علامہ اقبال ایک مسلم مفکر کی حیثیت سے مفکر پاکستان کی زندگی جہدمسلسل کی لازوال مثال ہے۔ 2019

تحریر: شیخ محمد انور(ریلویز)
فون نمبر: 0333-2250719
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
علامہ اقبال ایک مسلم مفکر کی حیثیت سے
مفکر پاکستان کی زندگی جہدمسلسل کی لازوال مثال ہے۔
اہلِ وطن کو مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبالؒ کی 142ویں سالگرہ کی خوشیاں مبارک ہوں۔
حضرت علامہ اقبالؒ کا یہ قول بجائے خود ان کی ذات و صفات اور شخصیت پر بجاطور سے صادق آتا ہے کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اس حقیقت کی تردید ممکن نہیں کہ علامہ اقبال حقیقی معنوں میں ایک عظیم فلسفی مفکر اسلام، سیاسی رہنماء اور برصغیر پاک و ہند کے علاوہ عالم اسلام کی ملتِ مسلمہ کی بیداری کے پیامبر شاعر اور عاشق رسول تھے اور زندہ قومیں اپنے اکابرین کی یادوں کو کبھی فراموش نہیں کیا کرتیں۔ علامہ اقبال ہماری قوم کا سب سے بڑا فکری سرمایہ ہیں اور اس مملکتِ خدا کا ہرشہری، ہر مزدور، ہر طالبعلم اور ہر شعبہ زندگی کے اعتبار سے ان کا ہمیشہ مرہون منت رہے گا کہ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ، آزاد اور خود مختار ملک کا تصور پیش کیا۔ آج 9 نومبر کا دن ہے اور پاکستان کے علاوہ چائنہ، ایران، امارات، آسٹریلیا اورجرمنی کے علاوہ دیگر ممالک میں علامہ اقبال کا 142واں یوم ولادت منایا جارہا ہے۔ اس موقع پر تمام چھوٹے بڑے شہروں میں خاص تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ آج شاعر مشرق علامہ اقبال کی زندگی کے بارے میں مقالے پڑھے جائیں گے اور علامہ اقبال کو خراج تحسین پیش کیا جائے گا۔ علامہ اقبال سیالکوٹ کے کشمیری گھرانے میں 9 نومبر 1877؁ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم کا نام شیخ نور محمد تھا جو کہ نہایت ہی متقی اور پرہیزگار انسان تھے اور عاشق قرآنِ حکیم تھے۔ علامہ اقبال کی زندگی پر ان کے والد محترم کا گہرا اثر تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم ایک مکتب میں حاصل کی۔ اس کے بعد سکول میں داخل ہو کر سکول کا امتحان پاس کیا اور اس کے بعد مرے کالج میں داخل ہوئے۔ اسی ادارے میں سید میر حسن جیسے شفیق اُستاد سے پڑھنے کا موقع ملا اور ان کی بدولت علامہ اقبال میں شعر و شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کرنے کے بعد آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور یہیں سے بی اے اور ایم اے کیا اور ایران کے فلسفہ مابعدالطبیعات پر ایک مبسوط مقالہ رقم کیا جس پر جرمنی کی مشہور میونخ یونیورسٹی نے انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی۔ جرمنی سے انگلستان آکر انہوں نے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ لندن یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر بھی رہے۔ علامہ اقبال صرف خالقِ پاکستان ہی نہ تھے بلکہ وہ ایک سچے عاشقِ رسول بھی تھے اور ان کو متعدد بار نبی اکرمﷺ کی زیارت بھی ہوئی۔ یہ بھی سچ ہے کہ انہوں نے کبھی بے وضو نبی اکرمﷺ کا نام نہیں لیا تھا۔ علامہ اقبالؒ ایک شاعر، ایک فلسفی اور محب وطن مجاہد تھے۔ علامہ اقبال کا خیال ہے کہ دین کے بغیر روح اور اخلاق میں شفافیت پیدا ہوہی نہیں سکتی۔ اقبال نے فرد اور ملت کو بالخصوص اپنے فلسفے کا موضوع بنایا کیونکہ سیاست میں یہ دونوں اہم کردار ادا کرتے ہیں ان کے خیال کے مطابق فرد کی صلاحیتیں اس وقت تک کوئی اہمیت نہیں رکھتیں جب تک ان صلاحیتوں کو اجاگر کرنے یا پیش کرنے کیلئے اس کے سامنے ایک باقاعدہ سوسائٹی نہ ہو اور سوسائٹی کی تشکیل افراد کے اجتماع سے ہوتی ہے ایک فرد واحد جو ترقی یافتہ دنیا میں بے شمار ضرورتوں کیلئے دوسروں کا محتاج ہے اکیلا رہ کر بالکل تنہا ہے۔ نہ تو اس کی انفرادی حیثیت اس کی اپنی ذات کیلئے فائدہ مند ہو سکتی ہے اور نہ ہی وہ کسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ علامہ اقبال اس حقیقت کیلئے بھی داعی ہیں کہ فرد کا اپنا ذاتی کردار ملت کی کارکردگی پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔ علامہ اقبال نے بڑے واضح انداز میں کہا کہ مسلمان کسی اقلیم میں پابند نہیں ہوسکتا۔ اس کا مذہب عالمگیر ہے اس کی سیاست جہاں گشاء ہے اس کا وطن عالم اسلام ہے۔ اقبال مغرب کے نہ صرف سیاسی وجود کی بناء پر متنفر تھے بلکہ فلسفیانہ نکتہ سے بھی وہ ان کے زبردست مخالف تھے سب سے پہلے تو ان کا خیال تھا کہ مغرب کو مشرق میں آنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا اور نہ ہی مشرقی تہذیب کی دیرینہ روایات کو مسلنے کا اس کے پاس کوئی جواز ہے۔ وہ قوم کے ہر فرد کو مغرب کی جدت پسندی سے نفرت کی تلقین کرتے ہیں۔ اقبال کے خیال میں انگریز کی کسی بھی ترقی میں صداقت و ایمان کا ذرہ بھر نہیں ہے۔ ان کے خیال میں زیادہ محرک مشرقیت ہے اور مشرقیت میں بالخصوص دینی استواری ہے اس بناء پر انہیں شاعر مشرق اور حکیم الامت کے خطابات سے نوازا گیا ہے۔ اقبال انقلابات کے نظریات کے بارے میں کہتے ہیں کہ جو جذبہ انقلاب پیدا کرنے میں کارفرماہوتا ہے اس جذبے کا نام عشق ہے کیونکہ ٹھنڈی حکمت اور مفاد کوشی کبھی نظم حیات میں کبھی کوئی بنیادی تغیر پیدا نہیں کرسکتی۔ علامہ اقبال کی ابتدائی زندگی ایک شاعر سی ہے۔ علامہ اقبال اور فیض احمد فیض ایسے دو شاعر ہیں جن کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور ان دونوں ہی شاعروں نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی اور اقبال کے شاعرانہ جذبات بھی تقریباً ایک جیسے ہیں۔ علامہ اقبال حصول تعلیم پر بہت زور دیتے ہیں کیونکہ دنیا کی کوئی سلطنت اس امر کا دعویٰ نہیں کرسکتی کہ اس نے تعلیم کے بغیر اپنے ملک کا نظم ونسق احسن انداز اور کامیابی سے چلایا ہے۔ اقبال کے خیال میں جدید علوم و فنون کا تمام تر انحصار مادیت پر ہے لیکن مسلمان مادیت کے علاوہ جس بات پر انحصار کرتا ہے وہ روحانیت اور وجدانیت ہے۔ جدید تعلیم سوائے گمراہی کے اور کوئی چیز نہیں۔ ایسی تعلیم جو دینی اقدار سے دور لے جائے، ماضی سے بے خبر کردے مستقبل کی کامیابیوں سے بے گانہ کردے اور انفرادیت کو خاک میں ملا دے بالکل بے سود ہے۔ اقبال کا فلسفہ تعلیم موجودہ دور کی تعلیم کے خلاف ہے جو لوگ دین کی تعلیم حاصل نہیں کرتے وہ طاغوتیوں میں سے ہوتے ہیں۔ طاغوتی علم انسان کو سرکشی اور خود سری سکھاتا ہے اور اس علم کا منبع ابلیس ہے علامہ اقبال کا خیال ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کا مقصد خاص نہیں چاہیے۔ بے مقصد تعلیم حاصل کرنا عمر ضائع کرنے کے مترادف ہے روحانیت کی افزائش انسان میں روحانی اصلاح ہی سے انسان میں وجدانیت کی کیفیات کی پرورش کرسکتی ہے۔ اس روحانی اصلاح کو علامہ اقبال تربیت خودی کا نام دیتے ہیں۔علامہ اقبال نے جب ایک الگ ملک کا تصور پیش کیا تو ان کے اس تصور پر ہندوؤں نے بہت سازشیں کیں، مذاق اُڑایا اور اسے دیوانے کا خواب کہا۔ ہندوؤں کا یہ خیال تھا کہ یہ صرف ایک شاعر ہے اور شاعروں کے خواب تو ان کی زندگی کے ساتھ ہی دفن ہوجایا کرتے ہیں۔ مگرہندوؤں کو اس بات کی بالکل خبر نہ تھی کہ اس شاعر کے خواب کا ماخٓذ قرآن ہے جس کا ہرفیصلہ اٹل اور ناقابل تبدیل و تغیر ہے۔ برصغیر کے غیر مسلم اور فرنگی یہ بات نہیں جانتے تھے کہ اللہ ربُ العزت نے علامہ اقبال کو ایک خاص مقصد کیلئے چُنا۔ اقبال کی شاعری صرف برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی کا سبب ہی نہ تھی بلکہ ان کی شاعری کو مشعلِ راہ بنا کر بہت سے ملکوں میں آزادی کی تحریک چلی۔ علامہ اقبال کو اس بات کا علم ہوچکا تھا کہ موجودہ دور میں صرف ایک ہی ایسا انسان ہے جو مسلمانوں کو ان کا حق دلا سکتا ہے اور ان کی ہر طرح سے رہنمائی کرسکتا ہے۔ لیکن قائد اعظم جو کہ مسلمانوں کی نااتفاقی سے مایوس ہوکر بیرون ملک چلے گئے تھے تواقبال ہی نے ان کو خطوط لکھے اور درخواست کی کہ وہ ہندوستان واپس آئیں اور مسلمانوں کی رہنمائی کریں اور اس ڈوبی ہوئی کشتی کو کنارے پر لائیں۔ آخر کار قائد اعظم واپس آئے اور علامہ اقبال کیساتھ مل کر مسلمانوں کی رہنمائی کرکے آزاد اور خود مختار ملک کیلئے جدوجہد شروع کردی۔ لیکن اس قوم کی بدقسمتی کہ پاکستان کا خواب دیکھنے والا پاکستان بننے سے 9سال پہلے ہی فانی جہاں سے لافانی جہاں کی طرف کوچ کرگیا۔ علامہ اقبال کی شعر وشاعری نے مسلمانوں کے اندر حریت پسندی کا وہ جذبہ پیدا کردیا کہ ان کی وفات کے باوجود وہ حریت پسندی کا شعلہ پروان چڑھتا چلا گیا اور بالآخر برصغیر کا مسلمان ریاست مدینہ کے بعد کلمے کی بنیاد پر بننے والا پاکستان وجود میں لے آیا۔برصغیر کے مسلمانوں نے قائد اعظم اور علامہ اقبال کی قیادت میں ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان بننے کے موقع پر جتنی قربانیاں برصغیر کے مسلمانوں نے دیں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایک ترک سکالر نے اقبال کو خراج عقیدت ادا کرتے ہوئے لکھا کہ اقبال کی شخصیت صرف ان کے ہم وطنوں کیلئے باعث فخر نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے مایہ ناز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے افکار عالیہ سے نوعِ انسان کیلئے متعدد مسائل حال کرنے کی کوشش کی۔ آپ نے 21 اپریل 1938؁ء کو لاہور میں رحلت فرمائی اور شاہی مسجد کے سامنے حضوری باغ میں دفن ہوئے۔ عام دنوں میں بھی لوگ ان کے مزار پر فاتحہ خوانی کیلئے جاتے ہیں مگر خاص مواقع مثلاً یوم اقبال پر بہت زیادہ لوگ حاضری کیلئے جاتے ہیں اور اسی دن وہاں پر مسلح افواج کی تبدیلی ہوتی ہے۔ یوم اقبال کے موقع پر ملک کے سربراہان کی طرف سے بھی ان کے مزار پر پھول چڑھائے جاتے ہیں اور بے شمار علمی اور ادبی اداروں اور انجمنوں کی طرف سے بھی چادریں چڑھائی جاتی ہیں اور فاتحہ خوانی کی جاتی ہے۔

کیٹاگری میں : Column

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے