تحریر: شیخ محمد انور(مرکزی سینئر نائب صدر پاکستان ریلوے پریم یونین سی بی اے)
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
آہ! وہ الفاظ کہاں سے لاؤں کہ اپنے محسن ڈاکٹر سید وسیم اختر (مرحوم) کے بارے میں کچھ تحریر کرسکوں۔ قرون اولیٰ کے دور کے مسلمانوں کی جھلک مرحوم میں نظر آتی تھی۔ میں 3 جون کی شام مسجد نبوی میں موجود تھا کہ میری اہلیہ کافون آیا، میرے ساتھ حال چال پوچھتی رہیں، میں نے کہا کہ آپ بات لمبی کررہی ہیں مجھے اصل بات بتائیں تو کہنے لگیں کہ شیخ صاحب حوصلے سے بات سنیں، ڈاکٹر وسیم اختر آج فانی جہاں سے لافانی جہاں کی طرف رخصت ہوگئے ہیں۔ یہ خبر مجھ پر بجلی بن کرگری۔ واقعی مجھ جیسے تحریک اسلامی کے ہزاروں کارکنوں اور لاکھوں اہلِ علاقہ کیلئے پریشان کُن خبر تھی لیکن موت ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے کسی کو فرار ممکن نہیں۔ میں خبر سنتے ہی سجدہ ریزہوگیا اور خوب دل بھر کر دُعائیں کیں، خوب رویا اس کے سوا میں کربھی کیا سکتا تھا؟ میں گھر والوں اور ڈاکٹر وسیم اختر کے اہل خانہ اور ان کے دست راست کاشف بھائی کے مسلسل رابطے میں تھا اور تقریباً روزانہ ہی مجھے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں خبر ملتی رہتی تھی۔ عمرے پر جانے سے پہلے بھی جب ڈاکٹر صاحب کو کراچی علاج کیلئے بھیجا گیا تب بھی میں الحمدللہ مسلسل رابطے میں تھا۔ مجھے گاہے بگاہے فون پر مسلسل تفصیلات مل رہی تھیں۔ میں ڈاکٹر صاحب کے جنازے میں شرکت نہ کرسکا، یہ غم میں زندگی بھر نہ بھلا سکوں گا کیونکہ میں نے ڈاکٹر صاحب کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ میرا تعلق 25، 30 سال پر محیط ہے۔ ڈاکٹر صاحب جب بہاولپور سے بذریعہ ٹرین روانہ ہوتے تو میں اکثر وبیشتر اُن کا لاہور اسٹیشن پر استقبال کرتا اور اگر میں لاہور میں نہ ہوتا تو یہ ڈیوٹی میرا بیٹا اُسامہ احمد جوکہ آج سول انجینئر ہے وہ سرانجام دیا کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں ایک دن اُن کے ساتھ سیکرٹریٹ گیا،ایک آدمی جو کہ محکمہ آبپاشی سے ریٹائرہوچکا تھا اور ایک سال گزرنے کے باوجود اُس کو واجبات نہیں ملے تھے، اُس کی فائل لے کر سیکرٹری کے پاس گئے۔ کمرے میں میٹنگ ہورہی تھی، ڈاکٹر وسیم صاحب کمرے کے باہر چپڑاسی کی کرسی پر بیٹھ گئے اور میں اُن کے پاس کھڑا رہا۔ کچھ دیر بعد ایک اور سیکرٹری باہر آئے تو ڈاکٹر صاحب کو دیکھ کر پریشان ہوگئے اور کہا کہ آپ باہر چپڑاسی کی کرسی پر بیٹھے ہیں تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ اندر میٹنگ میں مصروف تھے، میں بہاولپور کے عوام کا چپڑاسی ہوں اور ٹھیک جگہ پر بیٹھا ہوا ہوں۔ اُنہوں نے ہاتھ پکڑا اور اندر لے گئے اور یہ سارا واقعہ سیکرٹری صاحبان کو بتایا تو وہ حیران ہوگئے۔ اُسی وقت اس فائل پر سیکرٹری ایریگیشن نے آرڈر کیے اور الحمدللہ اس سائل کا کام ہوگیا۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ کہ چولستان سے ایک طالبہ نے ڈاکٹر وسیم اختر کو خط لکھا کہ ڈاکٹر صاحب چولستان کے سکولوں کو فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے بندکیاجارہا ہے، چولستان کے عوام کا کیا گناہ ہے، مجھے آپ کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ جو بھی کوئی آپ کے پاس اپنا کوئی کام لے کر آئے تو آپ اُس کی آواز بن جاتے ہیں، میں آپ کی بیٹی ہوں اور میرا آپ کے پاس آنا مشکل ہے، چولستان میں 72سکول ہیں جن کو بند کیا جارہا ہے، خدارا! ان کو بند نہ ہونے دیا جائے، ڈاکٹر صاحب نے اس خط پر اسمبلی میں اس آواز کو بلند کیا اور الحمدللہ حکومت کو مجبور کیا اور وہ سکول بند ہونے سے بچ گئے جہاں پر آج بچے اور بچیاں اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ میرے بچے لاہور کے ایک مقامی سکول جس کا نام ابدالی پبلک سکول ہے، اس سکول میں زیرتعلیم تھے۔ میری بیٹی کی کلاس فیلو کو بلڈکینسر ہوگیا جو کہ سکول آیا کی یتیم بیٹی تھی۔ جب میری بیٹی نے بتایا تو میں نے اپنے دوستوں غلام قاسم، حامد ریاض ڈوگر، عبدالقیوم اعوان اور خلیق بٹ کے ہمراہ سکول کے پرنسپل عتیق احمد سے ملاقات کی اور اس بچی کیلئے فنڈریزنگ کی اپیل کی۔اسی دوران ہم نے ڈاکٹر وسیم اختر صاحب کیساتھ ملاقات کی جس پر اُنہوں نے 2006ء میں صوبائی اسمبلی میں تحریک پیش کی اور وزیراعلیٰ پنجاب سے مفت علاج کا حکم جاری کروایا اور آج الحمدللہ وہ بچی اپنے گھر میں خوشحال زندگی گزار رہی ہے۔ 2007ء میں، میں عمرے کے سفر پر تھا کہ مجھے ریلوے کے جنرل مینیجر اورنگزیب خان صاحب کا فون آیا کہ شیخ صاحب آپ کہاں ہیں؟ میں نے اُنہیں بتایا کہ میں اس وقت غارِ حرا میں بچوں کے ساتھ بیٹھا ہوں تو اُنہوں نے کہا کہ شیخ صاحب آپ کے ایک دوست جو بہاولپور سے آتے ہیں جو کہ نہایت ہی نیک اور سادہ انسان ہیں اُن سے کہو کہ فوراً مجھ سے رابطہ کریں،میں اُن کو قراقرم ٹرین کا بہاولپور میں سٹاپ دینا چاہتا ہوں۔میں نے اُسی وقت ڈاکٹر صاحب کو آگاہ کیا، ڈاکٹر صاحب خوش ہوئے اور پھر دوسرے ہی دن ڈاکٹر صاحب نے بہاولپور اسٹیشن پر عوام کو لیکر قراقرم ٹرین کا استقبال کیا اور اسی طرح بہاولپور کی عوام کو پاکستان ریلوے کی بہترین ٹرین قراقرم کاسٹاپ مل گیا۔ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں لکھنے کیلئے بہت وقت چاہیے، میں نے ذاتی طور پر ڈاکٹر صاحب کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور ڈاکٹر صاحب کا رشتہ بھی ہمارے بچپن کے دوست ملک منیر جو کہ شام نگر کے رہائشی ہیں اُنہوں نے کروایا تھا۔ ڈاکٹر وسیم اختر کی والدہ مرحومہ سیدعطااللہ شاہ بخاریؒ (مرحوم) کی نواسی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب کی اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی نے ان کی بہترین تربیت کی اور میرے نزدیک یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب شروع ہی سے ایک حریت پسند انسان تھے، حق کیلئے ڈٹ جایا کرتے تھے۔ مجھے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ریلوے کے علاوہ بھی بہت سے ایوانوں میں، گراؤنڈوں میں اور بیوروکریٹس کے پاس جانے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر صاحب سپورٹس کے بھی دلدادہ تھے اور متعدد بار اُنہوں نے بہاولپور کے اسٹیڈیم میں فٹ بال کے ٹورنامنٹ کروائے تھے۔ وہ پنجاب فٹبال ایسوسی ایشن کے نائب صدراور بہاولپور ڈویژن کے صدر بھی رہے۔ اُس وقت حافظ سلمان بٹ (سابق ممبر قومی اسمبلی) پاکستان فٹبال فیڈریشن کے سیکرٹری ہوا کرتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب سپورٹس کے میدان میں بھی بہت متحرک تھے۔ مرحوم ڈاکٹر وسیم اختر نے پنجاب اسمبلی میں پوری جرأت اور بہادری سے قادیانیوں کی سازشوں کا پردہ چاک کیا اور یہ بل منظور کروایا کہ پنجاب میں کوئی قادیانی آئندہ اسلامیات کا مضمون نہیں پڑھائے گا۔اس عظیم الشان کامیابی کا وہ اکثر ذکرکیاکرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ شاید اسی چیز پر مجھ سے اللہ راضی ہوجائے۔ ڈاکٹر صاحب کی خدمات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ ان کااحاطہ ممکن نہیں تاہم انشاء اللہ کوئی مصنف یہ کام مستقبل میں ضرور سرانجام دے گا۔ ڈاکٹر صاحب 9 ستمبر1956ء کو شہر لاہور کے علاقہ گوالمنڈی میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد محترم سید اختر حسین شاہ پاک فوج کے شعبہ اکاؤنٹس میں ملازم تھے۔ ڈاکٹر وسیم اخترنے لاہور کینٹ گیریزن بوائے ہائی سکول سے میٹرک کیا۔اس کے بعد والد محترم کی ٹرانسفر راولپنڈی ہوگئی اور ایف ایس سی سرسید ڈگری کالج راولپنڈی سے کی۔ 1973ء میں قائد اعظم میڈیکل کالج بہاولپور میں داخلہ لیا۔ 1979ء میں قائد اعظم میڈیکل کالج کی سٹوڈنٹس یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ اس کے بعد اسلامی جمعیت طلبہ بہاولپورکے ناظم اور پھر مرکزی شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔ کیا حسن اتفاق ہے کہ شہرلاہور کا نوجوان بہاولپور میں جاکر وہاں کے عوام کا اتنا محبوب بنا کہ وہ نوابوں کے ہوتے ہوئے 1990ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم پر بہاولپور سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوگئے۔ 1993ء میں اسلامک فرنٹ کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا لیکن ہار گئے۔ 2002ء میں دوبارہ ایم پی اے منتخب ہوئے اور بہاولپور کے عوام کی 2007ء تک آواز بنے رہے۔ اسی طرح2013ء سے 2018ء تک پنجاب اسمبلی کے رکن رہے۔ وہ لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کیلئے بہاولپور آئے اور پھر یہیں کے ہوکررہ گئے۔ اگر بہاولپور کے لوگوں نے اپنی محبت اور عقیدت کے گلاب ان پر نچھاور کیے تو ڈاکٹر وسیم اختر نے بھی اپنی پوری زندگی بہاولپور والوں کے نام کردی۔ دارالسلطنت میں شامل ہونے کیلئے کئی مرتبہ دعوت آئی مگر اُنہوں نے تخت لاہور کی بجائے چولستان کے خاک نشینوں سے رفاقت کو ہی ترجیح دی۔ ڈاکٹر وسیم اختر اسمبلی میں ہوں یا اس سے باہر، بہاولپور کے بادشاہ، وزیر، پیادے انہیں راستہ دیں یا نہ دیں، جماعت اسلامی انہیں پنجاب کی ذمہ داری سونپے یا جنوبی پنجاب کا محاذ ان کے حوالے کردے، ڈاکٹر وسیم اختر نے اپنی پہلی محبت”بہاولپور“ کو گلے کا ہار بنائے رکھا۔ ڈاکٹر وسیم اختر آج ہم میں نہیں رہے لیکن ان کی خوشگوار یادیں، محبت بھری مسکراہٹ اور خدمت خلق کیلئے کی گئی انتھک جدوجہد کبھی ذہنوں سے محو نہ ہوسکے گی۔ ڈاکٹر وسیم اختر اپنی تنظیمی مصروفیات کے ساتھ ساتھ اپنے حلقے کے لوگوں کو بھی ہمیشہ یاد رکھتے تھے۔ وہ جب بھی لاہور میں ہوتے تو اپنے علاقے کے عوامی مسائل حل کروانے میں مگن رہتے۔ حلقے کے لوگوں سے ان کا تعلق نہ ٹوٹتا۔ کئی بار تو ایسا ہوتا کہ ان کی گاڑی کی پچھلی سیٹ عوامی مسائل کی فائلوں سے بھری ہوئی ہوتی اور وہاں بیٹھنے کی جگہ نہ بن پاتی۔ڈاکٹر صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ بہاولپور کے لوگوں نے مجھ پر اعتماد کیا ہے تو میرا فرض ہے کہ میں ان کی خدمت کروں اور ان کے مسئلے حل کروانے میں کوشاں رہوں۔ پنجاب اسمبلی میں ڈاکٹر وسیم اختر کی پہچان محافظ پاکستان، مسیحائے بہاولپور، محافظ ختم نبوتﷺ اور ترجمان بحالی صوبہ بہاولپور کے طور پر سامنے آتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی ایک بہت بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ ہروقت باوضو رہتے تھے۔ اسمبلی کے اجلاس میں پوری تیاری اور باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے۔ پنجاب اسمبلی کے ارکان کی کارکردگی جانچنے پر 2013ء تا 2017ء تک پوری پنجاب اسمبلی میں بہترین کارکردگی پر دو ایوارڈزFAFEN+PILDAY سے نوازا گیا۔ پنجاب اسمبلی میں اول تا کلاس پنجم ناظرہ تعلیم اور ششم تا بارہویں کلاس باترجمہ قرآن کی لازمی تعلیم کے بل کی منظوری آپ کی اخروی زندگی کا بہترین سامان ہے۔ صحت کے میدان میں آپ نے بہاولپور وکٹوریا ہسپتال کیلئے سی ٹی سکین مشین، ایم آرآئی مشین اورکڈنی ٹرانسپلانٹ کی سہولت سے آراستہ جدید ترین کڈنی سینٹر اور تجربہ کار عملہ کی منظوری،ہسپتال میں تھیلیسیمیا کے بچوں کیلئے جدید ترین بون میروٹرانسپلانٹ سینٹر کاقیام اور ساڑھے پانچ سو سے زائد تجربہ کار پیرامیڈیکل سٹاف کی منظوری اور وکٹوریا ہسپتال میں بتیس کروڑ روپے کی خطیر رقم سے آئی سی یووارڈ کی اپ گریڈیشن کا اہتمام کیا اور خدا کی قدرت کہ اپنی زندگی کے آخری ایام اسی آئی سی یو میں گزارے اور یہیں سے اپنے رب کے پاس روانہ ہوگئے۔ ڈاکٹر وسیم اختر صاحب کی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے جس کا نام سید عمرعبدالرحمن ہے جنہوں نے ایم بی بی ایس کے بعد ایف سی پی ایس کی ڈگری حاصل کی اور ابھی حال میں ہی آئرلینڈسے دو سال کی سکالرشپ پر اسپیشلائزیشن کرکے واپس آئے ہیں۔ اسی طرح بڑی بیٹی ایم بی بی ایس + ایف سی پی ایس، دوبیٹیوں نے انگلش میں بی ایس آنرز کیا ہوا ہے۔ ایک بیٹی متحدہ عرب امارات میں رہائش پذیر ہے اور سب سے چھوٹی بیٹی آج کل قائداعظم میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کررہی ہے۔ ڈاکٹر وسیم اختر صاحب پانچ بھائی اور تین بہنیں تھیں جن میں سے دو بھائی پہلے وفات پاچکے ہیں۔ اب صرف دو بھائی زندہ ہیں۔میں عمرے سے واپس آنے کے بعد سب سے پہلے بہاولپور ڈاکٹر وسیم اختر کے گھر پہنچا تو وہاں پر اُن کے بھائی سید ذیشان جو کہ جماعت اسلامی بہاولپور کے امیر ہیں، ڈاکٹر صاحب کے دست راست کاشف، اُن کا بیٹا عمرعبدالرحمن اور بہاولپور شہرکے امیر پروفیسر سعید احمد بھی موجود تھے۔ کافی دیر گزرنے کے بعد میں نے اُن کے بیٹے سے بات کی کہ بیٹا ویسے تو آپ نے لاہور میں میرے گھر متعدد بار قیام کیا، مجھے ڈاکٹر صاحب کی زندگی کا کوئی خاص واقعہ بتاؤ تو اُس نے اپنے آنسوؤں پر قابو پاتے ہوئے کہا کہ انکل جس دن میرے ابو نے مکان خریدا اُس دن وہ بہت خوش بھی تھے اور مسلسل روبھی رہے تھے۔ یہ اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے آج ہمیں اپنی چھت دے دی اور دوسری بار جب میں نے کراچی سے والد صاحب کو فون کیا کہ ابوجان میری ایف سی پی ایس مکمل ہوگئی ہے تو فون پر وہ مجھے مسلسل شاباش بھی دیتے رہے اور روتے بھی رہے۔ مجھے زندگی میں والد صاحب سے جب بھی ڈانٹ پڑی تو وہ نماز نہ پڑھنے پر پڑتی تھی۔ میرے والد صاحب میرے بہترین دوست بھی تھے۔ جب میں نے پروفیسر سعید صاحب سے پوچھا کہ آپ کوئی بات کرناچاہیں گے تو وہ بھی روپڑے اور کہنے لگے کہ میں ریٹائرمنٹ کے بعد جماعت کا رُکن بنا۔ میں نے ڈاکٹر صاحب جیسے کردار کا انسان نہیں دیکھا، کردار کے لحاظ سے سچا، جس کا ظاہر و باطن ایک جیسا تھا اور ڈاکٹر صاحب کے کردار اور حُسن ظن کی وجہ سے ہی میں جماعت اسلامی کے قریب آیا۔ میرا ایکسیڈینٹ ہوگیا اور ہسپتال میں داخل تھا۔ ڈاکٹرز نے بھی کہا کہ آپ کا بچنا خاصا مشکل ہے تو میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میری ڈاکٹر وسیم اختر صاحب کیساتھ بات کروادو۔ بہت مشکل سے میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ بات کرسکا کہ ڈاکٹر صاحب میرے پاس وقت کم ہے اور میری ایک وصیت ہے جو کہ میں نے اپنی اولاد کو کی ہے کہ میرا جنازہ آپ نے پڑھانا ہے۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ ڈاکٹر صاحب بہاولپور میں تھے وہ فوراً میرے پاس آگئے اور کہنے لگے کہ آپ کو کیسے معلوم ہے کہ میں نے جنازہ پڑھانا ہے یا آپ نے میرا جنازہ پڑھنا ہے۔ مجھے تسلی دی کہ آپ پریشان نہ ہوں اللہ خیر کرے گا۔ الحمدللہ میں ٹھیک ہوکرگھرآگیا لیکن آج اس دنیا میں ڈاکٹر صاحب نہیں ہیں اس کے بعد وہ مزید بات نہ کرسکے۔ ڈاکٹر وسیم اختر 3جون 2019ء بروز سوموار 29 رمضان المبارک تقریباً سہ پہرتینبجے اللہ کے ہاں پیش ہوگئے۔ ڈاکٹر وسیم اختر انتہائی ملنسار، فرشتہ صفت اور مخلوق خدا سے محبت کرنے والے عظیم انسان تھے، اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند کرے۔ آمین۔
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب