تحریر: شیخ محمد انور (مرکزی سینئر نائب صدر پاکستان ریلوے پریم یونین سی بی اے)
ای میل: sheikhmanwarW@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
تحریک پاکستان کے جذبے کو برقرار رکھنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔
تحریک پاکستان اور یوم آزادی
14 اگست، تجدید عہد کا دن ہے۔
۴۱ اگست وطنِ عزیز کی سالگرہ کا دن ہے اور آج پاکستان کے عوام اپنی آزادی کی ۲۷ ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ یہی وہ دن تھا جب مسلمانانِ برصغیر نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی ولولہ انگیز قیادت میں غلامی کی زنجیروں کو توڑ ڈالا اور دنیا کے نقشے پر ایک عظیم اسلامی مملکت کا ظہور ہوا۔ بظاہر پاکستان کا قیام ایک کٹھن مرحلہ تھا۔ برصغیر کی سیاسی صورت حال پر نگاہ ڈالی جائے اور خصوصاً ۵۳۹۱ء سے ۶۴۹۱ء تک کے واقعات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پاکستان کے قیام کا خواب واقعی ایک ناممکن خواب تھا لیکن اسلامیانِ ہند نے اپنے باشعور اور عظیم قائد کی راہنمائی میں جوکارنامہ سرانجام دیا اور جس انداز میں پاکستان معرض وجود میں آیا تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس دن طورخم، گلگت، بلتستان سے لیکر کوہ تافتان، چمن کے بارڈر، کراچی کے ساحل سمندر اورواہگہ بارڈرتک ایک جشن کا سماں ہوتا ہے۔ پورے پاکستان میں یومِ آزادی بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے اس روز ملک بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ گلی کوچوں، بازاروں اور عمارات کو خوبصورت قمقموں سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ سبز ہلالی پرچم لہرائے جاتے ہیں۔اکثر مساجد میں ملک و قوم کی خوشحالی اور ترقی کیلئے دُعائیں ہوتی ہیں۔ سکولوں اور کالجوں میں جلسے ہوتے ہیں جن میں پاکستان کے قیام پر روشنی ڈالی جاتی ہے جبکہ بڑے شہروں میں فوجی پریڈ بھی ہوتی ہے۔ چند فیصد بگڑے ہوئے بچے ہنگامہ، ہاہو مچاناجشن آزادی کی روح قرار دیتے ہیں، تاہم اس دن ہر سنجیدہ پاکستانی اپنے گھر، دفاتر، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر سبز ہلالی پرچم لہرانا اپنا فرض سمجھتا ہے اور یوں یہ دن خوشیاں بکھیرتا ہوا گزر جاتا ہے۔ آج کا یہ جشن بہتر برس قبل 14 اگست 1947 کے یادگار دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جب اسلامیانِ ہند کو پاکستان کی صورت میں یہ نعمت عطا ہوئی تھی اور عین ستائیسویں رمضان کو ریاست مدینہ کے بعد دنیا کی پہلی اسلامی ریاست دنیا کے نقشے پر اُبھر کر سامنے آئی تھی۔ پاکستان کسی معاہدے یا مذاکرات کی وجہ سے وجود میں نہیں آیا اور نہ ہی کسی نے پلیٹ میں رکھ کر پاکستان پیش کیا بلکہ اس کے پس منظر میں ایک عظیم نظریہ کارفرما تھا اور وہ نظریہ کلمہ توحید پر مبنی تھا جیسا کہ ایک موقع پر قائد اعظمؒ نے فرمایا تھا کہ ”پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندومسلمان ہوا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے وطن اور نسل نہیں“۔ آج نئی نسل اس صورت حال کا اندازہ نہیں لگا سکتی کہ وہ کس قدر کٹھن اور مشکل حالات تھے جس سے دس کروڑ اسلامیان ہند گزرے اور قوم نے پاکستان کے حصول کو ممکن بنایا۔ حضرت قائد اعظمؒ کو اس بات پر یقین تھا کہ مسلمان اپنے مذہب کیلئے بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار ہوتے ہیں اور ان کا تعلق اسلامی تہذیب و ثقافت سے ہے لیکن ایک عرصہ تک غلامی کے سائے میں پلنے کی وجہ سے مسلمان اپنا تشخص کھو چکے تھے اور اپنے ملی وجود کو خطرے میں ڈال چکے تھے۔ اس صورتِ حال کی عکاسی کرتے ہوئے اور مسلمانانِ برصغیر کو ان کی اعلیٰ روایات یاد دلاتے ہوئے قائد اعظم نے مسلم لیگ کے اجلاس میں فرمایا ”مسلمانوں میں اخلاقی سیاسی اور ثقافتی شعور کا وہ پہلا سااحساس نہیں رہا۔ قائد اعظم کے ان ارشادات کی روشنی میں اسلامیان ہند نے اپنی عظمت رفتہ کو آواز دی۔ جرأت، محنت اور استقلال کو مشعل راہ بنایا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ تحریک پاکستان کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوئی۔ اس مملکت خداداد کیلئے لاکھوں افراد نے جانی اور مالی جہاد کیا اور اسلامی مملکت کے قیام کیلئے سکون و آرام خود پر حرام کرلیا۔ یہ ایک بہت بڑا کارنامہ تھا، ایک کٹھن کام تھا، ایک صبرآزما لمحہ تھا لیکن زندہ قومیں آزادی اور خودمختاری کیلئے سب کچھ قربان کردیتی ہیں۔ وہ کسی کے محکوم نہیں رہنا چاہتیں۔ برصغیر کے مسلمانوں نے اسلام کے نام پر اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا۔ اتحاد اور یکجہتی کا ایک ایسا ناقابل فراموش مظاہرہ کیا کہ دنیا کی دوبڑی طاقتیں ان کے آگے جھک گئیں اور بالآخر ہندوؤں اور انگریزوں کو قیام پاکستان کا مطالبہ تسلیم کرنا پڑا۔ ۴۱ اگست کا دن جہاں اپنے ساتھ عظیم اور قابلِ فخر قربانیوں کی یاد لے کر آتا ہے۔ وہاں ہمیں اتحاد، یکجہتی، یقین محکم، تنظیم اور ایمان کا درس بھی دیتا ہے۔ یہی نظریہ تھا یہی وہ بنیاد تھی جس کی بناء پر تحریک پاکستان پروان چڑھی۔ یہی وہ نظریہ توحید تھا جس کیلئے مسلمانانِ برصغیر نے عظیم قربانیاں دیں۔ آج ہمیں اسی جذبے کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے جس کے تحت ہم نے تحریک پاکستان میں کامیابی حاصل کی۔ آج کا دن ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ہم نے کس مقصد کے تحت اس قدر گراں اور قابل قدر قربانیاں دیں۔ وہ کون سا نصب العین تھا جس کے تحت اسلامیانِ ہند نے دو عظیم طاقتوں سے ٹکرلی۔ پوری قوم آج پاکستان کا یوم آزادی جوش و ولولے کے ساتھ منارہی ہے۔ اس ملک کی آزادی کے حصول کیلئے بے بہا کوششیں بارآور ہوئیں اور دنیا کے نقشے پر پاکستان کے نام سے ایک الگ ملک معرض وجود میں آیا۔ بلاشبہ آج کا دن خوشیاں منانے کا دن ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک لمحے کیلئے ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت بھی ہے کہ ہم جس پاکستان میں رہ رہے ہیں کیا وہ ایسا پاکستان ہے جس کے حصول کیلئے ہمارے آباؤاجداد نے لازوال اور بے مثال قربانیاں دی تھیں؟ کیااُنہوں نے ایسے پاکستان کے بارے میں سوچا تھا جہاں دہشتگرد دندناتے پھرتے ہوں اور خلق خدا کو اپنے تحفظ کا کوئی راستہ نہ ملتا ہو، جہاں پانچ سال کی بچی کی عزت بھی محفوظ نہ ہو اور نہ ہی والدین اپنے بیٹے یا بیٹی کو سکول تنہا بھیج سکیں حالات تو یہ ہیں کہ بچوں کیساتھ والدین کو بھی پڑھنا پڑتا ہے، کیا اُنہوں نے ایسے پاکستان کا خواب دیکھا تھا جہاں نہ تو بجلی پوری ملتی ہو اور نہ ہی گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کوئی استحکام ہو، جہاں مہنگائی روزبروز بڑھ رہی ہو اور ملاوٹ، ذخیرہ اندازی، منافع خوری کرنے والوں کو کوئی پوچھتا نہ ہو، جہاں کوئی جائز کام بھی رشوت اور سفارش کے بغیر نہ ہوتا ہو، جس پر اربوں ڈالر کے ملکی وغیرملکی قرضے جن پر واجب الاداسود کی رقم ادا کرنے کیلئے ہمیں مزید قرضے لینے پڑتے ہوں اور جہاں سیاستدان اور سیاسی جماعتیں ملکی اور قومی مسائل کے حل تلاش کرنے کی بجائے اپنی اپنی باری کے انتظار میں بیٹھی ہوں اور یہ انتظار اگرقدرے طول پکڑجائے تو پھر فریق مخالفین کی ٹانگیں کھینچنے سے گریز نہ کیا جاتا ہو۔ پورا ملک لوڈشیڈنگ اور لوڈ مینیجمنٹ کے اندھیروں میں غرق ہورہا ہے اور سب اسے غرق ہوتا ہوادیکھ رہے ہوں، جہاں عوام کا خیرخواہ کوئی نہ ہو اور عوام کے نام نہاد خادم قومی خزانے کے ساتھ جونکوں کی طرح چمٹے ہوں، جہاں انصاف کا حصول مشکل ہو، یقینا اس ملک کی خاطر قربانیاں دینے والوں کے وہم وگمان میں بھی نہ ہوگا کہ ان کے پاکستان کا یہ حشر کردیاجائے گا۔
ہم اگر ایک سچے مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ دن مناتے تو 14 اگست کا دن ہمیں پکار پکار کر یہ صدا نہ دیتا کہ اے اہل وطن! تم اس دن کی اہمیت اور قدروقیمت بھول گئے؟ اس دن کو دیکھنے کیلئے تم نے جانیں قربان کرنے کی قسمیں کھائی تھیں اور تعمیر وطن کیلئے عظیم جدوجہد کی تھی۔ہم نے تو خداتعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوکر یہ وعدہ کیا تھا کہ ہم پاک وطن کو مکمل طور پر اسلامی جمہوری مملکت بنائیں گے۔ اس کی طرف اُٹھنے والی ہر غلط آنکھ اور ہاتھ کو تباہ و برباد کردیں گے۔ ہم اس وطن کو محبت و اخوت، بھائی چارے، امن و سکون، اسلامی تہذیب و تمدن اور اسلامی نظام کا گہوارہ بنائیں گے۔ اس گلشن کا تحفظ اپنی جان سے بڑھ کر کریں گے۔ اُسوہ حسنہﷺ پر چلتے ہوئے دنیا پر یہ ثابت کردیں گے کہ مسلمان جو عہد کرتے ہیں وہ سچے، مضبوط اور ناقابلِ شکست ہوتے ہیں۔ آج کا دن ہم سے یہ سوال کرتا ہے کہ آج پاکستان کس مقام پر کھڑا ہے؟ آج پاکستان میں لاقانونیت کیوں ہے؟ دہشتگردی کیوں ہے؟ ناانصافی کیوں ہے؟ ہمارے جسم کے ایک بازو پر فالج کیوں گرا؟ دوسرے بازو (بمعہ جسم) پر فالج کے حملے کیوں؟ غیر مسلم ممالک کی غلامی کیوں؟ مقبوضہ کشمیر کے بارے میں مصلحت انگیزی کیوں؟ قائد ملت کی شہادت سے آج تک ہزاروں قربانیاں دینے والوں کے مجرم بے نقاب کیوں نہ ہوسکے؟ اسلامی نظام سے فرار کیوں؟ ملک میں دہشتگردی، چور بازاری، سمگلنگ، ڈاکے، رشوت، حق تلفی، مفاد پرستی، اقتدار کا لالچ اور پاکستان کرپشن کی آماجگاہ کیوں؟ درحقیقت آج کے دن ہمیں قائد اعظم کے فرمان کے مطابق اتحاد، ایمان اور تنظیم کی سخت ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی محنت، ہمت اور عزم سے پاکستان کو عروج تک پہنچانا ہے۔ ہمیں عزم و استقلال اور محنت شاقہ سے اپنے وطن کو صف اول کی قوم بنانا ہے۔ قائد اعظم نے ایک بار فرمایا تھا جس قوم میں جذبئہ حب الوطنی ہو اُسے کوئی طاقت ختم نہیں کرسکتی۔ قائد اعظم کے اس ارشاد کی روشنی میں آج جذبہ حب الوطنی پیدا کرنا وقت کا سب سے بڑا تقاضا ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان ورثے میں نہیں ملا اس کیلئے ہمارے آباؤاجداد نے سروں کی فصیل کٹوادی اور والدین نے اپنی جوان بیٹیوں کی عزت بچانے کیلئے اُنہیں کنوؤں میں پھینک دیا۔ ہندو بنیے اور سکھوں نے ہمارے معصوم بچوں کو اپنی تلواروں اور کرپانوں کے ذریعے ماردیا۔ اس لیے یہ آزادی اور خودمختاری ایک بہت بڑی اور عظیم دولت ہے اور اس دولت کی حفاظت اتحاد ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ آج کے دن ہمیں ان شہداء کو بھی ہدیہ عقیدت پیش کرنا چاہیے جنہوں نے مادرِ وطن کی آزادی کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ تحریک پاکستان کے ان تمام قائدین اور رہنماؤں کو عقیدت و احترام کا نذرانہ پیش کرنا ہے جنہوں نے مسلمانانِ برصغیر کی رہنمائی کی اور تحریک پاکستان میں پیش پیش رہے اور جن کی کوششوں اور قربانیوں کے باعث آج ہم ایک آزاد اور اسلامی مملکت پاکستان کی پُربہار فضاؤں میں آزادی کے سانس لے رہے ہیں۔
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب