تحریر: شیخ محمد انور(ریلویز)
فون نمبر: 0333-2250719
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
6 ستمبر 1965ء کا جذبہ پاکستانی قوم اور فوج کی پہچان بن گیا۔
افواجِ پاکستان نے ملک و ملت کے دفاع اور ترقی و خوشحالی اور دہشتگردی کے خلاف جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں وہ تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جائیں گے۔
ملکی سلامتی اور تحفظ کیلئے اب بھی پاکستان کی بائیس کروڑ عوام اپنی پاک فوج کے دستِ بازو ہیں اور اُنہیں بجاطور پر اپنی فوج کی جرأت وبہادری پر فخر ہے۔
موجودہ حکومت نے اس بار چھ ستمبر کا یادگار دن روایتی جوش و جذبے کے ساتھ منانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ پوری قوم کو دفاع وطن کے تقاضوں، مسلح افواج کے کردار اور ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے سلسلے میں پیش آمدہ مسائل سے پوری طرح روشناس کیا جاسکے۔ ہم یہ دن کسی جارحیت پسند یا جنگ آزما قوم کی حیثیت سے نہیں مناتے اور نہ ہی کسی ہمسائے ملک کے بارے میں ہم توسیع پسندانہ عزائم رکھتے ہیں مگر 6ستمبر 1965ء کو ہماری عزیز سرزمین پاکستان کو جس جارحیت کا نشانہ بنایاگیا اور ہماری مسلح افواج نے جس جرأت و دلیری اور پوری قوم نے اتحاد و استقامت کے ساتھ اس جارحیت کو ناکام بنایا وہ بے مثال ہے۔ اس دوران دنیا کی سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ چونڈہ کے محاذ پر لڑی گئی اور ہمارے بہادر فوجی جوان اپنے جسم پر بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے یہی حال لاہور کی سرحد پر بھی ہوا کہ ہمارے جوانوں نے آگے بڑھ کر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ جو فوج رات کی تاریکی کا فائدہ اُٹھا کر کئی میل اندر آچکی تھی اُس کو واپس بھاگنے پر مجبور کیا۔ اللہ کی نصرت سے ہم نے دشمن کا حملہ ناکام بنایا۔ اس جنگ میں ہمارے لیے یہ سبق پوشیدہ ہے کہ ہمیں اپنی قومی سلامتی کے بارے میں ہمیشہ پوری طرح چوکس اور بیدار رہنا چاہیے۔ ہمارا ملک ایک انتہائی حساس خطے میں واقع ہے۔ ہمارے ایک طرف بھارت ہے جس کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی تمام ترکوششوں کے باوجود کشمیر کے بنیادی مسئلے پر ہمارا تنازعہ چلاآرہا ہے اور اب تو اس نے کشمیر کو متنازعہ علاقہ ماننے سے انکار کردیا ہے اور اپنے مقبوضہ خطہ کشمیر کو ہندوستان میں شامل کرنے کا اعلان کردیاگیا ہے جس کی وجہ سے جموں کشمیر میں بے حد خون ریزی ہورہی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے آرٹیکل 370 کو ختم کرکے کشمیریوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالاہے۔ مودی سرکار کا یہ فیصلہ انسانی حقوق پر کھلم کھلا حملہ ہے۔ مودی کا یہ اقدام پاگل پن ہے جس سے دونوں ملکوں کی کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ مودی سرکار سے نہتے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے بہتر سالوں کا حساب لینے کا وقت آگیا ہے۔ پاکستانی قوم کا بچہ بچہ اپنی مسلح افواج کے ساتھ ہے یوں افواج کی تعداد آج بائیس کروڑ تک پہنچ چکی ہے جس دن ہمارے حکمران جنگ کا اعلان کریں انشاء اللہ ملک بھر کے مزدور، طالب علم، نوجوان، ڈاکٹر، انجینئرز اور سب لوگ مسلح افواج کے ہمراہ کھڑے ہوں گے۔ موجودہ حکمرانوں اور سیاست دانوں کو کشمیری بہنوں، بیٹیوں اور بھائیوں کی وجہ سے باہمی اختلافات ختم کرکے ایک متحد ہوجانا چاہیے اور پاکستان کو جنگ میں پہل بھی کرنا پڑے تو حرج نہیں۔ ذلت کی زندگی سے شہادت کی موت بہتر ہے۔ ہم خلیج کے دہانے پر واقع ہیں جو تیل کی سب سے بڑی گزرگاہ کے طور پر عالمی طاقتوں کیلئے گہری دلچسپی کا باعث ہے۔ ایک جانب ہماری سرحدیں عوامی جمہوریہ چین اور سودیت یونین جیسے طاقت ور ہمسایوں سے ملتی ہیں اور دوسری جانب افغانستان اور ایران جنہیں حالات و واقعات کی کروٹوں نے انقلابوں کی سرزمین بنادیا ہے اور ان میں رونما ہونے والی تبدیلیاں ہماری قومی سلامتی پر اثرانداز ہوسکتی ہیں۔ اس پس منظر میں ہمارے لیے دانشمندی کی راہ یہی ہے کہ ہم دفاع وطن کے معاملے میں ذرا سی غفلت کا بھی مظاہرہ نہ کریں اس نازک موقع پر اسلامی اُمہ کی خاموشی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ 6ستمبر 1965ء کو جب پاکستان کی مقدس سرحد پر بھارت نے کھلم کھلا جارحیت کا ارتکاب کیا تو پوری قوم اس کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی وطن کے سرفروش مجاہد اورکفن بردوش غازی جب سرحدوں کی طرف لپکے تب ہر شہری نے محاذ جنگ سے دور ہر گھر، ہر دفتر اور ہر محلے کو ایک مورچہ بنالیا اور دشمن کے خلاف عوام کی سطح ایک زبردست محاذ قائم کرلیا۔ 6ستمبر کا دن ہمیں ان عظیم فرزندوں کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے مادرِ وطن کی حفاظت کیلئے جام شہادت نوش کیا اور اس ملک کی سلامتی اور استحکام کو اپنا خون دے کر حیات جاوداں حاصل کی ہے۔ آج کے دن وہ ہم سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیاتم وہی قوم ہو؟ تمہارا وہ جذبہ کہاں گیا جس کا مظاہرہ تم نے 6ستمبر کو کیا تھا اور ایک اور نیک ہوکر دشمنوں پر فتح حاصل کرکے بارگاہِ الٰہی میں سرخروہوئے تھے۔ وطن عزیز کا دفاع اور اس کا استحکام صرف پاک افواج کا ہی فرض نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم کا فرض ہے کہ سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ ان مکروہ عزائم اور برائیوں کا بھی قلع قمع کریں جو پوری قوم کیلئے ناسور کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔ ہم سماجی اور معاشرتی برائیوں کا تدارک کرکے ہی اس مملکت کی تعمیر و ترقی میں حصہ لے سکتے ہیں۔ ہم احسان خداوندی کے شکرگزار ہیں جس نے یہ مملکت ہمیں عطا کی۔پاکستان کی افواج بہت باقاعدہ اور صحت مند زندگی کا نمونہ پیش کرتی ہیں اور یہ توقع بھی کی جاسکتی ہے کہ انسان اپنے آپ کو مٹاکر خود کو ملک اور قوم پرقربان کردے۔ فوج کے ساتھ مل جل کر کام کرنے کا جذبہ ہی قوم کیلئے فخر، شان و شوکت، سالمیت اور بقا کا ضامن ہے۔ آج کا دن ہماری تاریخ کا ایک یادگار دن ہے کیونکہ آج سے 54 سال پہلے ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان نے جارحیت کا ارتکاب کرکے ہمارے ایمان کا امتحان لیا تھا جس میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم کامیاب و کامران نکلے اور ہم نے ہندوستان پر واضح کر دیا کہ پاکستان زندہ رہنے کے لیے بنا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس کی آزادی کو سلب نہیں کرسکتی۔ آج ہمیں یہ بات بھی یادرکھنی چاہیے کہ جہاں ہماری جیت یعنی اپنی آزادی کی حفاظت میں ہماری فوج کی سرفروشی کارفرما تھی، وہاں یہ عنصر بھی نمایاں تھا کہ پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی تھی۔ جب برصغیر میں آزادی کا اعلان ہوا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ عوام اور مسلح افواج کے درمیان وہ فاصلے ختم ہوگئے ہیں جو استعماری طاقت نے پیدا کررکھے تھے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بحران کے وقت ہی قوم کو خدا یاد آتا ہے اور مسلح افواج بھی، لیکن جب وہ بحران گزر جاتا ہے تو قوم خدا کو بھی بھول جاتی ہے اور فوج کو بھی۔ آج کا دن ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم پیچھے مڑکردیکھیں اور اپنی غلطیوں کا معروضی جائزہ لے کر اپنے معاملات کو صحیح راہ پر ڈالنے کی کوشش کریں۔
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب