5فروری یوم یکجہتی کشمیر

تحریر: شیخ محمد انور(مرکزی سینئر نائب صدر پاکستان ریلوے پریم یونین سی بی اے)
فون نمبر: 0300-9481002
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
5فروری یوم یکجہتی کشمیر
کشمیر ڈے، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
اہلِ کشمیر آج سوال کررہے ہیں کہ ہماری ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بزرگوں کا خون
اس اہمیت کا حامل بھی نہیں کہ اس پر 5 فروری کے علاوہ بھی صدائے احتجاج بلند کی جائے۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے حقیقت پر مبنی مؤقف پیش کیا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ پاکستان میں جو بھی زرعی، معاشی اورصنعتی ترقی ہوئی ہے وہ کشمیر سے آنے والے دریاؤں کے پانی کی مرہونِ منت ہے جبکہ بھارتی غاصب پاکستان کی شہ رگ کا گلہ گھونٹ رہے ہیں۔ اس کی مثال بھارتی جارحیت آپ کے سامنے ہے۔ پاکستانی عوام میں کشمیر کی اہمیت کو اُجاگر کرنے اور آزادی کشمیر کی کاوشوں کو تقویت دینے کیلئے قائد اعظم کے فرمودات کو عملی جامہ پہناتے ہوئے مجاہدِ ملت سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمدؒ نے یومِ یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کیا اس وقت پنجاب میں ان کے سیاسی حلیف میاں محمد نواز شریف کی حکومت تھی، اُنہوں نے قاضی حسین احمد کی اپیل کے جواب میں صوبہ بھر میں سرکاری طور پر اس دن کو منانے کا اعلان کردیا جس کے بعد مرکز میں حکمران پیپلز پارٹی محترمہ بینظیر کے دورِ حکومت میں 05-02-1990 کو یومِ یکجہتی کشمیر ہر سال منانے کا اعلان ہوا۔ 05فروری کو ملت اسلامیہ پاکستان اور پوری دنیا میں کشمیری اور آزاد ممالک کے غیور عوام کشمیر کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے طور پر جلسے جلوس ریلیاں، قراردادیں اور نام نہاد اقوامِ متحدہ کو یادداشتیں پیش کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی کی قیادت اس بات کیلئے خراجِ تحسین کی مستحق ہے کہ اُس نے تحریک آزادی کشمیر کی جدوجہد کو کبھی پس پشت نہیں ڈالا بلکہ اس تحریک کا ہمیشہ ہراول دستہ بنی ہے۔ ان کے اراکین پارلیمنٹ نے سفارتی اور بین الاقوامی فورم پر ہمیشہ صدا بلند کی اور اقوام متحدہ اپنی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں رائے شماری کروانے پر زور دیا۔ بدقسمتی سے اقوامِ متحدہ اپنی ہی قراردادوں سے راہ فرار اختیار کرتی نظر آرہی ہے جسکی وجہ سے آج دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ عالمی دنیا اس کا ادراک کرے ورنہ تیسری عالمگیر جنگ کی لپیٹ میں دنیا آسکتی ہے۔ آج کشمیر میں ستر ہزار سے زائد افراد جیلوں میں بند ہیں، ہزاروں لاپتہ ہیں، ہزاروں ماؤں، بہنوں، بھائیوں اور بیٹوں نے جام شہادت نوش کرلیا ہے۔ نہتے اور بے گناہ انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے، چادروچار دیواری کا کوئی تقدس نہیں رہا۔ دراصل آج مقبوضہ کشمیر کی حالت ایسی ہے کہ یہ مسلمانوں کیلئے کربلا بن چکی ہے۔ ہر طرف اونچے پہاڑوں سے گھری ہوئی وادی کشمیر میں مسلمانوں کی حالت ایسی ہے جیسے کوئی پنجرے میں بند ہو۔ بھارتی فوج نے کشمیری مردوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب حریت پسندوں کی تلاشی کے نام پر بستیوں کو نہ جلایا جارہا ہو۔ سری نگر اور دیگر شہر قصبے کرفیو کی زد میں ہیں۔ خریداری اور نماز کی ادائیگی کیلئے بھی بہت کم وقفہ دیا جاتا ہے۔ بھارتی فوج نے نازی اور اسرائیلی فوج سے بھی بڑھ کر ظالم و جابر ہونے کا ثبوت دیا ہے اور جو کام تاتاری، جرمن اور یہودی افواج بھی نہیں کرسکیں وہ بھارتی فوج دن کی روشنی میں کررہی ہے اور کشمیری خواتین کی اجتماعی آبروریزی کی جارہی ہے۔ دوسری طرف قتل و غارت کا ایسا بھیانک کھیل جاری ہے جس سے دراصل کشمیریوں کی نسل ختم کرنا مقصود ہے۔بھارت کی ہٹ دھرمی کی انتہاء یہ ہے کہ اس کی فوج نے وادی کو پوری طرح گھیرے اور محاصرے میں لے رکھا ہے، غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بھی حقیقت حال جاننے کیلئے وادی میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ بین الاقوامی وفود کو بھی سری نگر جانے سے روک دیا جاتا ہے، انسانی حقوق کی علم بردار تنظیموں کو بھی سروے کرنے سے روک دیاجاتاہے اس کے باوجود دنیا کو یہ علم ہوچکا ہے کہ بھارتی حکومت وادی کشمیر میں انسانیت سوز مظالم ڈھارہی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ اسلامی دنیا کیلئے ایک ٹیسٹ کیس ہونا چاہیے۔ اس مسئلے کو معمولی سے دباؤ سے بھی حل کروایا جاسکتا ہے کیونکہ اس میں بھارت کا مؤقف کمزور ہے، وہ برصغیر کی آزادی کے ایجنڈے کی نفی کررہا ہے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کا مرتکب ہورہا ہے اور ظلم و بربریت کے کھیل سے انسانی حقوق کو ملیا میٹ کرنے کا مجرم ہے۔ اگر اسلامی ممالک بھارت کے خلاف متحدہ محاذ بنالیں تو کوئی وجہ نہیں کہ بھارت کو سلامتی کونسل کے فیصلے کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے استصواب کے انعقاد پر رضامند نہ کیا جاسکے۔ اسلامی دنیا کو اپنی اغراض کے دائرے سے باہر نکل کر کشمیری مسلمان بھائیوں کے دکھ درد کا احساس کرنا چاہیے اور ان سے زبانی ہمدردی اور جمع خرچ کی بجائے عملی اقدامات کے ذریعے انہیں بھارتی چنگل سے نجات حاصل کرنے میں مدد دینی چاہیے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ جو اسلامی دنیا ابھی تک فلسطین کا مسئلہ حل نہیں کروا سکی وہ مسئلہ کشمیر کس طرح حل کروائے گی؟ بھارت نے کشمیری حریت پسندوں کی پاکستان کے ساتھ بے پناہ محبت کے باعث مقبوضہ کشمیر کو زبردست وحشت وبربریت کا شکار بنایا ہوا ہے اور سینکڑوں نوجوانوں کو شہید کردیا ہے اور مسلمانوں کی بستیوں کو نذر آتش کرنے کی شرمناک مہم جاری ہے اور کشمیری عوام کو سرد موسم میں کھلے آسمان تلے تختہ ستم بنایاجارہاہے اور مسلمانوں کا بلاروک ٹوک قتل عام ہورہا ہے۔ کئی لاکھ بھارتی فوج اس وقت جس انداز سے وادی مقبوضہ کشمیر پر مظالم ڈھارہی ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی اور یہ عجیب بات ہے کہ بھارت کشمیریوں پر جس شدت اور بے رحمی سے حملہ آور ہے تحریک حریت کشمیر اتنی ہی تیزی اور توانائی سے آگے بڑھ رہی ہے اور اب تو مقبوضہ کشمیر کے ہر حصہ میں عوامی جنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ کشمیری عوام سروں پر کفن باندھ کر میدان کارزار میں نکل چکے ہیں۔ یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مقبوضہ کشمیر اور کشمیری عوام صدیوں سے اسلام کے مضبوط رشتوں سے منسلک چلے آرہے ہیں۔ پاکستان اور کشمیر کا ایک دوسرے کے ساتھ جسم و جاں کا سا رشتہ ہے پھر یہ بھی ایک بہت اہم بات ہے کہ قوموں کے حقوق کے بارے میں پاکستان نے ہمیشہ بین الاقوامی طور پر مسلمہ اصولوں کے مطابق موقف اختیار کیا ہے اور اس سلسلہ میں بڑی سے بڑی طاقت کی ناراضگی کی بھی پرواہ نہیں کی۔ کشمیری عوام کی جدوجہد کی تائید و حمایت پاکستان کا دینی، اخلاقی اور اصولی فرض ہے۔ جموں و کشمیر کے ساتھ پاکستانی عوام کی قلبی وابستگی کی بنیادیں اس قدر گہری ہیں کہ زمان و مکان کی تبدیلیاں کبھی اس پر اثرانداز نہ ہوسکیں یہی حال جموں و کشمیر کے عوام کا ہے جنہوں نے اپنی آزادی کی تحریک کو دو بنیادوں پر استوار کیا۔ اول اسلام سے تعلق اور دوم پاکستان سے محبت۔ آج پوری دنیا کی انسانیت بنیاد ی حقوق کی آواز بلند کررہی ہے، حیرت ہے کہ دنیا کے نقشے پر موجود کشمیر جتنا حسین و خوبصورت خطۂ زمین ہے اتنا ہی زیادہ اس کے حسن کو پامال کیاجارہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کشمیر میں ایسا بھی ہوا کہ ایک فرزند کشمیرجب اذان دینے کیلئے کھڑا ہوا تو پولیس نے اُسے گولی ماردی، اسکی جگہ دوسرا آگیا، پھر تیسرا، چوتھا اور اس طرح اذان کی تکمیل تک 22 مسلمان شہید ہوگئے۔ اے غافل مسلمان گمراہی کی زندگی سے باہر آجا، عیش و عشرت کی بجائے کشمیری اور فلسطینی بھائیوں کیلئے اُٹھ کھڑے ہو۔ میں اس کشمیر ڈے کے موقع پر اس ملک کے سیاستدانوں، نوجوانوں اور اپنی مزدور برادری کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ خدارا اب بھی سنبھل جاؤ، ایک طرف ہم آج پاکستان میں ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے پر لگے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فوج مسلمانوں کی عزتوں کو پامال کررہی ہے اور نوجوانوں کو اجتماعی قبروں میں ڈال رہی ہے۔ کشمیری آج سوال کررہے ہیں کہ ہماری ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بزرگوں کا خون اس اہمیت کا حامل بھی نہیں کہ اس پر 5 فروری کے علاوہ بھی صدائے احتجاج بلند کی جائے۔اس ملک میں سیاست دان کب تک اللے تللوں میں مصروف رہیں گے؟ خدارا رحم کرو، اب وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام دوبارہ اس بات کا عہد کریں کہ ہم نے ٹرمپ کا مقابلہ بھی کرنا ہے اور مودی کا مقابلہ بھی کرنا ہے۔ ہمیں اب کاسہ لیسی اور امریکی امداد سے توجہ ہٹا دینی چاہیے اور اپنے آپ کو ہمہ تن جہادِ آزادی کیلئے تیار رکھنا چاہیے۔ کشمیری حریت پسند درحقیقت کشمیر کی جنگ نہیں بلکہ پاکستان کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں کیونکہ شروع دن سے ہی حریت پسندوں نے ہندوستان کی حکمرانی کو قبول نہیں کیا۔

کیٹاگری میں : Column

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے