آج ہم من حیثیت القوم اپنی آزادی کا دن منارہے ہیں اسی تاریخی روز مسلمانانِ برصغیر نے اپنے بے مثل اتحاد و یکجہتی کے بل پر قائد اعظم کی قیادت میں فرنگیوں، برہمنوں اور ہندوؤں سے آزادی حاصل کی تھی۔ اس اعتبار سے یہ دن سیاسی و جماعتی اختلافات سے بالاتررہتے ہوئے پورے اتحاد و یکجہتی سے منانے کی ضرورت ہے اور ہم میں سے ہر فرد کو ایسا طرزِعمل اپنانا چاہیے جو اس یادگار دن کی عظمت کے شایانِ شان ہو۔ پاکستان کا ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے قیام آج ہی کے دن عمل میں آیا تھا اور برصغیر کے مسلمانوں نے اس انعام خداوندی پر اپنے رب سے یہ عہد کیا تھا کہ اس پاک سرزمین کو اللہ کے دین اسلام کا گہوارہ بنائیں گے۔ آج کے دن چونکہ مسلمانانِ برصغیر نے ایک بے مثال تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں اپنے لیے پاکستان کی صورت میں آزادی اور اسلام کے سیاسی و معاشی عدل کا گہوارہ تخلیق کیا تھا اس لیے آج کے دن ہمیں اپنی ماضی کی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنے اور مستقبل میں نظریہ پاکستان کے ساتھ ثابت قدم رہنے کا عہد کرنا چاہیے۔ ہمارے لیے خدا کے فضل سے مایوسی اور بے یقینی کی دلدل سے نکل کر خوداعتمادی اور خودشناسی کے نئے دور میں داخل ہونے کے مواقع پیدا ہوگئے ہیں اور عوام کو اس تبدیلی حالات کا احساس بھی ہے اسی لیے پچھلے چند سالوں سے ہمارے عوام اپنی آزادی کا دن غیر معمولی جوش و جذبے اور اتحاد و یکجہتی کے ساتھ منانے لگے ہیں۔ اس دن طورخم، گلگت، بلتستان سے لیکر کوہ تافتان، چمن کے بارڈر، کراچی کے ساحل سمندر اورواہگہ بارڈرتک ایک جشن کا سماں ہے۔ پورے پاکستان میں یومِ آزادی بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے اس روز ملک بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ گلی کوچوں، بازاروں اور عمارات کو خوبصورت قمقموں سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ سبز ہلالی پرچم لہرائے جاتے ہیں۔اکثر مساجد میں ملک و قوم کی خوشحالی اور ترقی کیلئے دُعائیں ہوتی ہیں۔ سکولوں اور کالجوں میں جلسے ہوتے ہیں جن میں پاکستان کے قیام پر روشنی ڈالی جاتی ہے جبکہ بڑے شہروں میں فوجی پریڈ بھی ہوتی ہے۔ چند فیصد بگڑے ہوئے بچے ہنگامہ، ہاہو مچاناجشن آزادی کی روح قرار دیتے ہیں، ملک کے ہرسو میں سبز ہلالی پرچم لہرائے جاتے ہیں اور اس دن ہر انسان اپنے گھر، دفاتر، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر سبز ہلالی پرچم لہرانا اپنا فرض سمجھتا ہے اور یوں یہ دن خوشیاں بکھیرتا ہوا گزر جاتا ہے۔ آج کا یہ جشن اکہتر برس قبل 14 اگست 1947 کے یادگار دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جب اسلامیانِ ہند کو پاکستان کی صورت میں یہ نعمت عطا ہوئی تھی اور عین ستائیسویں رمضان کو ریاست مدینہ کے بعد دنیا کی پہلی اسلامی ریاست دنیا کے نقشے پر اُبھر کر سامنے آئی تھی۔ 14 اگست 1947ء تحریک آزادی کا ایک سنگ میل تھا جسے بدقسمتی سے ہم نشانِ منزل سمجھ بیٹھے حالانکہ قائد اعظم واضح الفاظ میں منزل کی نشاندہی کرچکے تھے کہ ہم ایسا ملک چاہتے ہیں جسے اسلام کی تجربہ گاہ بنا سکیں۔ اس روز بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی بدولت غلامی کی گھٹائیں اس خطہ سے دور ہوئی تھیں۔جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور ایک الگ ملک کا تصور پیش کیالیکن اُن کے اس تصور پر ہندوؤں نے بہت سازشیں کیں، مذاق اُڑایا اور اسے دیوانے کا خواب کہا۔ ہندوؤں کا یہ خیال تھا کہ یہ صرف ایک شاعر ہے اور شاعروں کے خواب تو ان کی زندگی کے ساتھ ہی دفن ہوجایا کرتے ہیں مگرہندوؤں کو اس بات کی بالکل خبر نہ تھی کہ اس شاعر کے خواب کا ماخٓذ قرآن ہے جس کا ہرفیصلہ اٹل اور ناقابل تبدیل و تغیر ہے۔ برصغیر کے غیر مسلم اور فرنگی یہ بات نہیں جانتے تھے کہ اللہ ربُ العزت نے قائد اعظم اور علامہ اقبال کو ایک خاص مقصد کیلئے چُناہے۔ علامہ اقبال صرف خالقِ پاکستان ہی نہیں تھے بلکہ وہ ایک سچے عاشقِ رسول بھی تھے۔ اقبال کی شاعری صرف برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی کا سبب ہی نہیں تھی بلکہ ان کی شاعری کو مشعلِ راہ بنا کر بہت سے ملکوں میں آزادی کی تحریک چلی۔ پاکستان کا قیام کسی حادثہ کے نتیجے میں وقوع پذیر نہیں ہوا تھابلکہ اس کے پیچھے پوری ایک صدی کی لازوال قربانیاں تھیں جبکہ ہندوؤں نے ہماری ہزاروں ماؤں بہنوں کی عصمت دری کی، اُن کے اس ظلم و تشدد سے تنگ آکر بزرگوں نے اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو دریاؤں اور کنوؤں میں پھینک دیاتھا اور ہندو بنیا نے ہمارے شیرخواربچوں کو ماؤں سے چھین کر سنگینوں میں پرودیا تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آج بھی ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں سکھوں کے گھروں میں بچے پیدا کررہی ہیں۔ پاکستان بنانے کیلئے جو قربانیاں ہمارے بزرگوں نے دی ہیں آج ہم اُن کی قربانیوں سے غافل ہوچکے ہیں۔ ایسی لازوال قربانیوں کی مثال دنیا کے کسی ملک سے نہیں ملتی۔ مگر دکھ کا مقام ہے کہ آج کا پاکستانی نوجوان آزادی کا مقصد بھول کر بے راہ روی کا شکار ہوچکا ہے وہ آزادی کا مقصد بھول چکا ہے۔14 اگست1947ء کی تاریخ برصغیر پاک و ہند کیلئے ناقابل فراموش تاریخ ہے۔ اس روز اسلامیان ہند نے ثابت کر دیا کہ وہ کسی ایسی متحدہ قومیت کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں جس میں ان کا اسلامی تشخص دھندلا کر رہ جائے۔ برصغیر پاک و ہند میں رہنے والے مسلمانوں کا تجربہ باقی دنیا کے مسلمانوں کے تجربات سے قطعی مختلف ہے اس لیے اسے سمجھنے میں باقی مسلمانوں کو دقت پیش آتی ہے۔ آزادی سے بڑی نعمت دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ ایک آزاد قوم ہونے کی حیثیت سے ہمارا سرفخر سے بلند ہونا چاہیے۔ آزادی کی قدروقیمت ہمیں ان اقوام سے پوچھنی چاہیے جو اس نعمت سے محروم ہیں۔ لیکن جب ہم اپنے حال پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک المناک نقشہ سامنے آتا ہے کیونکہ پاکستان جن مقاصد کیلئے بنایا گیا تھا آج وہ مقاصد قوم کو پورے ہوتے نظر نہیں آرہے۔ آج ہم بائیس کروڑ ہونے کے باوجود دن بدن زندگی کے ہر میدان میں پستی کی طرف گامزن ہیں اور 71 برسوں میں ہم اپنی حماقتوں کی وجہ سے اپنا آدھا ملک بھی گنوا چکے ہیں جبکہ باقی ماندہ ملک کو بھی ہم سنگین خطرات سے دوچار کرچکے ہیں۔ ہم نے آج اپنے آپ کو مختلف قومیتوں میں تبدیل کرلیا ہے، ہم پٹھان، بلوچی، سندھی اور پنجابی ہونے کا تعارف کرواتے ہیں جبکہ ہمارا تعارف پاکستانی ہونا چاہیے۔پاکستان کا حصول درحقیقت اس لیے ممکن ہوا تھا کہ اُس وقت کے لوگوں نے یہ ثابت کردیا تھا کہ ہم ایک مسلمان قوم ہیں لیکن آج ہم اپنی اپنی پسند کی قومیتوں کے خانوں میں بنٹ چکے ہیں۔ لسانی، نسلی، گروہی، علاقائی، صوبائی اور فرقہ وارانہ تعصبات نے ہمارے جسدقومی میں زہرپھیلا دیا ہے۔ یہاں تک کہ ہم لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوچکے ہیں۔ اعتماد، اخوت اور اتحاد کے رشتے ناپید ہوچکے ہیں۔ اس ملک میں مفادات کی جنگ بہت تیز ترہوچکی ہے اور کرپشن، بدعنوانی اور بددیانتی سکہ رائج الوقت کی حیثیت رکھتی ہے۔14 اگست ایک بہت ہی یادگار دن ہے اس دن پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور پاکستان بننے کا اعلان نشر ہوا تھا لیکن تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ پاکستان ایک مسلسل عمل اور جدوجہد کے بعد وجود میں آیا۔ 14 اگست وہ مبارک دن ہے جب ہمیں ایک آزاد مملکت کے آزاد شہری کہلانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ پاکستان مخصوص نظریہ حیات کی بناء پر معرض وجود میں آیا۔ درحقیقت14 اگست کا دن ہر پاکستانی کو تجدید عہد اور اس پر عمل کرنے کی دعوت دیتا ہے کہ اس دن ہم پاکستانیوں کو ایک صبح روشن کی نوید ملی اور سورج کی طرح روشن پاکستان معرض وجود میں آیا۔ اس دن غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئیں اور ہمیں آزادی نصیب ہوئی۔ یہ دن ہمیں لاکھوں مسلمان بھائیوں، بزرگوں، ماؤں، بیٹیوں اور بہنوں کی قربانیاں دینے کے بعد دیکھنا نصیب ہوا۔ اتنی بڑی اور لازوال قربانی اس لیے دی گئی کہ ہم آزاد، خوشحال اور اسلامی رسم و رواج کے مطابق اپنی زندگی بسر کرسکیں۔ برصغیر کے تمام مسلمانوں نے اس دن کو حاصل کرنے کیلئے اپنا تن، من، دھن قربان کردیا۔ ہمارے عظیم قائد محمد علی جناحؒ نے انتہائی مشکل حالات میں جرأت اور بہادری سے ہندوؤں اور انگریزوں کی غلامی کرتی ہوئی قوم کو ایک ساتھ اکٹھا کرکے حصول پاکستان کیلئے بے مثال جدوجہد کی۔ قائد اعظم ؒ نے تمام مشکلوں اور آزمائشوں کا دلیری کے ساتھ سامنا کرتے ہوئے مسلمانوں کے اس عظیم قافلے کو منزل مقصودتک پہنچا دیا۔ یہ منزل تھی قیام پاکستان۔ اس قافلے میں ہمارے بہت سے مفکرین، لیڈر، علماء کرام، طالبعلموں اور مزدوروں نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا اور تحریک پاکستان کی کامیابی اور کامرانی کیلئے انتھک محنت کی۔ جس کے نتیجے میں 14 اگست 1947ء کو پاکستان ایک مسلم ریاست کی شکل میں معرض وجود میں آیا۔ آج کے دن ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ ہم لسانیت، صوبائیت، فرقہ واریت اور شرپسندی جیسے مذموم کاروبار کا خاتمہ کریں گے اور ایک قومیت پاکستانی بن کر اپنی زندگی بسر کریں گے۔ نومنتخب وزیر اعظم14 اگست کے دن حلف اُٹھا رہے ہیں اللہ کرے کہ نومنتخب حکومت اس ملک کے اندھیروں کو اُجالوں میں تبدیل کردے، ناانصافیوں کو اس ملک سے ختم ہونا چاہیے۔ تھانوں اور کچہریوں میں غریب کی عزت نفس کو بحال ہونا چاہیے، بیروزگار نوجوانوں کو روزگار ملنا چاہیے، یکساں تعلیم کے مواقع عوام الناس کو ملنے چاہییں۔ کارپوریشن سکول اور گرائمر سکول کا ایک سلیبس ہونا چاہیے۔ خداکرے کہ قائد اعظم کا پاکستان حقیقی معنوں میں خوشحال پاکستان بن سکے۔
تحریر: شیخ محمد انور
سینئر نائب صدر پاکستان ریلوے ایمپلائز پریم یونین سی بی اے
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0300-9481002
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب